مصنفین : احمد سلیم اور نذہت عباس
اشاعت : 2017ء
قیمت:800روپے
صفحات :264
پبلشر: جمہوری پبلی کیشنز لاہور
احمد سلیم اور نذہت عباس کی کتاب ’’جام ساقی : چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘مشہور سیاسی رہنما جام ساقی کی سیاسی سوا نح عمری ہے ۔ نذہت عباس نے جام ساقی سے کئی انٹرویو کر کے ریکارڈ کیے ۔ جن کا دورانیہ 51گھنٹے تھا۔ پھر اس طویل گفتگو کو تحریری شکل دی گئی ۔ اس کے علاوہ اس کتاب کی تیاری میں دیگر مواد کوبھی بروئے کار لایا گیا ہے۔البتہ کتاب میں اقاعدہ حوالہ جات نہیں ہیں کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلا باب’’جام ساقی : دھرتی، جنم اور تعلیم ‘‘ میں جام ساقی کی جائے پیدائش جھنجھیتحصیل چھاچھرو ضلع تھرپاکر،سندھ کا تاریخی پس منظر، سامراج دشمن تحریک مزاحمت اور دیگر سیاسی واقعات کو بیان کیا گیا ہے ۔ 1844ء میں ہوش محمد شیدی کی قیادت میں چارلس نیپئرکے سندھ پر قبضے کے خلاف مزاحمتی جنگ کو تفصیل سے بیان کیا گیاہے ۔ بعد ازاں 1857ء میں روپلو کوہلی کی برطانوی سامراج کے خلاف تحریک بغاوت کا پس منظر دیا گیا ہے ۔ یہی جام ساقی کے زندگی بھر پسندیدہ ہیرو رہے ۔ جام ساقی کے ایک اور ہیرو ہمیوں کالانڑیں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ ان سب نے اپنی دہرتی سندھ کے ننگ و ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر نمیرانی (شہادت) کا جام نوش کیا۔ اسی باب میں جام کی ابتدائی تعلیم کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے ۔ وہ ابھی میٹرک میں زیرِتعلیم تھا کہ اس کے گاؤں کے ایک ریٹائرڈ پرائمری استاد عنایت اللہ نے اسے پاکستان کی زیرِ زمین کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ کردیا۔ اسی دوران اس نے دیگر طلبا سے مل کر ایک دستخطی مہم شروع کی ۔ جس کے تین نکات تھے
۔1 مادری زبانوں میں امتحانات لیے جائیں
۔2 انٹر سائنس میں کامیاب ہونے والے طلبا کی نشستوں میں اضافہ کر کے انہیں داخلے دیے جائیں
۔3 طلباء وطالبات سے فیس صرف ایک دفعہ لی جائے ۔
جام ساقی نے حیدرآبادسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ جو بعد میں سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میں تبدیل ہوگئی۔ دریں اثناجام ساقی اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی مرتبہ گرفتار ہوااور جیل گیا۔
زیرِ نظر کتاب کا دوسرا باب ’’جام ساقی اور طلباء تحریک‘‘ میں ایوبی مارشل لا کے دورِ تاریک میں جام ساقی کی طلباء تحریک کے پلیٹ فارم پر سیاسی جدوجہد کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ بعدازاں اس نے یہ جدوجہد جنرل یحییٰ خان کے دورِ ظلمت میں بھی جاری رکھی اور کئی مرتبہ جیل یاتراکی ۔1970کے پہلے عام انتخابات میں جام ساقی نے اندرون ضلع تھر پارکر (چھاچھرو اورننگر پارکر) کے علاقے سے صوبائی نشست پر انتخاب لڑا۔ وہ ناکام رہا ۔ جام ساقی کی سیاسی سرگرمیاں بھٹو کے دورِ جبر میں بھی جاری رہیں اور وہ اس عہد میں بھی بھٹو حکومت کے ہاتھوں زیرِ عتاب رہا۔
کتاب کا تیسرا باب’’ صلیبسیں میرے در بچے کی‘‘ بھٹو عہد میں جام ساقی روپوشی سے شروع ہوتاہے ۔ اس میں اس کی گرفتاری کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اس باب میں پٹ فیڈر کسان تحریک کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر ہے جس میں جام ساقی کے ساتھیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ 10دسمبر1978کو جام ساقی کو گرفتار کر لیا گیا۔ او رلاہور شاہی قلعے میں رکھا گیا۔ ابھی وہ قید میں تھا کہ اس کی بیوی سکھاں کا انتقال ہوگیا۔ یہ اس کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا۔ لیکن پھر بھی اس کے قدم متزلزل نہیں ہوئے اور وہ راہ انقلاب کی پر خار وادیوں میں محوِ سفر رہا۔
کتاب کاچوتھا باب’’ نذیر عباسی شہید ‘‘جام ساقی مقدمے کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ 30جولائی 1980میں نذیر عباسی کو گرفتار کر لیا گیااور 19اگست 1980ء کو اسے شہید کر دیاگیا۔ اس کی شہادت کے بعد جام ساقی اورچھ دیگر رہنماؤں پر جو مقدمہ چلایا گیا۔
کتاب کا پانچواں باب’’جام ساقی مقدمہ ‘‘جام ساقی اور اس کے ساتھیوں پر چلائے جانے والے مقدمے کی کاروائیوں کا احاطہ کرتا ہے ۔ جس میں فوجی عدالت ، وکیل ، دستاویز اور گواہیاں ، جن میں صداقت نام کی کوئی چیز بھی نہیں تھی، کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
زیرِ نظر کتاب کا چھٹا باب ’’جام ساقی اور ڈی ایس ایف کیس ‘‘ میں جام ساقی پر چلائے جانے والے ایک اور سیاسی مقدمے کی روئیداد بھی بیان کی گئی ہے ۔ جو ایک پمفلٹ لکھنے کی پاداش میں قائم کیا گیا۔ یہ مقدمہ ڈی ایس ایف کے رہنما گفشام پرکاش اور دیگر طلباء رہنماؤں کے خلاف تھا ۔ اس میں جام ساقی گواہ صفائی کے طور پر پیش ہوا۔ اس میں اس نے اپنا جوتحریری بیان دیا وہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
ساتویں باب ’’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ جام ساقی کی زندگی کے مختلف واقعات اور اس کی شخصیت کے گوناگوں گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔ یہ باب1990میں کمیونسٹ پارٹی کی چوتھی کانگریس پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ جس میں جام ساقی اور امام علی نازش کے اختلافات جام ساقی کے استعفیٰ پر منتج ہوئے۔
زیرِ نظر کتاب سیاسی کارکنوں کے لیے ایک ضروری دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔