خواب کا عالَم تو ہے پر خواب رْو کوئی نہیں
دشت میں دیوانگی کے مَیں یا تْو کوئی نہیں
کاروان _ شوق جیسے راستوں کا وہم ہے
اور مْسافت کی تَہوں میں جْستْجْو کوئی نہیں
یاں زمیں کی ہْوک کْہرا بن کے پھیلی جائے ہے
واں خِلاوں میں خِلاء کے رْوبَرْو کوئی نہیں
بار_لا موجود کا اِک جان لیوا خوف ہے
بے بسی بھی ہے یہی کہ چارسْو کوئی نہیں
شور تھا جن قْدرتوں کا خاک میں مِلتی گئیں
آنکھ جو کھولی تو جانا ہَست و ہوْ کوئی نہیں
مَیں تمھاری عْمرِ گْم گشتہ مِیں پھر تْم سے مِلْوں
ایک اِس فِکشَن سِوا اب آرزو کوئی نہیں
راستے ہیں پْوچھتے، اے کم نظر سوداگَرو!
خونِ شْہدا کی تمہیں کیا آبرْو کوئی نہیں؟