دیکھو اِنہیں
دوست یہ شہر یوں کے
مددگار ، مجروح
انسان وانسانیت کے
یہ اپنی طرح کے عوامی مجاہد
تمام عُمر وابستہ جمہوری قائد
بڑا نام اِن کا
مگر سَچ ہے یہ بھی
اَساسی کوئی جنگ ان کی
نہ بنیادی کوئی ہدف
مفلسوں، زیر دستوں کے
جینے میں جو
انقلاب ایک لائے
جو ، صدیوں سے ان کا لہو چُوستے
اتنے پُر بول،
بوسیدہ اتنے
نظامِ سماج ومعیشت کو اِک آخری
دھکادے،
اِس کو ڈھائے
نیا نقشہ اِک زندگی کا بنائے
یہ توبلکہ
اُوپر کے ، نیچے کے
سب کے
(ذرا سخت ، سَر اُونچا)
غمخوار
اِ ن کے تصورمیں
مفلس بھی اپنی جگہ
اور منظم بھی اپنی جگہ
اپنے حق کا ہے حقدار
تدریجاً،
آہستہ آہستہ ہی،
ہوگا کم
فرقِ میزان ومعیار !
اِنہوں نے تو مفلس میں ، منعم میں
جو ظلم کا ،لوٹ کا فرق ہے /ظلم کی لُوٹ کی جنگ ہے
اُس کی مشکل کو اوندھا دیا
اَور گلابی اندھیرے کو بخشا وقار
اگر سچ کہوں تو یہ ہیں
پیج کے پنج ہزاری سوار
کہیں پر خوشامد
کہیں سر پھٹول
کہیں یہ طرح دار
لیکن ہر اک راہ سے
بیچ کی راہ کے ہی چمکتے یہ رہوار
پہلے، عوامی شہنشاہ تھاایک
اُس کے تھے(کُچھ اب بھی ہیں)
فکر کار،
اور اب جونیا تا جور ہے
یہ اُس کے ہیں دربار دار
ان کے ،انسان وانسانیت کے
تصور کا
دریا یہی اور یہی آرپار!