شاہ لطیف اپنے سماج کا تجزیہ نگار

شاہ لطیف ایک بھرپور ، اور ہمہ جہت شخص تھا۔بے شمار اوصاف اور اہلیتوں کا مالک۔ اور خلقِ خدا اُس کی انہی صلاحیتوں اور ہنرکاریوں کی بدولت پوجنے کی حد تک اُس سے محبت کرتی چلی آرہی ہے۔
مگر اس کی سب سے بڑی پہچان ایک دانشور، فلاسفر اور شاعر کی ہے۔
کسی بھی دانشور کو اُس کے زمانے، اور اُس کے سماج سے الگ کر کے جانچنا بہت گمراہ کن نتائج دیتا ہے ۔ سندھی زبان کے اِس معروف شاعر و دانشور کوبھی اُس کے ’’ اُس وقت کے ‘‘ سندھ سے جدا کرکے نہیں سمجھا جاسکتا ۔ ’’ اُس وقت کا سندھ‘‘ میں اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ نوجوان نسل شاہ کو آج کے اکیسویں صدی والے گلوبل گاؤں کے ’’ محلے‘‘ سندھ کے گز سے نہ ناپیں۔
شاہ کے زمانے کا سندھ مشینی زراعت، جدید صنعت اور سائنس و ٹکنالوجی کے ناقابلِ یقیں مقام و رفتار سے ناآشنا تھا۔شاہ کے زمانے کے سندھ میں سڑک، بجلی، ریلوے، فوج ، یونیورسٹی، جینٹکس ، خلائی ٹکنالوجی اور آئی ٹی ناقابل تصور مظاہر تھے۔ حتیٰ کہ سندھ کاجغرافیہ بھی اور تھا ، اور آبادی کی کمپوزیشن یہ نہ تھی جو آج ہے۔
شاہ لطیف کا زمانہ وہ تھا جب کلہوڑوں کی فیوڈل حکمرانی تھی اور اُس حکمرانی پہ مغلوں کی بالادستی تھی۔ وارلارڈز کے داخلی مناقشوں اور پیروں سرداروں کے باہمی مفاد پرستانہ دست و گریبانیوں نے سندھ کوبہت بری طرح جھنجھوڑ رکھاتھا۔سماج مکمل طور پر اتھل پتھل ہوچکاتھا۔
شاہ لطیف نے اپنے سماج کوغلامی کی حد تک بدترین طبقاتی نظام میں جکڑے دیکھا۔مغل امپیریلزم کی تباہکاریوں کے آثار گاؤں کی سطح تک غلامی کی حد تک موجود تھے۔انارکی ایسی کہ سماجی فیبرک اکھڑ چکا تھا۔جہالت و توہم پرستی بہت گہری جڑیں پکڑ چکی تھیں۔ تماشا یہ کہ مغل کا ساتھ دینے والے جاگیردار،پیر اور سردار نے تو مضبوط ہونا ہی تھا وہ مضبوط ہو چکا ۔ مگرمغل کا مخالف فیوڈل بھی بہت مضبوط ہوچکا تھا۔مغل مخالف فیوڈل اس لیے مضبوط ہوچکا تھا کہ عوام نے اپنی آزادی کی امیدیں اُسی ڈائین سے وابستہ کر رکھی تھیں ۔یہ سیاست میں ایک دلچسپ صورت ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے، صرف سندھ میں نہیں ہر جگہ۔ اقتدار میں بھی فیوڈل اور حزبِ مخالف کے سربراہ بھی فیوڈل۔
ظاہر ہے کہ شاہ لطیف نے اس سارے منظرنامے کو مسترد کرنا تھامگر وہ تو ایک دانشور تھا۔ اُس کی کوئی منظم سیاسی پارٹی نہ تھی، نہ ہی وہ کسی بڑے اور منظم قبیلے کا سربراہ تھا۔ ایک ایسے ہڑادھڑی والے عرصے میں ایک طرف ذرا سے سماجی سکون کی ضرورت تھی اور دوسری طرف بہت ہی دور سے موڑ کا ٹتے ہوئے ایک متبادل سماج کی آبیاری کرنی تھی۔ اُس متبادل سماج کے بنیادی نقش و نگار تو ربع صدی قبل شاہ عنایت شہید رکھ چکا تھا۔ چنانچہ شاہ لطیف اپنے دھیمے اور (معروضی طور پر جائز) دھندلے ، اوربالواسطہ انداز میں فیوڈل ازم کی مخالفت کرنے وا لے دانشوروں کا سربراہ بنا۔ بھنبھور ہو یا چنیسر اور تماچی کا دربار ، وہ اسے طبقاتی معاشرے ہی کے بطور بیان کرتا ہے۔شاہ نے اپنے سماج کو ایک طبقاتی سماج کے بطور دیکھا۔ البتہ اس نے اُسے معاشی معاشرتی اور سیاسی حوالے سے کم ، اور اخلاقی حوالے سے زیادہ بیان کیا ۔(typicalیوٹوپیائی انداز!۔)
سیاست و معیشت میں ہم تو سیدھے نعرے بازی کے عادی بنادیے گئے ہیں۔ مگر شاہ عنایت کی تحریک کے کچلے جانے کے فوراً بعد کے ماحول میں یہ نعرے بازی ممکن نہ تھی۔ نہ ہی بڑی شاعری میں ننگی نعرے بازی زیادہ حجم گھیر سکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ شاہ کی حسین شاعری کا برقع ذرا سے تفکر سے اٹھاپائیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ شاہ کو شخصی آمریت سے گھن آتی ہے ۔ وہ دولت اور اقتدار کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو گناہِ کبیرہ گردانتا ہے۔شاہ ہر طرح کے استبداد اور ظلم کے خلاف تھا وہ خواہ جس نام سے بھی ہوتا۔
شاہ لطیف کے بارے میں اولین باتیں جو پڑھنے، سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی ہیں ،وہ یہ ہیں:
۔-1اس نے پوری زندگی مال وزر کو حقارت کی نظر سے دیکھا
۔-2 اس نے شان و شوکت اور کروفر سے نفرت کی ۔
۔-3 اس نے گلیمر اور رومانٹسزم سے ہمیشہ پرہیز کیا۔
۔-4شاہ نے اپنی زندگی اور شاعری کا رشتہ اپنی سرزمین، اُس سرزمین پر بولی جانے والی زبان اور اُس زبان کو ۔بولنے والے عام لوگوں سے ہمیشہ جوڑے رکھا۔(1
۔-5وہ شخصی آزادیوں کے حق میں تھا ( محبت کی آزادی فیوڈل معاشرے میں سب سے بڑی آزادی ہوتی ہے ۔ نہیں؟)۔
۔-6 شاہ لطیف ایسے کسی بھی نظامِ حکومت کے خلاف تھا جو غربت کو جنم دیتا ہو، جہاں مایوسی اور نا امیدی کی پیدائش والا زچہ بچہ وارڈ ہوتا ہو ، جہاں بھوک کی بادشاہی ہو، جہاں تن ڈھانپنا دشوار ہوجائے، اور جہاں عوام الناس خانہ بدوشی کی زندگی میں رہن ہوں۔ ماروی کی زبانی وہ کسی طرح کی رعایت ، لالچ یا خوف سے حاصل کردہ کسی طرح کے شخصی انعام و آرائش کو حقارت سے دیکھتا ہے۔
شاہ لطیف نفرت ، ظلم، تشدد، منافقت اور استحصال سے سخت نفرت کرتا تھا ۔ وہ حُسن ، سچ اور محبت کا دلدادہ تھا ۔وہ غیر یقینی اور نا امیدی کی فضا میں بھی ’’عشق ‘‘ کی شوریدہ سری کا مطالبہ کرتا ہے، عشق جو انقلابیوں کا راشن ہوتی ہے ۔(2
شاہ لطیف سارے عوام کو ایک پر مسرت زندگی گزارنے کے مواقع میسر کرنے کی آرزو کرتا ہے۔
ذات پات کا امتیاز توطبقاتی نظام کی ایک سیاہ خصوصیت ہوتی ہے ۔نچلے محنت کش لوگوں کو نیچ ذات قر ر دیا جاتا ہے اور ایک بدترین اپارتھائیڈ نظام وجود میں آجاتاہے۔شاہ کا وہ زمانہ بالخصوص ذات پات کے عروج کا زمانہ تھا۔ ایک انسان دوست دانشور کسی طرح بھی چمڑے کی رنگت، پیشے کی نوعیت، اور رواجوں رسموں کے فرق کی وجہ سے انسان کو فضلیت یا حقارت کے خانوں میں تقسیم کرنے کو قبول نہیں کرسکتا ۔چنانچہ شاہ لطیف ذ ات پات اور اونچ نیچ کا بدترین مخالف تھا۔وہ بتاتا ہے کہ انسان کی قابلیت اور صلاحیت کا ذات برادری سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ جو محنت کرتا ہے وہی پاتا ہے ( جو وہے سولھے) ۔۔۔۔۔۔اس نے یہ پیغام دیا کہ اصل عزت و احترام لیاقت و صلاحیت و محنت سے ہی ملتا ہے۔ اس نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انسانی صورت اور سیرت کا دولت اور شاہی جاہ و جلال سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور انسانی کردار کی خوبیاں کسی مصنوعیت کی محتاج نہیں ہوتیں۔
چنانچہ وہ محنت کشوں کے بہت سے کرداروں کا نام لے کر ان سے متعلق بات کرتا ہے۔ وہ کسانوں سے ، کاتنے والوں سے، جولاہوں سے،لوہاروں سے ،ترکھانوں سے، برتن سازوں سے، ماہی گیروں سے ، کشتی بانوں سے،کوزہ گروں سے، شتر بانوں سے، اور چرواہوں سے مخاطب ہو تا ہے۔ یہی لوگ اس کاموضوع ہیں۔ وہ انہی کے مسائل، اُن کے حل اور راستے کی مشکلات کے بارے میں جانکاری دیتا ہے۔ شاہ لطیف نے ہاتھ سے محنت کرنے والے مزدوروں کو اور اُن کے کام کو سراہا ہے اوراُن کے اعلیٰ کردار کی گواہی اپنی شاعری میں دی ہے۔(محنت سے بڑھ کر اعلیٰ کردار بھلا اور کیا ہوسکتا ہے !!)۔چنانچہ شاہ نے سماج کے سب سے زیادہ کمزور، سب سے زیادہ پس ماندہ اور مظلوم طبقوں کا انتخاب کیا اور انہیں مثالی کرداروں کی صورت عطا کر دی ۔اس کی پوری شاعری میں اور بالخصوص سُر مارئی، کھاہوڑی اور سارنگ میں تو بہت ہی حسین انداز میں غریب لوگوں کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے ۔اس نے کمہار، جولاہے، لوہار، مچھیرے، ملاح، ہاری ، کسان،اور دھوبی کی بہت تعریف کی ۔ یہ سب کے سب حق حلال(محنت) کی روزی کمانے والے ،محبت سے محنت کرنے والے اعلیٰ انسان ہیں ۔
مثلاًاس نے لوہارکو یوں عظیم کہا:
۔۔۔۔۔۔ایک لوہار زنجیر کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے

پھر جولاہے کی پاکی اور عظمت کو اس طرح بیان کیا:
چلو جولاہوں کے پاس چلتے ہیں ، جن کی محبت میں نفاست ہے
کیونکہ وہ سارا دن دھاگوں کو جوڑتے ہیں ، توڑنا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں
( میں آپ کو موضوع سے نہیں بھٹکاتا ، مگر میں آپ کے مطالعہ کو چیلنج کرتا ہوں کہ یہ مصرع آپ عالمی ادب میں اور کہیں تلاش نہ کر پائیں گے)۔

پھر اس نے مٹی کے برتن بنا کر انہیں آوی میں پکانے والے کمہار کو یوں بیان کیا:
اے میرے محبوب تم ( کمہار کی) آوی سے محبت کرنا سیکھو
جو پورا دن جلتی رہتی ہے مگر دھواں باہر نکلنے نہیں دیتی( یعنی کہ اف بھی نہیں کرتی)

سسی کو پالنے والی دھوبن کی توصیف اِن الفاظ میں ہوتا ہے:
اے پنہوں مجھ محنت کش دھوبن کو اپنے ساتھ لے چلو
میں سب کام بھی کروں گی اور پانی بھی بھروں گی

پھر آئیے ذرا دیکھیں کہ اس نے روزی رساں، اور نائب اللہ فی الارض دھقان اور کسان کو کس عظمت اورشان سے بیا ن کیا ہے۔
اپنے بیج لے کر کسان کھیتوں میں جب محبت کے ساتھ بوتے ہیں
تو ان کی محنت کو دیکھتے ہوئے قدرت بھی راضی ہوکر پانی برساتی ہے
اور یوں تمام عالم آباد ہوتا ہے

کسان ، محنت ، کاشت، فصل۔۔۔۔۔ کبھی کبھی لگتا ہے شاہ لطیف بہت قدیم زرتشی عہد کا آدمی ہو۔ وہ تقدس بھرے محنت کش کسان کو یوں شرف عطا کرتا ہے:
بھیک مانگنے کا پیشہ کسی کے گزر اوقات کا ذریعہ نہیں بن سکتا
جن کے ہاتھوں میں ہل ہوتے ہیں وہی انسان انمول اور عظیم ہوتے ہیں
ایک اور محنت کش کے بارے میں بھی سنیے، چرواہے کے بارے میں۔ آج کے پنجابی سندھی اور پشتون کے بارے میں تو میں نہیں کہہ سکتا مگر بلوچ تو، یا تو ابھی تک چرواہی گیری میں غلطاں ہے یا پھر اُس کا اباّ، چاچا، دادا چرواہی معیشت میں رہے ہیں۔ حالیہ معاملہ ہے یہ!!۔
اس نے چرواہوں کا تذکرہ بھی بہت تقدس و احترام سے کیا:
چرواہوں نے پیار سے پکارا تو موسم بھی تبدیل ہوا اور برسات برسنے لگی
اور اگر آپ کا خیال ہے کہ وہ مچھیروں ماہی گیروں کا ترجمان شاعر نہیں ہے تو فوراً سہو کا سجدہ ادا کیجئے، اپنے ذہن کو واشنگ مشین میں ڈالیے اور بڑا شعر پڑھیے:
جو عمیق سمندر میں غوطہ لگا کر جاتے ہیں اور قیمتی صدف کو پاتال سے ڈھونڈ کر لاتے ہیں، وہ ہی انمول موتی پاسکتے ہیں۔(3)

اگر آپ کا دل سرمایہ داری کی چکا چوند میں گھرا ہوا ہے، اگر آپ کارپوریٹ دنیا کے اشتہار باز جادوگر کے حصار میں گھرے ہیں، اگر آپ خاتون ہیں اور کنفیوز ہیں’’ ہم‘‘ ٹی وی کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر حُسن اور محبت کے فیوڈل تصورات میں غرق ہیں تو لائیے اپنے ہاتھ: سُر لیلاں چنیسر سے ملائیے، شاہ لطیف آپ کو بکواس تصورات سے نجات نہ دلائے تو جرمانہ مجھ سے لیجیے۔
’’جب سے میں نے کانو ں میں سونے کے بالے پہنے ہیں، گلے میں خوبصورت ہار ڈالا ہے، بانہوں میں کنگن پہنے ہیں اور خوشبودار تیل لگا کر بال سنوارے ہیں، تب سے میرے محبوب نے مجھے پوچھنا چھوڑدیا ہے‘‘۔یا خدا! تُو ایسے محبوبوں کی بہتات کیوں نہیں کرتا!
ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ایک دو دانوں کو چھوڑ کر،شاہ کی ساری ہیروئنیں نچلے طبقات سے ہیں۔اس کی تذکرہ کردہ عورتوں میں صرف لیلاں اور مومل اعلیٰ طبقات سے ہیں۔ جہاں اُس نے بالائی طبقہ کی خود پسندی اور غرور کو بے نقاب کیا ہے۔اُس کی سسی شاہ زادی نہیں ایک دھوبن ہے۔سونہڑیں ایک کمہار، اورماروی ایک غریب دیہاتی ۔ وہ اِن دھوبیوں ،کمہاروں، لوہاروں، بھٹے والوں، گویوں، اورمچھیروں میں ہر ایک کو تھوڑی تھوڑی راہنمائی اور نصیحت کرتا ہے۔مگر وہ پنڈت پیر کی طرح تین میل اونچا ہو کر انجانی زبان میں نصیحتیں نہیں بڑ بڑاتا۔ وہ تو اُن کے برابر میں، شانے پر ہاتھ رکھ کر انتہائی شفقت سے اُن کی اپنی ماں بولی میں دوستانہ انداز میں ، اپنائیت میں اُن کے کان میں کھسر پھسر کرتا ہے۔ ایسا کہ دل میں اتر جائے۔
شاہ اپنی محنت کش ہیروئن کو عاجزی و انکساری برتنے کو کہتا ہے۔ توقعات نہ باندھ کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کا درس دیتا ہے۔
صرف انہیں بیان نہیں کرتا بلکہ وہ محکوم لوگوں کے اتحاد کی علمبرداری کرتا ہے۔
سماج میں طبقات اور طبقاتی مناقشے میں دوسرے فریق کی نشاندہی کرنے میں بھی شاہ نے کوتاہی نہیں کی ۔ بالخصوص اُن لوگوں کو تو اس نے رکھ رکھ کرکوڑے مارے جو عا م انسان کا جامہ پہن کر، عام انسان کے بیچ رہ کر ،بالائی طبقات کے لئے دلالی کرتے ہیں۔ شاہ لطیف کے لیے حکمران اور جاگیردار تو قابلِ نفرت تھے ہی مگر وہ اُن کے ٹکڑوں پر پلنے والے دانشوروں کو بالخصوص بے نقاب کرتا رہا۔ اس سلسلے میں اُسے ملاّ کبھی اچھے نہیں لگے، نہ ہی اُسے پیر بھلے لگے ۔ہمارے اِس حکیم و داناکی نظر میں یہ دونوں تعصب پھیلاتے ہیں، تنگ نظری پیدا کرتے ہیں۔ وہ خود غرض ہوتے ہیں اور مادی فوائد کی خاطر مذہب کو غلط استعمال کرتے ہیں۔ وہ کتابیں پڑھنے میں مصروف ہیں، مگر اپنے دلوں کو قابو کبھی نہیں کرتے۔ اس لئے جتنا زیادہ وہ پڑھتے جاتے ہیں، اُن کے گناہ اُتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ شاہ لطیف ملاّ پر بھر پور تنقید اور طنز کرتا ہے:
ملاّ ملاّ مت کہو‘ یہ تو صیاد اور شکاری ہیں
خنزیر کے گوشت کے عوض انمول گوہر دے دیتے ہیں
یا
وہ جھاگ دیکھ کر ہی پلٹ آئے
گمراہوں بدبختوں نے دودھ تو چکھا ہی نہیں
دنیا کی خاطر دین دے آئے اور بد بخت وقلاش بنے(4)
ویسے بھی یہ آدمی بہت دلچسپ تھا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر دیکھوشاہ کی پوری شاعری میں آپ کو ماسوائے دو لوگوں کے کسی اور کے لیے بدعا نہیں ملے گی:
ایک ذخیرہ اندوز اور قحط کا ذمہ دار گروہ ہے، اور دوسرا ملاّ۔
ملاّ کو یوں کہا:
’’ اے ملا خدا کرے تیری ماں مر جائے اور تیرا پتاّ پیٹ کے اندر پھٹ جائے‘‘۔(5)
کتنی درد بھری کیفیت ہے پتّے کا پیٹ میں پھٹ جانا۔ لبلبے کا انفیکشن، اپنڈکس کا انفیکشن، یا پتے کا انفیکشن۔
اور دیکھا جائے توشاہ ملاّ کے خلاف نفرت کو تو عام اور مقبول بنانے میں کامیاب ہوا مگر وہ پیر کو حقیر بنانے میں ناکام رہا۔ سندھ میں ملاّ سمجھو بالکل بے ضر رہے۔ وہاں تو پیروں کا بچھا جال بہت عوام دشمن اور خطرناک ہوتا ہے۔ یہ بہت استاد لوگ ہوتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ پیروں نے خود اِس پیر مخالف شاہ کو پیر بنا ڈالا ۔بالکل اسی طرح جس طرح ہند و برہمنوں نے برہمن دشمن مہاتمابدھ کو ہی بھگوانوں کی لسٹ میں شامل کردیا ۔ سندھ کا پیر توجہالت و تواہم پرستی کا اس برصغیر میں سب سے بڑا ایجنٹ ہے۔ اُس سے جان چھڑا نے میں تو پوری صدی کی تحریک چاہیے ہوگی۔
اُس وقت کے ایک اور سماج دشمن عنصر کا تذکرہ بھی ضروری ہے ۔ یہ عنصر تھا یورپی سامراج۔حالانکہ پرتگیزی یا انگریزابھی تک قابض نہیں ہوئے تھے۔اور ابھی اکادکا انگریز اور پرتگالی سودا گرہی نظر آتے تھے ،مگر دور بین و بصیرت بھر ے شاہ نے اُسی وقت کہا تھا:
ہمارے نا خداؤں کو ہوا کیا
بدل کر بھیس آئے ہیں پھلنگی( فرنگی)
بتاؤ ہے کوئی ملاّح ایسا
کہ روکے یورش دُزدانہ اُن کی

حوالہ جات
۔-1 شاہد حق ، ڈاکٹر۔ سُر مومل رانو۔ پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ۔2003۔ پیش لفظ۔
-۔2 صدیقی، محمد علی۔ادراک۔2007۔ ارتقا مطبوعات کراچی ۔ صفحہ119
۔3۔فہمیدہ حسین۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی ۔ صفحہ58
۔-4 رشید بھٹی۔تصوف اور کلاسیکی سندھی شاعری۔2010 ۔ سندھی ادبی سنگت ۔ صفحہ62
۔-5عباسی، تنویر۔ طاہر تونسوی کی تالیفی۔کتاب’’ لطیف شناسی‘‘2010۔ سرائیکی ادبی بورڈ ملتا۔ صفحہ139

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے