جون 2017

سنگت کانفرنس کے سرورق کے ساتھ ماہتاک ’سنگت ‘مجھے ملا تو جو کتاب میرے زیرِمطالعہ تھی وہ میں نے ایک طرف رکھ دی اور سنگت کی ورق گردانی شروع کر دی ، ورق گردانی کیا تھی کہ پھر تو بس ختم کر کے ہی دم لیا کہ سنگت پھر ختم کیے بنا چھوٹتا ہی کہاں ہے۔
’ لیفٹ رائٹ، رائٹ لیفٹ‘ ؛ہمیشہ کی طرح دماغ کی گرہیں کھولنے والا ایڈیٹوریل جس میں پہلے بین الاقوامی اور ملکی سیاست کو جانچا گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ضیا حکومت کی بنیاد پرستی کا زہر جو آج تک ملک کی رگوں میں دوڑ کر اس کو کھوکھلا کیے ہوئے ہے۔ شونگال میں بتایا گیا کہ اعلیٰ اخلاق کے داعیوں کا جھوٹا وقار تڑخ چکا ہے۔ دائیں بازو کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں ،دایاں اب خود انتہائی دائیں کے نشانے پر ہے۔
’ سنگت کانفرنس‘ میں کانفرنس کا ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ خود کووہیں پایا۔ سنگتوں کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی گئی جو بہت ضروری ہے کہ آئندہ وہ دوہرائی نہ جائیں۔
’ مانبر۔۔۔خوابوں کا جزیرہ‘ جاوید حیات کی تحریر ہے۔ جو گوادر میں مانبر ہاؤسنگ سکیم کی داستان ہے ۔ زمین کی فروخت کی دکھ بھری داستان کو جاوید صاحب نے اس قدر خوب صورتی سے لکھا ہے کہ بس۔ میں چاہوں گی کہ اس خوب صورت مضمون کے چند فقرے آپ دوبارہ ضرور پڑھیں: ’’ مانبر اس نے بھی بیچ دیا جس کا کوئی گھر نہیں تھا ۔ یہ غم اتنا بڑا تھا جیسے کسی جزیرے پرایک پرانا جہاز ٹوٹ گیا ہو‘ یا پھر یہ کہ مانبر اس بچے کا گھروندہ ہے جسے بنانے میں وہ روز گھنٹوں لگاتا ہے اور ذرا دیر میں موجیں اسے بہا لے جاتی ہیں‘ اور یہ بھی کہ ’ اب سنا ہے چاندنی راتوں میں کبوتر، نیل کنٹھ اور چکوروں کے ساتھ اس جزیرے پر کوے بھی دِکھتے ہیں ‘۔ اس اداسی بھرے مضمون کو پڑھ کر مزہ آیا ؛ پتہ نہیں دکھ اور اداسی میں اتنی کشش کیوں ہے!!۔
حال حوال میں سموراج ونڈ کے حوالے سے دو رپورٹس شامل تھیں ۔
کتاب پچار میں ہمیشہ کی طرح’ سنگت کے بکھرے موتی‘ کے عنوان سے مئی کے سنگت پر عابدہ رحمان کا تبصرہ تھا اور دوسرا تبصرہ بھی عابدہ ہی کا تھا جو سی۔آر۔ اسلم صاحب کی کتا ب ’ علم المعیشت‘ پر تھا۔
بلوچالوجی میں وہ مضامین بھی شامل تھے جو سنگت کانفرنس میں پڑھے گئے۔ ’ یوسف عزیز مگسی اور اس کا عہد‘ اس سلسلے کا پہلا مضمون تھا جسے جاوید اختر صاحب نے لکھا اور اس میں اس نے یوسف عزیز مگسی صاحب کی شخصیت کو اس کی ادبی اور سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا۔اچھا تھا۔اسی سلسے کا دوسرا مضمون وحید زہیر صاحب نے ’ شاعرِ کرب و بلا‘ کے نام سے لکھا ، جس میں اس نے مگسی صاحب کی وفات کے بعد ۱۹۳۶ سے ۱۹۵۲ تک کا عرصہ یعنی گل خان کی خدمات کو بہت خوبصورتی سے کور کیا۔تیسرا مقالہ اس کے بعد کے عرصے یعنی ۱۹۵۲ سے ۲۰۱۶ کے عرصے پر محیط تھا جسے ساجد بزدار صاحب نے ’ ایک عہد کا سفر‘ کے عنوان سے نہایت خوبی سے نبھایا۔
بلوچالوجی کا ایک اور بہت اچھا مضمون ’ مہر گڑھ‘ کے عنوان سے تھا جسے ایوب بلوچ صاحب نے انگریزی میں لکھا۔ اس مضمون میں انھوں نے ایک فرنچ آرکیولوجسٹ کے بارے میں لکھا کہ جو اپنی بیوی کے ساتھ مہر گڑھ کافی سال بعد دوبارہ آیا تھا۔ اور مہر گڑھ کی طرف سفر میں جگہ جگہ دکھ کا اظہار کیا کہ وہاں کے ٹیلوں اور دوسری چیزوں کو محفوظ نہیں کیا گیا اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں ۔ اور یہ کہ کافی سال پہلے کے وزٹ میں یہاں کے وزرا نے آرکیولوجی اور مہر گڑھ کے بارے بہت دلچسپی کا اظہار کیا تھا ۔ اس لیے انھوں نے انھیں اس موضوع پر لیکچر دیے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ایوب صاحب نے بتایا کہ میں نے سرینا میں ایک ایسا ہی انتظام کیا گیا۔ وزیراعلیٰ اور فرانسیسی ایمبیسیڈر کو شرکت کی دعوت دی ۔جین فرینکؤس اور کیتھین کی خواہش پر انھیں سامعین میں بٹھایا کہ اگر وہ نالج لینا چاہتے ہیں تو انھیں اسٹیج پر نہیں، سب کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔
بلوچالوجی میں ’ فوڈ اینڈ نیوٹریشن فیکلٹی‘ اور’ سنگت کانفرنس مشاعرے‘ کی رپورٹس تھیں جو کہ میرے خیال سے تو ’ حال حوال‘ میں ان کی جگہ ہونا چاہیے تھی۔
پوہ زانت میں اس بار دو مضامین تھے ؛ ’ میں کیا لکھوں ؟‘ حمیرا صدف حسنی کا، ایک احساس بھرا دکھ لیے ہوئے مضمون تھا۔ کتنے غم ہیں ہماری مٹی کے لیکن لکھنا تو ہے ، بولنا تو ہے ۔کیوں کہ جمود کا شکار ہو کر تو انسان مر جاتا ہے۔
دوسرا ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا سلسلہ وار مضمون ’ شاہ لطیف‘ تھا جو اسی طرح اپنی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مضمون پڑھ کر آپ بور ہو جائیں گے تو میں انھی کے الفاظ میں کہوں گی کہ اپنے ذہن کو واشنگ مشین میں ڈالیے اور پھر پڑھئے اور مزہ لیجیے ۔ زبان کا ذائقہ دیر تک برقرار رکھنے کے لیے میں ہمیشہ ’ شاہ لطیف‘ آخر میں پڑھتی ہوں ۔
اور اب ’ قصہ‘ ۔ پہلا افسانہ عابدہ رحمان کا تھا ،’ ماہیِ بے آب‘ کے عنوان سے جو غریب مچھیروں کی استحصال بھری زندگی سے متعلق تھا جس میں ان کی ساری محنت کا پھل کوئی اور لے جاتا ہے اور وہ خود غریب سے غریب تر ہوکر مزید بیماریوں ، مایوسیوں اور دکھوں کا شکار ہو کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
ننگر چنا صاحب سندھی ادب سے اچھے افسانوں کا انتخاب کر کے بہت اچھا ترجمہ کر رہے ہیں ۔ علی بابا کے قصے ’ ساتھ دیتے ہیں کچھ اس طرح‘ میں بھی دنیا کی بے ثباتی ، معاشرے کی بے حسی کو بہت اچھے سے بیان کیا گیا ہے لیکن آخر میں پروفیسر کے کردار نے یہ بھی بتایاکہ ہر طرح کی بے حسی کے باوجود دینا میں روشنی پھیلانے والے، امید دلانے والے کردار موجود ہیں جن کی مثبت سوچ ہی دنیا کو اب تک بچائے ہوئے ہے۔
آمنہ ابڑو نے ’ چھوٹی سی کہانی‘ میں ایک بہت بڑی بات کر دی کہ محبتیں ، آسانیاں، خوشیاں بانٹو کہ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ تقسیم کرنے کم کبھی نہیں ہوتیں بلکہ بڑھتی ہی ہیں اور خود بھی انسان مطمئن رہتا ہے۔
علی بابا ہی کے ایک اور افسانے ’ نیا سال، پرانا کال‘ کا ترجمہ بھی ننگر چنا صاحب نے بہت اچھا کیا۔ ایک دیومالائی رنگ لیے ہوئے خوب صورت افسانہ؛ آج کے معاشرے پر ایک گہرا طنز ہر طرح کا ظلم و استحصال کے باوجود موروثی گونگا پن ہے جو نسل در نسل چلتا چلا جا رہا ہے۔ آخر حالات کیسے بدلیں گے جب زبانیں گنگ ہوں گی؟!۔
اور اب لیتے ہیں مزہ شاعری کی رم جھم کا۔
’ رقاصِ اول‘ نوشین قمبرانی کی ایک بہت حسین نظم جسے پڑھ کر تو بندے کی روح میں گھنٹیاں بجنے لگیں؛
آبِ گُم کی ہوائیں کتھک کر رہی تھیں تھرکتی ہوئی،
ان سنے راگ پر
عشق بھی ان ہواؤں کے سنگ ہو لیا
اس گھڑی عشق رقاصِ اول بنا!۔
واہ!۔
نوشین ہی کی ایک اور نظم’ قدیم محبت کی نوخیز نظم‘ بھی کمال کی رہی۔
کاوش عباسی نے بھی ’ لبرل طرح دار‘ کے عنوان سے ایک بہت اچھی نظم کہی۔ اچھا لگا پڑھ کے۔
اور تمثیل کا ضبط تو ذرا دیکھئے ؛
میں باہر سے بھی گہری ہوں میں اندر سے بھی گہری ہوں
مگر میں حد میں رہتی ہوں، میں آنکھوں تک نہیں پھیلی
تو دیکھئے پھر انجیل کی قناعت:
تیرے سکے مجھ کو سونا ہیں
چل ماٹی مٹکی پھوڑ پیا
کیسے ہو سکتا ہے کہ بلال اسود کی غزل کی بات نہ کی جائے۔ اس کا ایک شعر تو ذرا پڑھیں؛
دوڑ پڑتا ہوں میں ہر بار سرابوں کی طرف
یہ تمنا کی دھنک کیسے مجھے کھینچتی ہے
افشین قمبرانی کے ’ قطعہ‘ کا ذکر نہ کر کے ہم بڑی نا انصافی کریں گے؛
بوئے سنجد کو طلسماتی فضائیں ترسیں
شال کی دید کو بے چین نگاہیں ترسیں
میرے ہاتھوں میں ترے لمس کا ارماں جاگے
وقت کے سوکھتے ہونٹوں پہ دعائیں ترسیں!
جی کیا کہا؟؟ سنا نہیں ۔ اچھا ثبینہ رفعت؟؟ تو آپ کیا سمجھے کہ ہم انھیں بھول گئے ہیں ۔۔۔ نہیں ! بلکہ میں ان کی شاعری سب سے آخر میں پڑھتی ہوں۔ ان کی نظم ’ کونے کا پتھر‘ تو دل چاہتا ہے کہ پوری کی پوری یہاں لکھ دوں لیکن ایک ٹکڑے ہی پر گزارا کرنا پڑے گا؛
یہ سوغات خیرات کسی
کسی اونچی ذات کو دے دو
گاڑی والی بیگم صاحبہ
میں تو صرف
ناف سے نیچے عورت ہوں!۔
معاشرے کا کس قدر سچ ہے اور کتنا دکھ ہے اس نظم میں۔انھی کی ایک اور خوب صورت نظم ’بیدار‘ ان سطروں کا ذکر ہم کیوں نہ کریں؛
یقین مانو
رات صرف سونے کے لیے
نہیں ہوتی!۔
اس کے علاوہ شان گل نے پابلو نرودا کی شاعری کا بلوچی ترجمہ بڑی خوب صورتی سے کیا۔بورخیس کی ایک نظم کا بلوچی ترجمہ قاسم فراز نے کیا۔ جب کہ بلوچی نثر کے حصے میں گوہر ملک کی ایک کہانی ’’توتو او ماتو‘‘ شامل تھی۔ یہ بچوں کے لیے لکھی گئی سبق آموزکہانی ہے۔ سادہ اور رواں نثر ، جیسے ندی کا چلتا پانی۔ بلوچی میں ایک مضمون ربانی عارف کا بھی ہے؛’من شاعرے نیاں۔‘ یعنی میں شاعر نہیں ہوں، حالاں کہ درحقیقت اس نے اپنے شاعر ہونے کے دلائل ہی تراشے ہیں۔ ساتھ ہی براہوی میں بھی دو مضامین شامل ہیں۔ ایک تو عبداللہ جان کی کتاب لٹ خانہ کا غم خوار حیات نے براہوی میں ترجمہ شروع کیا ہے۔ دوسرا مضمون غم خوار حیات ہی کا کفایت کرار سے متعلق ہے۔ نوشکی کے اس جواں فکر شاعر و ادیب نے بھری جوانی میں خودکشی کر لی تھی۔ یہ مضمون ان کی مختصر زندگی اور فکر کامفصل حال سناتا ہے۔ مختصراً، اس بار بلوچی براہوی کی نمائندگی مقدار میں کم سہی مگر معیار میں اعلیٰ رہی۔
یہ تھی جون کے سنگت کی محفل۔۔۔ ملتے ہیں اگلے ماہتاک سنگت کے ساتھ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے