حالیہ چوتھائی صدی کے دوران پاکستان کی سیاست ، خصوصاً اُس کی بورژوا سیاست، عجب اتھل پتھل کا شکار رہی ہے ۔ اور یہ اتھل پتھل یہاں کے بالائی طبقات کی سیاست کے گڑھ پنجاب میں وقوع پذیر ہوئی ہے ۔
نچلے طبقات کی سیاست تو گذشتہ کئی دہائیوں سے بالعموم ،مگراور 1992کے بعد سے بالخصوص سخت دباؤمیں رہی ہے ۔ اسے دوبار بڑی مار پڑی ۔ سرکاری (امریکی) مارتو روشن فکر تحریک کے لیے کبھی مار رہی ہی نہیں کہ وہ تو محض پابندیوں، جیلوں، کوڑوں یا پھر اموات والی مار رہی ہے ۔ اصل مارتو دونوں مرتبہ اِس سیاست کو سوویت یونین کی طرف سے پڑی۔ پہلی ضرب ساٹھ کی دہائی میں خروشچیف اورسوویت کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس کے موقع پر پڑی تھی۔ اس کانگریس نے سٹالن کے سوویت یونین کے بارے میں جو انکشافات کیے انہوں نے رومانس بھرے ہمارے مشرق کی تیسری دنیا میں ایک ہلچل مچادی۔ اورسوشلزم کے بارے میں رومانٹسزم کے چھکے چھوٹ گئے۔ اُس کے بعد لوگوں نے انٹرنیشنل سے ذرا نظریں موڑ دی تھیں اور داخل کی طرف دیکھنا شروع کردیا تھا۔
مزدور تحریک کو دوسری مار بھی سوویت یونین ہی سے پڑی ۔ اس باریہ بھیجا گھما ڈالنے والی مار بدصورت وبدہیئت خروشچیف کی طرف سے نہیں بلکہ بھلی شکل وصورت اور اچھی باتیں کرنے والے گور باچوف سے پڑی۔ اُس بھائی صاحب نے ایک کتاب ، پراسٹرؔ ائیکا لکھ کر دنیا بھر میں سوشلزم والوں کی ٹانگوں پہ ہڈی شکن ڈنڈا مارا۔پتہ نہیں کتنے درجن اسباب یکجا ہوئے تو اُس کی قیادت میں سوشلزم والا روس ٹوٹا، وہاں سوشلزم کا اقتدار ختم ہوا، اورروس کے اتحادی مشرقی یورپ میں کمیونزم کا خاتمہ کردیا گیا۔ حیرت کی انتہا دیکھیے کہ کمیونسٹ پارٹیوں پر تقریباً اِن تمام سوشلسٹ ملکوں میں پابندی لگ گئی۔ اور اِن ممالک کی سرمایہ داری نظام کی طرف باجماعت واپسی شروع کردی۔
تیسری دنیا کے روشن فکر اور ترقی دوست سیاسی ورکروں کے لیے یہ ایک اذیتناک صورت تھی، اُن کا پورا آئیڈیل دھڑام ہوچکا تھا۔چنانچہ پارٹیوں نے سارے غیر ضروری نعرے ترک کردیئے ،ناقابل دید بعید مستقبل کی باتیں حذف کیں اور زیادہ حقیقت پسند ہوئے بغیر کوئی راہ ہی نہ تھی۔
کچھ لوگ تو اس قدر ’’ حقیقت پسند ‘‘ ہوگئے کہ اپنی سابقہ صفوں میں سے ہی بھاگ لیے۔ جن بچے کھچوں نے پیپلز پارٹی جیسی پناہ گاہوں میں پناہ لینی تھی یا اسی طرح کی نئی پناہ گاہیں بنالینی تھیں وہ بھی بورژو اسیاست کو پیارے ہوگئے ۔ مگر جولنگڑے لولے اپنی جگہ پہ کھڑے رہنے کا مقدر ساتھ لائے تھے، وہ محض چراغ بجھنے نہ دینے والا واحد فریضہ ادا کر رہے ہیں۔
اب ذرا انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے اندر کا سونامی بھی ملا حظہ کیجئے۔روایت ہے کہ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو جماعت اسلامی کے لوگ ’’ جشنِ شکستِ سوویت یونین‘‘ منانے کے لیے چادر پھیلا کر دکان دکان چندہ لے رہے تھے۔ جب وہ ایک کمیونسٹ کی دکان پہنچے اور چندہ مانگا تو اُس نے ڈبل چندہ دیتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا تھا: ’’دیکھو پورے علاقے میں دو ہی پہلوان تھے جو اکھاڑے میں لڑرہے تھے۔پھر،ان میں سے ایک یعنی سوشلزم نامی پہلوان کا پاؤں پھسل گیا اور وہ اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا ۔ اب بتاؤ دوسرا پہلوان یعنی کپٹل ازم کیا کرے گا۔ اکھاڑہ تو سجے گانہیں کہ دوسرا پہلوان ہے ہی نہیں ۔ لہٰذا وہ دو چار دن گلی محلے میں بدمعاشی کرنے کے بعد دیکھنا،منگ پھلیاں ہی بیچے گا‘‘۔
بات گئی آگئی ۔ مگر اب تیس برس بعدشاید صورتحال ویسی ہی بنی۔
تیسری دنیا میں جب بھی دائیں بازو کی سیاست کا تذکرہ ہورہا ہو تو دراصل حکمران طبقات کی بات ہورہی ہوتی ہے۔ پچھلے پچیس تیس برس میں پاکستان کا حکمران طبقہ اپنی کمپوزیشن میں بہت تبدیل ہوچکا ہے ۔ہمارا حکمران طبقہ ہے کون؟۔ ہم اس کی طبقاتی ساخت ذرا سا ایک طرف رکھ کر بات کرتے ہیں۔موجودہ حکمران طبقے کے ہر ہرادارے کے لوگ ضیاء الحق کے نصاب ، اساتذہ اور اُن دونوں کی جنگ باز ذہنیت والی پنجاب یونیورسٹی جیسے اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان یونیورسٹیوں نے جوتوسیع پسندی کے عزئم سے پُر مڈل کلاس پیدا کرکے زندگی کی شاہراہ پر اُگل دی ہے وہ ساری کی ساری متشدد بنیاد پرستی کے عرق میں غرق ہے۔ ایسی بنیاد پرستی جو دائروں حدوں سے چھلک چھلک جائے۔ اپنے خیالات کا پرچم لے کر آئیڈیلزم کایہ گھڑسوار دستہ’’ تراپڑ تراپڑ ‘‘ملکوں فصلوں لائبریریوں کوتاراج کرتا ہوا ایک ہی حاکم تلے دنیا کو فتح کرنے پر تلا ہواہے۔ یہ ذہنیت اصول ، انسانی اقدار، کنونشن، قانون کچھ نہیں مانتی۔معاشی طور پر کُھل کے استحصال اور لوٹ مار بھی کرنی ہے مگر اعلیٰ اخلاق کی بات بھی بڑے زور شور سے کرنی ہے۔
یہی فصل تیار ہوتی رہی تعلیمی اداروں میں۔حتیٰ کہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جن سیاسی پارٹیوں نے یونیورسٹیوں میں یہ بیج بوئے تھے اب وہ بھی اِن یونیورسٹیوں سے نکلے ہمارے آج کے اِن حکمران ذہنوں کو قبول نہیں ۔ پیداوار نے بڑا ہو کر بیج ہی کو نامکمل و نا پختہ و ناقابلِ قبول کرڈالا۔ خود قاضی حسین احمد ، فضل الرحمن ،محمد خان شیرانی اور غفور حیدری ریجیکٹ ۔خود اُن پہ جان لیوا حملے ہوئے۔اس ذہنیت نے تورا بورا سے لے کر ایبٹ آباد تک ، پھر مسجدوں سے لے کر مزاروں جنازوں تک،اور ملالہ سے لے کر مشال تک ایسی سرگردانی کی کہ ہر ادارے میں اس ذہنیت کوبالادستی حاصل ہوگئی۔ہزاروں سویلین اِس تخمِ تلخ کے شکار ہوئے۔ نہ صرف ہزاروں فوجی جوان و افسر اِس پر خچے کرنے والے آتشیں اسلحہ کی زد میں آئے بلکہ بالآخرAPS نامی سکول میں اُن کے معصوم بچے بھون ڈالے گئے۔تب ہی جاکر ہمارے حکمران اداروں میں سے ہر ایک ادارے کے اندر جاری جنگ کولڈ سے ہاٹ میں بدل گئی۔ اوریوں ضربِ عضب اور ردالفساد کے نام سے ایک ’’طوعاً ‘‘اورایک’’ کرہاً‘‘ کاآغاہوا۔یہ جنگ بہت آہستگی سے اور بہت جزوی انداز میں جاری ہے۔
چنانچہ گلاسناسٹ زدگی کا شکار صرف بائیں والے ہی نہیں ہوئے بلکہ کٹر رجعتی اذہان بھی اسی طرح کے مظہر کا شکار ہوگئے۔ اُن پہ بھی اُن کے ٹراٹسکیوں یعنی طالبان وداعش نے ایسی تابڑ تو ڑیاں کردیں کہ جان کے لالے پڑ گئے۔۔تُوپک اور پارلیمانی سیاست میں ایک کے انتخاب کا جھگڑاان کی صفوں کے اندرچھڑ گیا ۔ایک ملک کے اندر اُن کی نظریاتی حکمرانی قائم ہو، یا ساری دنیا کے اندر سلطنتِ عثمانیہ نافذ کی جائے۔ ’’ بندوق اصلی اور ووٹ نقلی‘‘ والے نعرے کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے خودکُش اور دھماکے موجود ہیں،مگر اُس کو باطل ثابت کرنے کے لیے پارلیمنٹ والے دائیں بازو کے پاس اوزار موجود ہی نہیں۔ وہ جو جو دلیل استعمال کرتا ہے وہ پہلے ہی انتہا پسند دائیں بازو کے پاس موجود ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ والے دائیں بازو نے سوچا ہی نہ تھا کہ اُن پہ ایسے دن بھی آئیں گے۔لہٰذا اُن کی دلیلیں ناقص ، جواز نا مکمل، اور موقف لنگڑاہے۔ایک Passive قسم کے بیانیہ سے تو بے بیانیہ ہونا بہتر ہے۔
یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ پارلیمنٹ کے اندر موجود دایاں بازو اب مارشل لا کے کندھوں کے استعمال کے بارے میں،اپنے سابقہ روایتی موقف کو اُسی تندہی و تیزی سے دوہرانے میں خجالت محسوس کرتا ہے۔ ڈنڈے ماری کے ذریعے نظریات کے اطلاق کے بارے میں وہ اُس زور سے بات نہیں کرتا جس زور سے وہ پنجاب یونیورسٹی میں مخالف طلبا کی ٹانگیں توڑا کرتا تھا۔وہ اب بین الاقوامی مروج قوانین کے پیہم استرداد کے بارے میں اپنی سابقہ پوزیشن کواُسی زور شور کے ساتھ مزید برقرار نہیں رکھ پارہا۔سراج الحق اور فضل الرحمن کی ’’انتہا پسند ‘‘دائیں بازو گیری پراب’’ اصلی‘‘ دائیں ، اور وہ بھی بندوق والے کا قبضہ ہوچکا ہے۔یہ دونوں پارٹیاں اب استعجاب اور بددلی سے جنگی بنیاد پرست نعروں ترانوں سے باعزت بری ہونے کی تگ و دو میں ہیں۔اور یہ کوئی معمولی تبدیلی تو نہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ پارلیمان اور اُس کے اختیارو ممکنات و حالت بہت پتلی ہے۔دائیں بازو کے حکمران طبقے کے لیے سٹیٹس کوقائم رکھنا شاید اب نا ممکن بنتا جارہا ہے۔ بارباردِل اِس طرف بھی للچائے ، اور اُس طرف کے مزے بھی ترک نہیں کیے جاسکتے۔ اُن کاہر شخص دو میں بٹ چکا ہے ۔اِن پارٹیوں ، اداروں میں موجود ہر شخص’’ یہ‘‘ بھی بننا چاہتا ہے ’’ وہ‘‘ بھی۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ عالمی سرمایہ داری نظام اس حالت کو کب تک جاری رکھتا ہے ۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ پاکستان میں طبقاتی نظام کو کوئی خطرہ پیش آنے نہ دیا جائے گا۔ مگر یہ بات بھی کم بات نہیں ہے کہ سیاسی دائیں بازو اپنی سابقہ جگہ کو(چیونٹی کی رفتار سے اور بے یقین طور پر)تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ سماج کچھ نہ جمہوری کی طرف سرک رہا ہے ، کچھ نہ کچھ برداشت ، کچھ نہ کچھ شہری آزادیوں کی طرف!!۔