Demanding Love is not Love
It is Ecnomics
کتاب : علم المعیشت
مصنف: سی ۔آر۔ اسلم
صفحات: ۱۲۰
قیمت: ۲۰۰ روپے
مبصر: عابدہ رحمان
کہتے ہیں کہ Ecnomics is a form of brain damage ۔کہنے والے نے تو جس بھی تناظرمیں یہ بات کہی ہے لیکن کہی بالکل ٹھیک ہے کہ اس کا اندازہ مجھے یہ کتاب پڑھ کر ہی ہو گیا ۔دو دفعہ پڑھنے کے بعد علم المعیشت نے کہا کہ اب میں سمجھ میں آؤں گی۔ایسا بھی نہیں کہ سی آر اسلم صاحب نے کوئی مشکل الفاظ کا استعمال کیا ہوتب ہی تو دوسری دفعہ سمجھ میں آہی گیا ورنہ تو ہم تو انسانی سماج کے آخری نظام میں سے گزر رہے ہیں۔ سمجھ آجانا چاہئے کہ اس کے بعد تو سپائرلCycle سوشلزم میں داخل ہوتا ہے۔
کتاب کو چھ حصوں یا یوں کہہ لیں کہ چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے باب میں آلاتِ محنت، پیداواری رشتے، پیداواری قوتیں، اس سب کے بارے میں بتایا گیا۔
یہ کہ اشیاء اور مالی دولت کی پیداوار کے لئے انسانی محنت، ذرائع پیداوار اور آلاتِ محنت کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ خام مال سے تیار مال تک انسانی محنت درکار ہوتی ہے۔ انسانی محنت؛ یعنی پیداواری قوتیںیعنی محنت کش یعنی مزدور اور کسان کی محنت ہی سے خام مال تیار مال کے مرحلے تک پہنچتا ہے۔
لکھتے ہیں کہ یہ مال ذاتی استعمال یعنی خوراک اور لباس وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے اور پیداواری استعمال یعنی مزید مادی دولت کے حصول میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مزدور ذرائع پیداوار سے محروم ہونے کی وجہ سے بھوک سے مجبور ہو کر سرمایہ داروں کے ہاتھوں اپنی محنت اور قوتِ محنت فروخت کرتے ہیں بالکل اس طرح جب گوادر کا غریب مچھیرا مجبورا اپنی مچھلی اونے پونے بیچ دیتا ہے۔پھر وہ وقت آتا ہے کہ جب پیداواری ترقی کی وجہ سے قدیم پیداواری رشتے ٹوٹ کرنئے پیداواری رشتے بناتے ہیں اورپیداواری رشتوں اور پیداواری قوتوں کی وجہ سے طبقاتی جدوجہد جنم لیتی ہے۔
بتایا گیا کہ انسانی سماج ۵ نظامِ پیداوار سے گزرا ہے۔ کتاب کا دوسراباب انسانی سماج کے پہلے نظام یعنی ’قدیم اشتراکی نظامِ پیداوار‘ سے متعلق ہے جو پتھروں کا زمانہ تھا۔ اسی دور میں پتھروں کے آلات بنائے گئے اور پھر تانبے اور لوہے کے آلات۔اور انسان غاروں سے میدان میں آ بسا۔ آگ کو محفوظ کیا گیا جو ایک بڑا انقلاب تھا ۔ پہلی بار شکار کو پکا کر کھایا جانے لگا۔ زراعت کی شروعات ہوئیں اور بعد میں چرواہی اور کھیتی باڑی کی تقسیم ہوئی۔ لوہے اور تانبے کے آلات بننے لگے تو محنت کی مزید تقسیم ہوئی اور لوہار اور موچی وغیرہ وجود میں آئے۔ اس دور میں قبائلی نظام کی سردار عورت ہوا کرتی تھی۔ پیداوار میں اضافے نے تجارت اور نجی ملکیت کا آغاز کیا اور طبقاتی تقسیم شروع ہوئی۔ اشتراکی سماج اپنا وجود کھو بیٹھا اور غلام داری سماج نے جنم لیا۔
انسانی سماج کا دوسرا نظامِ پیداوار غلام داری سماج ایک نفرت انگیز نظام تھا۔ گو کہ اس میں کلچر اور دستکاری نے ترقی کی لیکن انسانیت کی تذلیل کا داغ بھی اسی نظامِ پیداار کے ماتھے پر کندہ ہے۔ جنسِ تبادلہ (کماڈٹی)کی منڈی وجود میں آئی۔ جنسِ تبادلہ؛ اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ ہونے لگا۔ حد تو یہ ہے کہ ’ منڈی ئے غلاماں‘ بھی سجنے لگی۔ زر یعنی سکے کا نظام،شہر کی ابتدا، ریاست کا آغاز، عدم مساوات کی شروعات،اورسود خوری سب غلام داری سماج کے مرہونِ منت ہے۔ سستے داموں غلام دستیاب ہونے کی وجہ سے نہریں، سڑکیں ، پُل، قلعے اور محل تو تعمیر ہوئے لیکن ٹیکنالوجی کا راستہ روک لیا گیا۔
کتاب کاچوتھا باب انسانی سماج کے تیسرے نظام یعنی جاگیرداری نظام کے بارے میں ہے جس کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا اوریہ روس کے اکتوبر انقلاب تک جاری رہا۔ اس نظام میں رعیتی غلام دو طرح محنت کرتا تھا ؛ ایک تو’ زائد قوت محنت ‘ جو بیگار کی صورت میں جاگیردار کودیتا تھا اور دوسرا ’ ضروری قوتِ محنت‘ جو اپنی ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لئے کیا کرتا تھا۔ لگان کی تین صورتیں ہوا کرتی تھیں؛ نقد، بٹائی کی صورت میں اور بیگار کی صورت میں۔ پھر یہ ہوا کہ لگان بٹائی کی بجائے روپے کی شکل میں لیا جانے لگا تو استحصال شروع ہوگیا اور جیسا کہ کہتے ہیں کہ معاشیات میں اکثریت ہمیشہ غلط ہوتی ہے لہذا اکثریت کو غلط قرار دے کراسے اقلیت کا محکوم بنا دیا گیا اور نا ختم ہونے والے استحصال کا ایک چکر چلنے لگا کہ بادشاہ بڑے جاگیردار کو، بڑا جاگیر دار چھوٹے جاگیردار کو اور چھوٹا جاگیردار کسان کو لوٹنے لگے۔ منڈی کا باقاعدہ جنم ہوا اور سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا۔جاگیرداری نظام پرپروہتوں،پادریوں اور مولویوں کی اجارہ داری تھی اس لیے یہ آسمانی نظام کہلاتا تھا۔
کتاب کا پانچواں باب؛ انسانی سماج کا چوتھا نظام؛ سرمایہ دارانہ نظام پر ہے۔ جنسِ تبادلہ یا اشیائے تجارت میں قدر استعمال ہوتی ہے اور اسے انسان اپنی قوتِ محنت سے فروخت کرنے کے لئے پیدا کرتا ہے اور یہی سرمایہ دارانہ نظام کی روح ہے۔ اس نظام میں یہ ہو اکہ مشینی انقلاب تو آگیا لیکن مزدوروں کی زندگی آسان ہونے کی بجائے مزید عذاب ہو گئی۔ کام کے اوقات نہایت طویل تھے اور اجرت(قوتِ محنت کی قیمت) بہت کم۔ شروع میں اٹھارہ گھنٹے مزدور کے اوقات کار تھے بعد میں پہلی عالمی جنگ تک دس گھنٹے کام لیا جاتا رہا۔لیکن مزدوروں کی جدوجہد کے بعد سوویت انقلاب کے بعد آٹھ گھنٹے مقرر ہوئی۔ ایک اور بات جو مجھے اس کتاب سے سمجھ آئی کہ بظاہر زیادہ گھنٹوں کی ملازمت زیادہ اجرت دلاتی ہے لیکن حقیقت میں مزدور کا استحصال بڑھتا چلا جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی آمدنی۔
محنت کش ٹیکس بھی دیتے ہیں اور آمدنی واپس حکومت کے پاس چلا جاتا ہے اور مزے کی بات کہ قومی آمدنی عوام سے پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔
بات جو سمجھنے اور یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ محنت کش طبقہ جو اصل میں پیداوار کرتے ہیں اور جس کی محنت سے امیر،امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے وہی حقیقت میں ایک مضبوط طبقہ ہے۔ اگر وہ منظم رہے ، اگر وہ مستقل مزاجی سے ہڑتال کرتا رہے، اگر معاشی جدوجہد میں شعور بڑھاتے رہیں تو یہ سب ایک تحریک کی شکل اختیار کرے گا ۔
آخری باب معاشی بحران کا ہے ؛ سرمایہ داری کے ارتقاء کی بلند ترین صورت کو سامراج کہتے ہیں اور انسانی سماج کی نشوونما کو روکنے کے باعث یہ ایک رجعتی نظام بن جاتا ہے۔ پیداوار کو نجی ہاتھوں ( منافع خوری جیسے گوادر میں ساری محنت مالک لے جاتا ہے) سے سماجی ملکیت ( تقسیم سب انسانوں میں) میں لانا ہوگی۔ سامراج ایک ناکارہ، بوسیدہ اور زوال پزیر سرمایہ داری ہے کیوں کہ ہمیشہ بحران اور بد حالی خشک سالی اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے آئے جب کہ اب کی بار یہ بد حالی کھپت سے زیادہ پیداوار ہونے کے سبب آئی ہے۔ لہٰذا بدحالی کو ختم کرنے کا واحد حل سوشلسٹ انقلاب ہے جس کے لئے مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی سیاسی پارٹی بہت ضروری ہے۔
کسی نے کہا ہے کہ ’ جنگ کے لئے جو بھی سیاسی وجوہات بتائی گئیں لیکن اس کی بنیادی وجہ ہمیشہ معاشیات ہی ہے‘۔
ایک نسبتاً مشکل کتاب ضرور ہے لیکن اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔