1
عزیز احمد شباب کی رعنائیوں کا مجسمہ۔ لمبے قد نرگسی آنکھوں بلوریں اور غزالی گردن والا عزیز احمدابھی عمر کے اکیسویں بہار میں قدم رکھنے والا تھا کہ والد کے سایہ سے محروم ہوگیا۔
جس طرح کہ قدامت پرست رئیسوں کا شیوہ ہے کہ ہر ایک فائدہ بخش اور نفع رساں چیز سے جس کا حصول خاص کر فی زمانہ عزت اور آرام سے رہنے کے لیے ضروری ہے،ہمارے باپ دادوں نے ایسا نہیں کیا۔ ’’ہماری اولاد کو ملازمت تھوڑی کرنی ہے۔ اسلاف کی روایات اور طرزِ معاشرت کے لیے انگریزی تعلیم مضر ہے ،خطرناک ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ کہہ کر اپنی اولاد کی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح عزیز احمد کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا۔ البتہ احباب کے مجبور کرنے پر عزیز احمد کے والد صرف اس حد تک آمادہ ہوئے کہ عزیز احمد کے لیے ایک اردو فارسی کا معلم 80روپیہ ماہوار مشاہرہ پر رکھا گیا۔
2
عزیز احمد فطرت سے ایک خاص قسم کا دل و دماغ لے کر آیا ہوا تھا۔ اور نہایت ہی ذہین تھا ۔ جس طرح کہ رئیس زادے اکثراً سیر و شکار کھیل و کود کے دلدادہ ہوتے ہیں، عزیز احمد کو ان باتوں سے نفرت تھی۔ اس کو بچپن سے ہی حصولِ تعلیم کا شوق نہ تھا بلکہ جنون تھا۔چار بجے منہ اندھیرے اٹھ کر نوکر کو ساتھ لیے استاد کے ہاں جانا، اور شام منہ اندھیرے گھر واپس آنا۔ گھر میں بھی کتابیں ساتھ لے آنا ۔ کھانا کھانے کے بعد چراغ سامنے رکھ کر پڑھے ہوئے سبق کو پوری طرح حفظ کرلینا۔ یہ اس کا روزکا معمول تھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ اس کی والدہ نے پہلی نیند کے بعد کروٹ لینے پر جو اپنے سعید بیٹے کو یوں مصروفِ کتاب دیکھا تو جذبۂ محبتِ مادری سے مغلوب ہوکر بستر سے اٹھ عزیز احمد کے گالوں پر مُہرِ محبت ثبت کرتے ہوئے کہا۔ ’’میرے لال اب بہت وقت گذر گیا ہے۔ دیکھو اتنی تکلیف سے دماغ خراب ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اپنی ماں کا کہنا مان ، چل سو جا‘‘۔عزیز احمد بیچارہ والدہ کی تعمیلِ حکم میں چپ چاپ آ بستر پر لیٹ جاتا۔ بستر پر بھی کافی عرصہ تک زیر لب کچھ گنگنا تار ہتا۔ شاید وہ باقی حصہ کو جسے والدہ کی خاطر ترک کرنا پڑا تھا حفظ کرتا ہوگا۔
بالآخر چار سال کی سرگرم تعلیم کے بعد جب عزیز احمد کے والد نواب محمد عثمان خان نے عزیز احمد کے معلم کو خلعت جو چار سو روپیہ نقد، ایک لنگی ریشمی اور چند دیگر ریشمی پارچات پر مشتمل تھی، دے کر رخصت کیا تو عزیز احمد اُس وقت فارسی اور اردو کی ہر ایک مشکل سے مشکل کتاب بآسانی پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ اُسے اگر افسوس تھا، ہاں نا قابلِ تشریح افسوس، تو عدم حصولِ تعلیمِ انگریزی کا۔۔۔۔۔۔
3
عزیز احمد کے دوبھائی اور تھے۔ ایک تو نواب اشفاق احمد جس کی عمر تقریباً پنتالیس برس تھی۔ اور یہ سوتیلی ماں سے تھے۔ چونکہ بڑے صاحبزادہ ہونے کی حیثیت سے والد کی مسند کے جانشین ہونے والے تھے، اس لیے چھوٹے نواب کہلاتے تھے ۔ اس احساس نے کہ اب چند دنوں میں15 ہزار رعایا کی قسمت کے مالک ہونے والے تھے، اور ساتھ مال کی کثرت خود مختار انہ حکمرانی کا نشہ اور بچپن کی تربیت کے فقدان نے نواب اشفاق احمد خان کو قدرتی طور پر ایک بے رحم اور پتھر دل انسان بنا دیا تھا۔ اپنی بہیمانہ خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ ہر ایک ذلیل سے ذلیل ننگ انسانیت افعال کے ارتکاب سے بھی نہ جھجکتا۔
دوسرے چھوٹے بھائی جو عزیز احمد کے ’’ ماں جائے‘‘ تھے ، اس کا نام رشید احمد تھا۔ اور اس کی عمرِ 15 برس تھی۔ یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب کہ نواب محمد عثمان خان کو انتقال کیے ایک ہفتہ گذر چکا تھا۔ نواب مرحوم چونکہ ایک نہایت ہی متمول رئیس اور اپنے شہر کے سردار تھے۔ ان کے انتقال کے بعد کچھ دن تو اعزہ داری اور آنے جانے والوں کے انتظار خدمت گزاری میں صرف ہوئے۔ اِن رسمی مظاہروں سے فراغت کے بعد نواب اشفاق احمد کی رسم گدی نشینی سنائی گئی۔ جس میں شہر کے تمام معزز رؤ سا ،وکیل ، ڈاکٹر ،مجسٹریٹ، ڈپٹی کمشنر ، کمشنر شریک ہوئے۔
آخر کار وہ لمحہ بھی آگیا جس میں کہ عزیز احمد اور اس کے چھوٹے بھائی رشید احمد کی قسمتوں کا اہم فیصلہ ہونے والا تھا۔ نواب اشفاق احمد نے خود ہی اپنے چند ہم جیسوں کی وساطت سے تقسیمِ جائیداد کے متعلق سلسلہ جنبانی شروع کی۔ عزیز احمد نے اس کا جواب یوں دیا کہ نواب اشفاق احمد صاحب میرے بزرگ بھائی اور میرے لیے پدرانہ حیثیت رکھتے تھے۔ ہم دونوں یتیم بھائی اس کو ہی اپنا باپ سمجھ کر اُس کے سایۂ عاطفت میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم علیحدگی کے ہر گزاً خواہشمند نہیں۔ اگر وہ اس پر مصر ہیں تو ہم بہ حالت مجبوری صرف ان کی خواہش کی تکمیل میں خلل انداز ہونے کی بناء پر سب اختیارات ان کو دے دیتے ہیں۔ وہ جس طرح مناسب تصور فرمادیں، کریں۔
نواب اشفاق احمد کے لیے یہ مژدہ ہلالِ عید سے در جہا بڑھ کر سامعہ نواز تھا۔ انہوں نے جھٹ ایک مسودہ( جسے ان کے کیفیتِ باطن کی زندہ تصور کہنا مبالغہ نہ ہوگا) تیار کروایا۔ جس کے رو سے تمام جائیداد غیر منقولہ کے دو حصوں کا حقدار نواب اشفاق اور 1/3 حصہ کے حقدار دونوں بھائی عزیز احمد اور رشید احمد ٹھہرتے تھے۔ غیر منقولہ جائیداد جو 5 لاکھ روپیہ نقد اور 3 سو گھوڑوں اور 150 اونٹوں اور دیگرمال پرمشتمل تھی، میں سے گھوڑے اونٹ اور مال مویشی تو نواب اشفاق احمد نے اپنے لیے محفوظ رکھے ۔ صرف روپیہ کی تقسیم یوں کی کہ دو لاکھ عزیز احمد اور رشید احمد کے لیے، اور تین لاکھ اپنے لیے رکھ لیے ۔ اور اس تقسیم کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ جواز لکھا گیاکہ چونکہ نواب اشفاق احمد کو فرائضِ گدی نشینی اور انتظامیہ امور ات سجھانے کے لیے زیادہ طاقت ور ہونے کی ضرورت ہے اس لیے فریقین کی رضا مندی سے یہی طے پایا۔ اس غیر قانونی ،غیر شرعی اورغیر اخلاقی فیصلہ کو جانتے ہوئے بھی عزیز احمد نے اپنی شرافتِ نفسی سے مسودہ پر خود بھی دستخط کردیے، اور رشید احمد سے بھی دستخط کروادیے۔ فیصلہ ریاست کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ میں پیش کیا گیا۔چونکہ فریقین راضی تھے، کسی قسم کا اعتراض نہ ہوا۔
4
عزیز احمد کو باپ کے ورثہ سے ملی ہوئی جائیداد باوجود غیرمنصفانہ تقسیم کے اس قدرتھی کہ عزیز احمد تھوڑے عرصہ میں اپنی سخاوت اورطبعی شرافت کے وجہ سے ہرایک کے دل میں گھر کر گیا۔ شہر کے اعلیٰ طبقات کے افراد عزیز احمد سے گفتگو کرنا ،تعلقات بڑھانا اپنا فخر سمجھتے تھے۔
ہمدردی اور خدا ترسی چونکہ فطرتاً ودیعت شدہ تھی، اس لیے غریب طبقہ عزیز احمد کو اپنا محبوب لیڈر کہا کرتے تھے۔ دولت مندی، سخاوت، شرافت ، بہادری، ہمدردی، خداترسی ، خوبصورتی جو ایک عطیہ الٰہی ہے، عزیز احمد ان تمام خوبیوں کا سرمایہ دار تھا۔ وہ ،چند ملکوتی صفات جو ایک انسان کو سطح انسانی سے بلند اُس اعلےٰ وارفع آسمانِ شہرت تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتی رہتی ہیں، کا بھی مالک تھا۔
عزیز احمد ان اخلاقِ حسنہ اور اوصافِ نادرہ سے بھی کافی حد تک بہرہ مند تھا۔ حد درجہ کا ملنسار، منکسر المزاج تھا۔ حصولِ تعیشں کے اسباب کی فراہمی کے باوجود تعیش کو لعنتِ الٰہی سمجھتا تھا۔ جس طرح کہ کنول کا پھول پانی میں رہ کر تردامنی سے پاک رہتا ہے۔ اسی طرح مادی دنیا کے اسبابِ تعیش سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی اور وابستگی نہ تھی۔ مطالعہ کے بے حد شغف سے احباب بھی اکثراً شکوہ طراز رہتے۔متعدد رسالہ جات اور اخبارات کے مستقل خریدار تھے۔ علامہ سر اقبال اور مولانا الطاف حسین حالی کی تصنیفات کے مطالعہ سے اُس نے ایسے عقائد کو اُن کے سانچے میں ڈالدیا تھا۔ قوم کی موجودہ بے کسی اور بے حسی نے اس کے خیالات میں ایک انقلاب عظیم پیدا کردیا تھا۔ وہ اکثر اً ذیل کے اشعار گنگناتا رہتا۔
عمر یست کہ آوازہِ منصور کہن شد
من از سرِ نو جلوہ دہم دارورسن را
بے خطرہ کو دپڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تما شائے لبِ بام ابھی
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستا ں پیدا
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا
پھر مایوسی کے لہجہ میں کہتے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
پھول بے پرواہیں، تُو گرمِ نواہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے، آوازِ درا ہو یا نہ ہو
5
دسمبر کا شروع ہے۔ اخباری دنیا میں ہلچل مچی ہوتی ہے۔ ’’انڈین نیشنل کانگرس کا 44واں اجلاس لاہور میں منعقد ہوگا ‘‘کے عنوان موٹی قلم سے چھاپے جاتے ہیں۔ ہر ایک حریت کا شیدائی ہمہ تن انتظار اور شمولیت کے لیے تیار ہے۔ بھلا یہ وقت عزیز احمد کے لیے گھر بیٹھنے کا کہاں۔ ملوکیت پرست احباب کے نشیب و فراز سمجھانے کے باوجو د24 دسمبر کو لاہور روانہ چل پڑے۔ کانگرس کے کُھلے اجلاس میں گئے ۔ لیڈروں کی تقاریر سنیں۔قربانی و ایثار کا مادہ قدرت سے پہلے ہی ودیعت تھا۔ اس اجتماعِ عظیم اور نعرہ ہائے ملوکیت شکن نے جلتی پر تیل چھڑکا ۔ دوسرے دن ایک مقامی اخبار میں عزیز احمد کے نام سے ایک آرٹیکل شائع ہوا۔ جس میں قوم کو ہدایت تھی کہ نعرہِ اللہ اکبر سے استعمار پسندی کی زنجیریں جھٹک کر پھینک دو، اور میدانِ جہاد میں سربکف ہوکر نکلو۔ اور باقی حصہ مرزا آفتاب احمد چیف کمشنر ریاست جبل پور کے فرعونی مظالم کے خلاف تھا۔ جس کو عزیز احمد کا حساس دل نہایت بری طرح محسوس کررہا تھا ۔مرزا آفتاب احمد چیف کمشنر ریاست جبل پور 18 سال سے اس عہد پر مامور ہیں ۔ان کے عقیدہ میں اگر کوئی چیز قابلِ اعتبار ہے تو زور اور چالبازی۔ اس کی دنیا جبر و تشدد اورمکر ( ایک لفظ پڑھ نہیں جارہا۔ ش۔م)تک محدود تھی۔ کسی چیز کے ارادہ کرلینے پر اس کے حصول کے لیے ہر ایک مذموم حرکت عمل میں لانی کوئی بڑی بات نہ تھی ۔ کسی بیوہ کی فریاد ،کسی یتیم کی زاری اُن کو اپنے فیصلہ سے باز نہیں رکھ سکتی تھی۔
الغرض وہ ایک ایسی طاغوتی قوت کے اوتار تھے جس کی مثال دنیا کو پیدا کرنا تقریباً دشوار ہے ۔ چونکہ گورنمنٹ برطانیہ کے بڑے خیر خواہ تھے، اور ریاست کی تمام پیداوار اُن کی خوشنودیِ مزاج پر صرف کی جاتی تھی اس لیے پبلک کی چیخ و پُکار و اویلا کے باوجود وہ زیادہ مضبوط پوزیشن حاصل کرتے گئے۔ تعلیم صرف پرائمری تک محدود تھی۔ مگر مشہور ہے کہ روپیہ قاضی الحاجات ہے، اس لیے تمام برٹش پولیٹیکل آفیسر اُن کے اس عیب کو نظر انداز کیے جاتے تھے۔
6
بالآخر3 جنوری کا وہ منحوس یا سعید دن بھی آپہنچا ۔ جب اس ناز و نعم کے پروردہ نوجوان کو پولیٹیکل ایجنٹ ریاست جبل پور نے طلب کیا۔ اور وہ آرٹیکل عزیز احمد کو پڑھ کر سنایا گیا۔ عزیز احمد نے کہا کہ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ ایک ثالث کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس کا فرض ضرورت پڑنے پر ریاست کے راعی اور رعایا کے درمیان انصاف کو قائم رکھناہے۔ چونکہ مجھے کامل احساس ہے کہ آپ مرزآفتاب احمد چیف کمشنر ریاست کے زیر اثر اپنی حقیقی پوزیشن قائم نہیں رکھ سکتے۔اس لیے میں خاموش ہوں۔
تین مہینہ کی پیشی پڑی۔ عزیزا حمد کو پولیٹیکل ایجنٹ نے مرزا آفتاب احمد کے حوالہ کردیاکہ وہ اپنے عزم کو ریاست کے جیل میں تا تاریخ پیشی رکھے۔
عزیز احمد کو جیل میں کسی قسم کے اخبار یا رسالجات یا مطالعہ کے لیے دوسری کتب نہیں ملتی تھیں۔ مرزا آفتاب احمد کے ہدایت کے بموجب عزیز احمد کو ہر قسم کی روحانی تکالیف دی گئیں۔ اس تین ماہ کے عرصہ میں مرزا آفتاب احمد کی ریشہ دوانیاں پایۂ تکمیل تک پہنچ چکی تھی۔ تاریخ پیشی پر پولیٹیکل ایجنٹ نے آٹھ ہزار روپیہ جرمانہ اور ڈیڑھ سال سزائے قید کا فیصلہ سنا دیا۔ آٹھ ہزار تو عزیز احمد کی جامہ تلاشی سے بوقت گرفتاری برآمد ہوا، داخلِ جرمانہ کردیا گیا۔ اور عزیر احمد کو جیل بھیج دیا گیا۔ بس اب اس کا واحد مشغلہ جیل میں نماز اور تلاوت قرآن شریف تھا جو کہ پانچ ترجموں والا تھا۔ اور حاشیہ پر تفسیر بھی تھی۔ وہ قرآن شریف کے معنی نہایت ہی غوروانہماک سے ذہن نشین کرتا ۔ اور اُس وقت تک کہ کسی آیت کے معنی اور شانِ نزول کے متعلق اس کو پوری تسلی نہ ہوتی، آگے نہ بڑھتا تھا۔ وہ نماز کے اصلی مقصد تک پہنچنے کی کوشش میں رہتا جو مقصد خداوند پاک کو نمازسے مقصود تھا۔ قرآن پاک کی رسمی تلاوت اُس کے عقیدہ میں بے معنی اور جہل تھا ۔وہ قرآن حکیم کو صحیفہِ فطرت کا جامع خلاصہ اور خدا کا آخری فرمان ایک خالق حکیم و علیم کا اپنی مخلوق کی طرف اس کے لیے دنیا میں خوش اسلوبی ۔۔۔۔( فقرہ نامکمل ہے۔۔۔ایڈیٹر )۔اس کے علاوہ رات کو بعد نماز عشا دو گھنٹہ اللہ سے خالی الذین ہوکر یادِ حق میں گزارنا اُس کا معمول تھا۔جیل میں گیارہ مہینہ کے درمیان آخر، اُس نے اپنی صادقانہ ان تھک کوششوں سے گوہرِ صداقت کو پالیا۔ فلسفۂ اسلام اور حق وباطل کی جنگ کے اسباب اس کے فہم میں آگئے ۔ اب وہ ایک نڈر توحید پرست تھا۔ باطل کی بہیمانہ باطل آُ راؤں نے اس کو ’’ حق‘‘ سے آگاہ کردیا تھا۔ وہ براھیمی عشق اور قربانی کا جذبہ چاہتا تھا،اس کو وہ حاصل ہوگیا۔ وہ حسین علیہ السلام کی سی تڑپ اور شہادت کی زبردست تمنا مانگتا تھا، اس کومل گئی ۔ وہ اپنی کوٹھڑی میں 1 بجے سے 3 بجے مجنوانہ اٹھ کر یہی کہتا سنائی دیا کرتا تھا۔
تیروسنان و خنجر و شمشیر م آرزوست
بامن میا کہ مسلکِ شبیرم آرزوست
پھر کہتا:
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
پھر کہتا:
آں قدر زخمے کہ دل میخواست در پیکاں نہ بود
( پورا شعر یوں ہے:
خویش را بر نوکِ مژگانِ ستم کیشاں زدم
آں قدر زخمے کہ دل میخواست در خنجرنہ بود۔۔۔ش م)
الغرض اس عرصہ میں انوارِ الٰہی کی فیاضانہ بارش نے اس کو اپنی اصلیت سے باخبر کردیا تھا۔ اس کے چہرہ سے الوہیت برستی تھی۔ وہ عزیز احمد جو کبھی اعلیٰ قسم کے کشمیرہ کے سوٹ میں ملبوس تھا۔ اب ایک سفید لٹھ کی شلوار، کھلے گلے کی خاکی قمیض اس کے اوپر سفید لٹھ کی چادر اُس کا لباس تھا۔ سردی ہو یا گرمی وہ اس لباس میں رہتا۔ سر برہنہ رہنے سے وہ خوش رہتا۔ الغرض و ہ سادگی کا ایک مکمل مجسمہ ہوگیا۔
7
عزیزاحمد کے جیل جانے کی وجہ سے رشید احمد اب تنہا بے یارومددگار رہ گیا۔اُدھر سے نواب اشفاق احمد جس کا ضمیر احساسِ محبت اور جذبۂ ہمدردی سے قطعاً بیگانہ تھا۔ مزید بران عزیز احمد کی روزافزوں قابلیت اور ہر دلعزیزی نے اس کو رقیبانہ جذبات کی پرورش پر مجبور کردیا تھا۔ عرصہ سے ایسے موقعہ کے انتظار میں تھا۔ اب عزیز احمد کی اسیری اور رشید احمد کی خورد سالی و نا تجربہ کاری سے اُس نے نہایت ہی سرعُت سے فائدہ اٹھانے اور اپنی خود غرضانہ خواہشات کے تکمیل کی ٹھانی۔ اور افسرانِ مقامی کے کان بھرنے شروع کیے ۔ عزیز احمد کو ایک مادرزاد انقلاب پسند اور دشمنِ حکومت ثابت کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ مرزا آفتاب احمد چیف کمشنر ریاست جبل پور نام کو تو صرف چیف کمشنر تھا، مگر اصلیت میں تو والیِ ریاست بھی وہ تھا، اور مجسٹریٹ بھی۔ پولٹیکل ایجنٹ اُس کے اشارہ پر ناچتے تھے۔ ان کی سخت گیری کی وجہ سے اب تک ریاست میں کسی قسم کی تحریک نے جنم نہ لیا تھا۔ پبلک جلسہ تو کجا، دس بیس کی مجلس میں بھی اگر کوئی ملکی اصلاحات اور موجود ہ نقائص کا ذکر غلطی سے کر بیٹھتا تو بے مقدمہ چلائے سالوں تک جیل کی چکی پیستا۔ ویسے تو ریاستیں اکثراً قانون و انصاف سے مستثنیٰ سمجھتی جاتی ہیں۔ مگر جس قسم سے قانون و انصاف کا خون اس ریاست میں بالخصوص مرزا آفتاب احمدکی حکومت میں ہوتا رہتا ہے، اس کی مثال تمام دنیا کے کسی گوشہ میں نہ ملے گی ۔ عوام کوتعلیم سے دانستہ بے خبر رکھا گیا۔ تمام ریاست میں تلاش کرنے پر چندگنتی کے پرائمری پاس ملیں گے اس لیے اس ریاست میں مارشل لا جاری تھا۔
چونکہ مرزا صاحب تو عزیز احمد کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دیکھنے میں متمنی تھے۔ ا ن کو عزیز احمد سے ایک ذاتی اور ناقابلِ معافی کدورت پیدا ہوچکی تھی۔ ان کی دلی حالت یہ تھی کہ عزیز احمد پر سخت سے سخت تر تکالیف ڈالی جائیں اور وہ روئے گڑگڑائے ، ان سے معافی مانگے۔ عزیز احمد نے سزا سے قبل بالواسطہ یا بلاواسطہ تحریری یا زبانی معافی مانگی بھی ہوتی مگر اب تو وصولِ صداقت کے بعد وہ ماسوااللہ کے کسی کے سامنے ناجائزطور پر جھکنا شر ک اور کفر سمجھتا تھا۔ مرزا آفتاب احمد نے نواب اشفاق احمد کی آڑ میں یا نواب اشفاق نے مرزا آفتاب احمد کی مدد سے بہر حال جو سمجھ لو، ایسا جال تیار کیا کہ نواب اشفاق کی ایک درخواست پر عزیز احمد اور رشید احمد کی جاگیر جو اُن کو حصہ میں دی گئی تھی، تا حکمِ ثانی کورٹ آف وارڈز میں داخل کی گئی۔ رشید احمد نا تجربہ کاری کی وجہ سے کچھ نہ کرسکتا تھا۔اورکرتا بھی کیا جب کہ پولٹیکل ایجنٹ سے ریذیڈنٹ تک آفتاب احمد کے زیراثر تھے۔ ان پے درپے مصیبتوں کے نزول سے بے چار ہ رشید احمد جس نے کبھی غم کی شکل تک نہ دیکھی تھی، کس حالت میں ہوگا،اس کا اندازہ وہ دل کرسکتا ہے جس پر کبھی ایسی گذری ہو۔ بھلابیس تیس افراد پر مشتمل کنبہ اور امیرانہ حیثیت سے رہنے کے عادی اب کیسے گزارہ کرتے ۔ بارہا ایسا ہوا کہ دنوں سے گزر کر ہفتوں تک فاقہ پر نوبت پہنچی۔ عزیز احمد پابندی کی حالت میں اپنے پسماندگان کی یہ حالت سن کر خاموش ہوجاتا۔ اور کبھی اُس کی زبان سے حرفِ شکایت نہیں نکلا۔ ہر الم انگیز سانحہ کی خبرپرالحمد لللہ علی کل حال کہہ کر خاموش ہوجاتا۔
8
عزیز احمد کو تقریباً ایک سال اس حالت میں ہوگیا ہے ۔ دو بجے رات کا عمل ہے۔ عزیزاحمد کی کوٹھڑی میں ایک ہریکین لیمپ جس کی روشنی نہایت مدھم ہے جل رہی ہے۔ عزیز احمد ایک دری پر چادر اوڑھے دوزانو بیٹھا ہوا ہے۔ اس وقت وہ ماحول کے اثرات سے بے خبر کسی خاص شعف میں آنکھیں بند گردن نیچے کیے ہوئے بیٹھا ہے۔ اچانک بلند آواز سے السلام علیکم کی روح پرور صدا سکوت کو چیرتی ہوئی اُس کے کانوں میں پہنچی۔ گردن اوپر ہوئی ۔ آنکھیں نیم واتھیں۔اپنے سامنے دونورانی مجسمے انسانی شکل میں کھڑے تھے۔ کوٹھڑی کا دروازہ بدستور مقفل پاکر عزیز احمد حیران سارہ گیا۔ مسرت و استعجاب کے مشترکہ جذبات کے زیر اثرچند ساعتوں تک خاموش رہنے کے بعد و علیکم اسلام رحمتہ اللہ و برکاتہ کہا اور گویا ہوا ’’ کیا میں اپنے معزز مہمانوں کی تعریف اور مقصدِ تشریف آوری سے آگاہ ہوسکتا ہوں ؟ ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے عزیز احمد نے کچھ ہٹ کر اُن مہمانوں کو وہاں بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔ وہ دو نامعلوم مہمان وہاں بیٹھ گئے۔ عزیز احمد بھی ان کے نزدیک بیٹھ گیا۔ اُن دو میں سے ایک شاید عہدہ میں اس سے اعلیٰ ہوگا ،نے کہنا شروع کیا ’’ ہم دونوں فرشتہِ انصاف ہیں ۔ کائناتِ ارضی میں انصاف قائم رکھنے کے لیے بارگاہِ ایزدی سے مامور ہیں۔ مرزا آفتاب احمدچیف کمشنر اور نواب اشفاق احمد کی چیرہ دستیاں،آپ کی مظلومیت اور صابریت اپنے انتہائی معراج کی کمال پر پہنچ چکی ہیں۔ اس ایک سال میں آپ نے حقِ بندگی کو خوب نبھایا ۔ ہم آپ کو بارگاہ ایزدی سے ’’صابر ‘‘کا خطاب عطا ہونے کا مژدہ سنانے اور آ پ کی تکالیف کا خاتمہ کرکے انصاف پہنچانے اور مرزا آفتاب احمد اور نواب اشفاق احمد کو اُن کے کیفرِکردار کے انجام پر پہنچانے آئے ہیں۔ عند اللہ تو اُن کا شمار ظالموں میں کبھی سے قرار دیا گیا ہے۔ مگر اب عند الناس کو ان کے اصلی رنگ میں پیش کرکے ان کی فرعونیت کا حشر ان کو یہاں بھی بھگتانا ہے‘‘۔ پھر چند لمحہ ساکت رہ کر :’’آپ خاموش اورمضمحل کیوں ہوگئے۔ اب تو آمدِ بہار ہے ۔ آپ کی تکالیف و مصائب کا آج سے خاتمہ ہوگیا۔ آپ کے معاندین کو آپ کے حسبِ منشا سنگین سزائیں دی جائیں گی۔ مگر آپ تو برعکس اس کے زیادہ اُداس ہوتے جاتے ہیں‘‘۔ فرشتہ نے کہا۔
’’اے انصاف کے فرشتو !میں تابع نہیں کہ میری متاع زندگی جو میرا ایک فطری (لفظ کٹا ہوا ہے۔۔ایڈیٹر ) کے عیوض کسی چیز کے عطا ہونے کا مژد ہ مجھے مسرور کرسکتا ہے۔ میری بندگی جزاکے لالچ سے بے پرواہ ہے ۔مرزا آفتاب احمد بنی آدم کی حیثیت سے میرے بھائی ہیں۔مجھے اُن سے کسی قسم کی کدورت رنجش نہیں۔ واللہ باللہ میں اس کی بربادی کا خواہاں نہیں۔ میں اس کو عقوبت کے شکنجہ میں گرفتار دیکھنا نہیں چاہتا۔ بلکہ میں اس کی ہدایت کا منتظر ہوں۔ خدار ا جاؤ ۔ جلدی جاؤ ۔ آپ کو خدائے واحد کی عظمت کا واسطہ ہے۔ جاؤ درگاہِ ایزدی سے اُس حکم کو اِن لفظوں میں تبدیل کرواؤ کہ مرزا آفتاب احمد کی بے نور آنکھوں کو نورِ ہدایت کا سرمہ لگایا جاوے۔ اُس کے مُردہ ضمیر کی صدائے اللہ اکبر سے مسیحائی کی جاوے ۔ اس کے مفلوج قدم کو صراطِ مستقیم کی شاہی سڑک پر راجع کیا جاوے۔’’ نبی آدم اعضائے یک دیگرند‘‘ کے معنی اس کو ذہن نشین کرائے جاویں۔ بس یہی میرا انتہائے زندگی ہے۔ یہی میری تمنا ہے۔ اور یہی میری زندگی کا اجرہے۔ اور یہی میرے لیے میرے مولائے پاک کی خوشنودی کا تمغہ ہے ۔ مرزا آفتاب احمد کی سزا یافتگی میرے لیے ’’ میری جزائے بندگی کی فوتیدگی اور میری رفتارِ بندگی میں مخل ہونے کے مترادف ہے ۔ اس کی ہدایت میری تن آسانی اورسُست گامی کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہوگی‘‘۔
یکا یک عزیز احمد خاموش ہوگیا۔ اس کی آواز گُلو گیر ہوگئی تھی۔اس کی دونوں آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اُس کے رُخسار کو وضو کروارہے تھے۔ اچانک مجنونانہ حالت میں وہ اُٹھ تنکر کھڑا ہوگیا۔ فرشتوں کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا۔’’ اٹھواے فرشتو۔ مالک کی بارگاہ میں ہم آہنگ ہوکر عرض کریں‘‘ ۔ اس وقت عزیز احمد کی حالت ایسی رُعب انگیز ہورہی تھی کہ فرشتوں کو تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ عزیز احمد کے دونوں ہاتھ اوپر سرتک گئے۔
’’اے میرے خالقِ ارض و سما!۔ اے قسامِ ازل۔ اے رحیموں کے رحیم۔ اے دنیا کے آقا کہلانے والے بندوں کے آقا! ۔مرزا آفتاب احمد پر رحم کر۔ سزا دینے کے بجائے اُسے ہدایت عطا فرما۔ اس کے ساتھ میری رنجش سوائے اس ایک امر کے کچھ اور نہیں کہ وہ اپنی بے بصری سے تیرے بنائے ہوئے احکام پر چلنے سے گریز کرتا ہے۔ پھرتُوکیوں نہ اُس کو ہدایت سے منور کرتا ہے۔ میرے مولا ۔تُو منصفِ حقیقی ہے مگر تیرے انصاف پر تیرے رحم کو تقویت ہے۔ پھر کیوں بیچارہ آفتاب احمد تیرے رحم سے محروم رہے۔ اسی طرح بے چارہ نواب اشفاق احمد میرے بزرگ بھائی وہ بھی چاہِ ضلالت میں غلطان ہے۔ آپ کے دریائے رحمت کی ایک موج اُن کے راہِ راست پر لانے کو کافی ہے ۔ مولارحم کر ۔جب تک کہ رحمت کی سطح میں امواج حرکت میں نہ آئیں گے، میں الحاح و زاری کا چپو چلاتا جاؤں گا‘‘۔ یہاں آکر عزیز احمد کی ہچکی بندھ گئی۔ آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا کہ دو چھوٹے چشموں سے اُمڈتا ہوا نکل رہا تھا۔ ایک دو لمحہ میں عزیز احمد بے ہوش ہوکر فرش پر گر پڑا۔
دو نوں فرشتوں نے عزیز احمد کے بے ہوش جسم کو اٹھا کر تعظیم و تکریم سے فرش پر لٹا دیا اور خود غائب ہوئے۔
9
فضا میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ فرشتوں میں ایک ایسی خوشی کا سماں بندھا ہوا ہے جیسے کہ آج اُن کا کوئی سالانہ جشن ہے۔ ہر ایک مقام پر 20,20، 40,40 فرشتوں کا مجمع ہے۔اور ہر ایک کی زبان پریہی گیت جاری ہے۔
مکمل ہوگئی انسان پہ تعلیمِ قرآنی
ہوئی ہے آج کی شب جیل میں تکمیلِ انسانی
اسی شب پچھلے آسمان پر جلی حروف میں لکھا ہوا پایا گیا:
تکمیلِ انسانیت