میں کہ دریا نہیں
میں کہ صحرا نہیں
میں نہ منزل ، نہ رستہ ، نہ راہ ِ سفر
تجھ کو مجھ سے ہے کیا؟
میں بتوں کی پرستش کی قائل نہیں
تجھ کو دعوی خداء کا ہے تو رہے
من کے کعبہ کو مندر بنانا نہیں
دل کے مَسند کی قدریں گرانا نہیں
لاکہ کافر کو اس میں بٹھانا نہیں
میں نہ مہر و وفا
میں نہ جانوں جفا
مجھ کو جو ہو سو ہو
تجھ کو مجھ سے ہے کیا؟
میں نہ ظالم کی صف میں، نہ مظلوم کی
میں نہ قاتل کی صف میں، نہ مقتول کی
میں کہ میری نہیں سمجھو تیری نہیں
مجھ کو اپنا نہیں ہے تو اوروں سے کیا؟
تجھ کو مجھ سے ہے کیاَ؟
میں نہ ماضی کے پنّوں پہ لکھا نشاں
نہ ہی کندھے پہ اب کے ہوں بارِ گراں
نہ میں ٹہری ہوئی ، نہ میں سیلِ رواں
نہ تو اپنے لئے چاہوں سارا جہاں
نہ میں تیرے لئے کوئی سود و زیاں
تیرا کھاتہ الگ میرا کھاتہ الگ
تجھ کو مجھ سے ہے کیا؟