صبح سویرے ہالار ابھی سکول جانے کی تیاری کررہا تھا کہ اس کے باپ نے گھر آکر یہ خبر سنائی کہ گھر کے آنگن میں کھڑے نیم کے گھنے اور بڑے پیڑکو کاٹنے کے لیے بڑھئی آچکے ہیں۔اس کے باپ نے تمام خواتین کو کمرے میں چلے جانے کا کہا۔اس وقت ہالار،جورات کو ساتویں جماعت کے پڑھے اسباق کو یادکرنے میں مشغول تھا،وہ سکول کی تیاری کرنا بھول گیا اور اس کے چھوٹے سے دل میں زلزلہ بپاہوگیا۔ ’’بالکل نہیں،یہ درخت مجھے بابا اور امی جتنا پیارا ہے،اسے کاٹوگے تو میں گھر میں نہیں رہوں گا۔سیدھے جاکر رائس کینال میں چھلانگ ماروں گا۔‘‘
’’اے لڑکے! پاگل ہوگئے ہوکیا؟‘‘ بیوہ اور لاولد پھوپھی نے غصہ میں آکر کہا،’’ اس درخت نے پورے گھر کا ستیاناس کردیا ہے۔جہاں تہاں بیٹ کے ڈھیرہیں۔اس دن تمہارا باپ بیٹھا روٹی کھا رہا تھا کہ سالن کی پلیٹ میں بیٹ آکر گری تھی۔‘‘
’’ کچھ بھی کہو،یہ درخت میرا دوست ہے۔میں اس کے گھونسلوں میں بیٹھے پرندوں سے باتیں کیا کرتا ہوں۔وہ مجھے اپنی زبان میں گفتگوکرتے بہت اچھے لگتے ہیں۔‘‘ اتنا کہتے ہی ہالار کی آنکھیں بھرآئیں۔
’’ بس،بس۔ٹسوے مت بہاؤ۔درخت نے گھر کے آنگن کو آنگن رہنے نہیں دیا ہے۔ایک تو بڑی جگہ گھیرکر کھڑا ہے دوسری بات یہ ہے کہ جب دیکھو تب پورا صحن کچی پکی نمولیوں اورخشک پتوں سے بھرا ہوا ہے۔جھاڑو دے دے کر تھک جاتی ہیں،لیکن صفائی کا بیڑہ ہمیشہ غرق رہتاہے۔‘‘ اس کی بڑی بہن نے ناک کو موڑتے ہوئے انتہائی بیزاری سے بات کی۔
ہالار اپنے ننھے منے ہاتھوں سے آنسو پونچھ کر بڑی بہن کی بات سنی ان سنی کرکے ماں کی طرف دوڑا،’’ ماں ! اے ماں!! میری پیاری ماں! تم بابا کومنع کروناں۔اسے خدا کا واسطہ دے کر منع کروکہ درخت مت کاٹے۔اگر یہ درخت کٹ گیا تو گرمیوں میں جب گھنٹوں گھنٹوں بجلی چلی جاتی ہے،تب میں کہاں سوؤں گا؟میں تو اسی کے سائے میں سوتا ہوں۔‘‘
ماں نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے کہا،’’ اس برس تمہارے باپ کی آمدنی میں کچھ اضافہ ہوا ہے،اس لیے اے سی اور جنریٹر ضرور لیں گے۔اس لیے تمہیں درخت کے نیچے سوناہی نہیں پڑے گا۔‘‘
’’ نہیں،ماں! نہیں۔‘‘ ہالار نے ملتجیانہ لہجہ میں کہا،’’ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں،تیرے پاؤں پڑتا ہوں،ابا کو کہو….‘‘
اس کی ماں نے اسے بات پوری کرنے نہیں دی،’’ خواہ مخواہ کی ضد مت کرو،جلدی تیار ہوکر سکول جاؤ،ورنہ دیر ہوجانے پر ماسٹر ایک بار پھر پچھلی بینچ پر آدھا گھنٹا کھڑے رہنے کی سزا دے گا۔‘‘
’’ نہیں،میں سکول نہیں جاؤں گا۔میں گیا توتم لوگ یہ درخت کٹوادوگے۔‘‘
’’ باز نہیں آتے۔‘‘ اس کی ماں نے ڈانٹنے کے ساتھ ایک تھپڑ بھی جڑدیا۔
تھپڑلگنے سے ہالار کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔
اس وقت اس کا باپ اندرونی کمرے میں آیا اور اسے چیختے چلاتے دیکھ کر ششدر رہ گیا،’’ ارے! کیوں روتے ہو؟‘‘ وہ ہالار سے مخاطب ہوا اور پھر اس کی ماں کی طرف منہ کرکے کہنے لگا،’’کیا سکول نہ جانے کا بہانہ کررہا ہے؟‘‘
’’ نہیں۔‘‘ماں نے کہا،’’ کہہ رہا ہے کہ درخت مت کٹواؤ،ورنہ میں جاکررائس کینال میں کود جاؤں گا۔‘‘
’’ ارے ہاں!؟‘‘ باپ نے اسے گھور اور آنکھوں میں غصہ بھرکرکہا۔
’’ ہاں۔‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’ یہ درخت مجھے تم اور ماں جتنا پیارا ہے….‘‘
’’ کہتے کیا ہو!؟‘‘ اس کے باپ کے جسم میں غصہ کی لہر دوڑ گئی اور اسے ایک تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ سیدھاکر کے آگے بڑھاتو ہالار دوڑتا ہوا پلک جھپکتے ہی گھر کے بیرونی دروازے سے باہر نکل گیا ۔اس کا باپ بھی اسی تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔پیچھے گھر کی عورتوں کے چہروں پر غم و غصہ کے سبب کئی عجیب و غریب رنگ بنتے بگڑتے رہے۔
’’ چھورے کی ضد تو دیکھو،سب منع کررہے ہیں لیکن وہ ہے کہ کسی کی سنتا ہی نہیں ہے۔‘‘ بیوہ پھوپھی نے کہہ کر گردن ایک طرف کردی۔
’’ ماں! تم اسے کچھ پیار سے سمجھاؤ ناں!‘‘ چھوٹی بہن نے دھیمے لہجہ میں ماں سے کہا ۔
’’ مُوا!پیار سے کب سمجھتا ہے۔بس ،کسی بات پر اڑ گیا تواڑ گیا۔‘‘
یوں اندرونی کمرے میں عورتوں کی گفتگو اس طرح جاری تھی کہ باپ ہالار کو قمیص کے کالر سے گھسیٹتا ہوالایا اور اسے کمرے کے فرش پر پھینک دیا۔
ہالار سے ایک بڑی چیخ نکلی اور وہ چلاچلاکر روتے ہوئے جنونی کیفیت میںآگیا اور فرش پر پانی سے نکلی مچھلی کی طرح تڑپتا لڑھکیاں کھانے لگا۔
ماں دوڑتی ہوئی آئی اور بیٹے پر گرپڑی اور وہ بھی بے اختیار بیٹے کے ساتھ سر ملاکر رونے لگی۔
باپ یہ منظر دیکھ کر ڈھے پڑا۔اس کا تمام تر غصہ کافور ہوگیا۔اس نے فوراََ ہالار کو حکم دیتے ہوئے کہا،’’ ارے ! اب اٹھو،اٹھو،شاباش! نہیں کٹتا تمہارا درخت۔بس اب تو راضی ہوناں!؟‘‘
ماں نے ہاتھ بڑھا کر ہالار کو اٹھانے کی کوشش کی،لیکن اس سے پہلے ہالار خود چھلانگ مار کر اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی آنکھوں میں ابھی تک آنسو بھرے ہوئے تھے،لیکن اس کے ہونٹوں پر ایک بڑی فاتحانہ مسکراہٹ بکھر چکی تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے