لائن میں کھڑی قطار ۔۔۔ گاڑیوں کے شیشوں پر تیزی سے کپڑا مارنے والے چھوٹے چھوٹے ہاتھ۔۔۔ باعزت طبقے سے تعلق رکھنے والی مخلوق کی گالیاں سنتا ہوا۔ حقارت بھری نظروں سے بے نیاز ۔۔۔ صرف روٹی کے لیے۔۔۔؟؟؟
ظاہر سی بات ہے کتنی کمائی ہوگی؟۔۔۔ جس سے بنگلہ یاگاڑی خرید سکے گا؟؟؟؟ ۔۔۔کئی سوال مجھے اپنے ساتھ گھسیٹتے لے گئے ۔
سڑک پہ اس کھڑی بڑقعہ پوش عورت ۔۔ہاتھ پھیلائے ۔۔منتظر کوئی تو ہو جو کچھ ترس کر کے کچھ روپے پھینک جائے۔۔۔۔۔روپے کے بدلے اور کچھ نہ کہے۔۔۔۔
نکڑ پہ کھڑی وہ میک اپ زدہ چہرہ لیے ۔ ۔۔ معاشرے کے مکروہ ہوس زدہ آنکھوں کی منتظر ۔۔کہ کچھ تو آج ہو پائے شاید بابا کی دوائی کے پیسے پورے ہوں۔۔۔؟؟؟ ۔۔۔۔ شاید میں کسی کے تسکین کا سبب بن سکوں؟؟؟۔
سوال۔۔۔۔سوال ۔۔۔۔سوال
پیچھا کرتے ہوئے کئی سوال۔۔۔
بازار میں چلتی ہوئی زندگی۔۔۔کئی چہروں کے مختلف تاثرات کا منظر ۔۔کہیں بیزاری ۔۔۔کہیں جلدی ۔۔۔ کہیں تجسُسّ کہ پردے کے پیچھے والی کس عمر کی ہوگی؟؟؟
منہ چڑھاتی قیمتیں۔۔۔ضروریات زندگی ۔۔اف نوپارکنگ میں کھڑی گاڑی پر چالان کا شور ۔۔۔مالک چالان دینے سے انکاری ۔۔۔بے بس انتظامیہ ۔۔جاؤ کچھ بھی کرلو۔۔۔دند ناتاہواصاحب ۔۔گاڑی اٹھانے والوں کو جرات ہی نہیں ہوئی ۔۔کہ گاڑی اٹھالیں۔۔۔یا اُسے ہاتھ بھی لگائیں۔۔
ٹھیک دوسری سڑک کے کونے پر کھیرے کی ریڑھی الٹ دی گئی۔ تمہیں نہیں پتہ کہ یہاں کھڑی نہیں کرنی ریڑھی؟؟؟ ۔۔صاحب او صاحب۔۔میرے بچوں کی روزی روٹی کا سوال ہے آئندہ نہیں کروں گا ۔۔آج معاف کردو۔۔۔چل تھانے ڈنڈا ہوا میں لہرایا ۔۔خالی ریڑھی گھسیٹتا ۔۔کانپتا وجود ۔۔۔بے بس ولاچار تھانے کی طرف روانہ۔۔۔
پھر سے سوال۔۔سردآہ کے ساتھ۔۔۔
زندگی رک تھوڑی جاتی ہے؟۔۔۔تماشائی تتر بتر ہوگئے۔
تڑ تڑ تڑ تڑ ۔۔گولیوں کی بوچھاڑ
پھر کوئی سرخ دن ۔۔۔سسکیوں کی آوازیں سائرن میں ڈو بتی رہیں۔ماں کا انتظار ۔۔بچوں کا بابا کے بائیک کی آواز سننے کا انتظار۔۔ کہ محلے میں شور مچاتی ایمبولینس کی سائرن ۔۔۔گیٹ پر بھاگ کر پہنچنے والے بچے ۔۔۔سکتہ طاری بابا آنکھیں نہیں کھولتے؟؟؟بابا سوگئے ؟؟؟
سوال۔۔۔۔سوال۔۔۔سوال۔۔۔
مفلوج زندگی۔۔۔۔ایک چھوٹا سا کام۔۔۔ کاغذ کے پرزے پر صرف ایک دستخط کے لیے کئی دنوں سے کھڑے قطار میں بہانوں کی فہرست سنتے ہوئے چہرے پر کئی سوال۔۔۔۔ چائے پانی کا ایک ہزار یہاں دوں تو بچوں کے ایک ہفتے کے خرچے کا کیا ہوگا۔۔؟؟؟
سوال۔۔۔۔
یہ کس دور کی کہانی ہے ؟
کیا میں اب بھی صدیوں پرانے دور میں زندہ ہوں؟
جہاں سچ بولنے کے لیے زہرکی سزا مقرر ہوئی ؟؟؟
لاؤ زہر کا پیالہ مجھے دیدو۔۔کیوں کہ زہر کا ذائقہ صدیوں سے میرے حلق میں اتراتر کر مجھے کڑواہٹ کی عادی بنا چکی ہے۔
اب یہ کڑواہٹ میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔
ٹی وی سکرین پر گالیاں دیتا ہوا شخص ۔۔ اف خدایا یہ زندگی کو کیسے سمجھتا ہوگا؟؟۔۔بولنے کی غیر اخلاقی آزادی کیا آدمی ہر شے کا پیمانہ ہے ؟؟۔
مکے ۔۔لاتوں ۔۔بھوتوں کی بارش۔۔۔
درد کے لاشے پر فوٹو سیشن ۔۔کیمروں کی چکا چوند چمک ۔
سوال ۔ ۔۔پھرسوال۔۔۔
کالے دھوئیں کے ہولناک بادل آسماں پر پھیل گئے ۔ ۔۔اور عجیب سی بونتھنوں کو چھوگئی۔ ۔ ۔اف گوشت کی بو، سجی ایک روایتی ڈش۔۔۔پھر انسانوں کے جلتے وجود ۔۔یہ کسی بو۔ ؟۔۔کیسی روایات ؟؟؟؟۔۔آسمان کی طرف اڑتی روحوں کی بے چینی ؟ بے وقت بے گھر کیا گیا؟؟۔۔۔
سوال۔۔۔سوال۔۔
مسیحا درد کی دوا بننے دوڑ پڑے ۔۔۔پر یہ کیا خودردبن گئے ؟؟۔۔۔ انصاف کے لیے نعرہ لگانے والے ہاتھ کٹ کر گر گئے ۔۔۔خود انصاف کے لیے سوالی ۔۔۔خون میں لت پت۔۔۔سوال کئی سوال۔۔۔
شہرِ نا پرساں سوگ میں ڈوب گیا۔۔۔
ماتمی ہوائیں ۔۔۔نوحہ کناں منظر۔۔۔پہاڑ اس بے بسی پر بے چینی کے عالم میں پھٹ پڑنے کے منتظر۔۔۔
پر کہیں اس ماتمی منظر سے بے نیاز موسیقی کی آوازسنائی دیتی رہی ۔۔۔۔یہ جشن اس غم سے بالکل ہم آہنگ نہیں۔۔۔ آنکھیں زندگی کے آخری منظر پر فوکس ۔۔خبر کا حصہ ۔۔۔
سوال۔۔۔پھر سوال۔۔۔
دور کہیں دھڑ سے الگ پڑا ہوا سر آنکھیں کھلی ہوئی۔۔ آسمان کی طرف واویلا کرتی روحوں کے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے