قوم کی حالت سنگین ہوجائے ۔ فتنہ فتین ہوجائے ۔ ظالم کی شام رنگین ہوجائے ۔ بدعنوانی سے پیپڑی زدہ زمین ہوجائے ۔ جاہل دل نشین ہوجائے ، آخر کوئی کیسے امین ہوجائے۔یہی میر گل خان نصیر نے بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ جب لفظوں میں خنکی اور دھنک نہ ہو ،سچائی کی کہیں کوئی جھلک نہ ہو، آسمان امن پر دھنک نہ ہو۔ پھر توانسان کو انسان سے خطرہ رہے گا۔ہر در د بے اثرہوگا۔ انسان دربدر ہوگا ۔ برائی پراثر ہوگی ، قیادت بے خبر ہوگی۔
تو کوئی بتائے کیا اب ایسا نہیں ہورہاکہ دیسی مرغی ولایتی مرغی کو دیکھ کر پریشان ہے ۔ بکرے گدھے کو دیکھ کر افسردہ ہیں، جب پیٹ میں ہوا بھر جائے تو سمجھ لیا جائے کہ معدہ ناقص گندم کی شکایت لگارہاہے اب تو ہمیں جیتے جی مارنے کیلئے شوگر اور بلڈ پریشر میں سیاسی مفاہمت ہو چکی ہے ۔ میر گل خان نصیر اور فیض احمد فیض اپنے ہمصروں کے ساتھ مل کر مستقبل کی غمناکی کارونا رورہے تھے۔ بجائے ان کی بات سننے کے انہیں زندانوں میں ڈالا گیا ۔ انہیں صعوبتیں دی گہیں۔
حالانکہ بقول ارسطو جب پتھروں سے حملہ نہ کرنے کی بجائے الفاظ سے جنگ لڑی جائے تو یہ تہذیب کی نشانی ہے ۔تو کوئی بتائے کیا میر گل خان نصیر سے زیادہ کوئی مہذب ہو سکتاہے ۔ جس نے جابروں سے مسلسل لفظوں کی جنگ لڑی مگر بلوچستان کی جدوجہد غیر مہذبوں کے ہاتھوں پرانی شراب کی طرح قیمتی بنتا گیا ۔ میر گل خان نصیرکو اس لئے بھی غیر مہذب نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ پیدا ہوئے تو مہذب دنیا کی جانب سے پہلی جنگ عظیم چھڑ چکی تھی ۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت ان کی عمر 31سال ہوچکی تھی اسی سال ہیروشیما اور ناگاساکی پر لٹل بوائے نامی ایٹم بم گرائے گئے ۔ (آج ان کی ماں یعنی مدر آف بمبز انسانوں پر گرائے جارہے ہیں ) گل خان نصیر نے ویت نام کے مظلوم عوام کے حق میں اپنی آواز بلند کرتے ہوئے کہا تھا
دیکھتا ہوں سامراجی بھیڑیوں کو جب بھی میں
میرے سینے میں بھڑک اٹھتے ہیں نفرت کے شرار
اس آواز کو امریکہ تو دبانہیں سکا اپنے ناعاقبت اندیشوں نے غیر سیاسی عمل کا مظاہرہ کر تے ہوئے حقائق پر پردہ ڈالا اور روسی معاشی نظریہ کی مخالفت کی ۔آج وہ میر گل خان نصیر کا امریکی سامراج کانعرہ سامراج مردہ باد بے حد حد کمزور پھیپڑوں کے ساتھ لگارہے ہیں روس کو دوست اور بھائی بھی سمجھتے ہیں حالانکہ میر گل خان نصیر اور فیض احمد فیض بغیر کسی نقصان کے یہ رشتہ جوڑنے کے خواہش مند تھے ۔میر گل خان نصیر اس لئے بھی بڑا آدمی تھا کہ وہ بیک وقت سامراج، سرداریت ، قبائلیت اور جہالت کی مخالفت کی جنگ لڑے رہے تھے ۔ایک موقع پر کیا خوب کہا تھا ۔
ہمارے شومئی قسمت کی ایک تصویر ہے جرگہ
بلوچوں کو مٹانے کی یہ ایک تدبیر ہے جرگہ
اگر ٹہریں تو سر پہ تیشہِ سردار آتا ہے
مگر بھاگیں تو کیسے پاؤں میں زنجیر ہے جرگہ
جنہیں خواہش ہے صحرائے وطن کی لالہ کاری کی
انہیں نخچیر کرنے کیلئے ایک تیر ہے جرگہ
زمانہ طالب علمی میں جب انگریز سامراج مخالف قومی لیڈر یوسف عزیز مگسی لاہور تشریف لائے تو میر گل خان نصیر نے ساتھیوں سے مل کر انہیں اسلامیہ کالج کے ریواز ہوسٹل میں منعقدہ پارٹی میں شرکت کی دعوت دی ، اس موقع پر میر یوسف عزیز مگسی نے یہ اشعار پڑھے ۔
اٹھ اے قوم بلوچی اٹھ یہ انداز دل آرائی
دکھادے آج پھر دنیا کو وہ نشان سچائی
بلوچی زندگی کی شان پھر دنیا کو دکھلادے
بتادے ان کو کرسکتی ہے کیا یہ قوم صحرائی
جس کا اثر میر گل خان نصیر پر بھی ہوا ۔ اس پر اس نے ایک نظم کہی چند اشعار ملاحظہ ہو ۔
اٹھو قوم کے نوجوانو اٹھو تم
اٹھودیس کے پاسبانو اٹھو تم
مصائب نے گھیر ا ہے قوم ووطن کو
خزاں نے لتاڑا ہے کوہ ،دمن کو
اٹھو قوم کے نوجوانو اٹھو تم
میر گل خان نصیر انقلاب روس کے تین سال بعد پیدا ہواجس سے روحانی خوراک لیتے لیتے جوان ہوا ۔ بلوچستان قندھاری او سائبیرین ہواؤں کی گزرگاہ ہے ان ہواؤ ں کا اثر تھا کہ انہوں نے کہا تھا
اے ہمدم شب گریہ خون آب سلامت
اے سرخ دیئے تیری تب وتاب سلامت
1935ء میں 23سالہ میر گل خان نصیر باقاعدہ میدانِ سیاست میں قدم رکھ چکے تھے ۔1936ء میں انجمن اسلامیہ قلات بنتی ہے جس کے وہ پہلے صدر منتخب ہوتے ہیں ۔ ملک فیض محمد یوسف زئی کے مطابق مولانا عبدالصمد سربازی کی سرپرستی میں اخبار البلوچ چھپتا تھا جس میں نصیر تخلص سے کسی شاعر کے پرسوز اشعار چھپتے تھے ۔اس گمنام شاعر کے بارے میں پتہ چلاتے چلاتے آخر کار ہم نوشکی پہنچے اور اس نوجوان سے ملاقات ہو ئی ہم اسے اپنے ساتھ مستونگ لے آئے ۔ قلات میں سخت گیر قوانین نافذ تھے ۔سرعام سیاست کرنا تو کجا محض شک پڑنے کی بنیاد پر بھی سزا ئیں دیں جاتی تھیں ۔ہم زیرزمین سرگرمی سے سیاسی معاملات چلاتے رہے ۔1937ء میں قلات نیشنل پارٹی کی داغ بیل ڈالی گئی میر گل خان نصیر جس کے نائب صدر مقرر ہوئے۔
اس وقت کے وزیراعظم سرشمس شاہ کی سخت گیری مشہورتھی ۔مستونگ کنونشن پر غنڈوں کے ذریعے حملہ کرایاگیا ۔ اس کی سرگرمیوں کو ریاست قلات میں غیر قانونی قراردیاگیا ۔ آخر کار پارٹی کوکوئٹہ شفٹ کیا گیا۔ اس دوران میر گل خان نصیر سمیت تمام دوستوں نے سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دیا اور انہیں پانچ برس کیلئے جلاوطنی پر مجبور کیا گیا ۔1839ء سے خطہ میں قائم برطانو ی قبضہ گیریت کے خلاف وہ صف آرا ء رہے ۔ پانچ برس کی بے خانمائی کے بعدآخر کار خان قلا ت کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی انہیں نوکریوں پر دوبارہ بحال کردیا گیا ۔میر گل خان نصیر سیکریٹری جوڈیشل بنا۔ ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ آٹھویں جماعت سے گھر میں موقع کی مناسبت سے شعر جوڑتے رہے جو محاوروں کے طور پر سب کو یاد ہو گئے تھے بعد میں اردو میں باقاعدہ طور پر شاعری کی اور کچھ عرصے بعد جم کر بلوچی شاعری کا آغاز کیا اور فارسی کو ملا کر اس طرح شاعر چار زبان ملک الشعراء کہلائے۔، پہلی غیر مطبوعہ بلوچی نظم "ما” کے عنوان سے موجودہے ۔جس پر 20فروری 1944ء تحریر ہے ۔جہاں تک بلوچی رسم الخط کا تعلق ہے میر گل خان نصیر نے اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے مثالی کام کیا۔ 1947ء قیام پاکستان سے لیکر 1948ء تک ریاست قلات اپنے معاملات خود طے کر تی رہی مگر فوراً ہی بین الاقوامی ساز شوں کی گرفت میں آیا ۔ ایک مرتبہ پھر انقلابی دوستوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،ان کی 1950ء میں ایک نظم کو ماما عبداللہ جمالدینی نے یوں اردو کے قالب میں ڈالا اس طویل نظم کے چند بند ملاحظہ ہو ۔
بلوچستان ، بلوچستان
تم ہمارے نام و ننگ او ر شان کے مظہر ہو
ہماری ہڈیا ں، گوشت پوست اور گلِ
تمہاری مٹی سے تیار ہوئی ہیں
تم ہماری شکم سیری کا باعث ہو ، ہماری ماں ہو
ہماری خواہش ہے کہ تم ہمیشہ سرسبز و شاداب رہو
تم ہماری سرمایہ ہماری جان ہو
بلوچستان ،بلوچستان
ڈاکٹر شاہ محمد مری یوں رقم طراز ہیں
"میر گل خان نصیر شاعری اور سیاست کے ساتھ ساتھ دانشوروں کے اتحاد اور تنظیم کے کام میں بھی لگے رہے۔ وہ سب سے پہلے "بلوچی زبان و ادبئے دیوان "سے منسلک رہے وہ نہ صرف اس ادبی انجمن کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے بلکہ اولین صدر بھی منتخب ہوئے ، نائب صدر غلام محمد شاہوانی تھے جنرل سیکریٹری میر عبداللہ جان جمالدینی ،۔ پریس سیکریٹری بابو عبدالکریم شورش اور قاضی غلام محی الدین خزانچی جبکہ انور عالیانی جوائنت سیکریٹری بنے۔”
1954ء میں میر گل خان نصیر استمان گل نامی عوامی پارٹی کے بانیوں میں شما ر ہوئے اور 1954ء ہی میں پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی گئی ،1956ء میں استمان گل ،نیشنل پارٹی میں ضم ہوگئی ۔اگلے ہی سال مولانا بھاشانی کی عوامی لیگ بھی اس پارٹی میں ضم ہو گئی۔ اس طرح نئی پارٹی کا نام نیشنل عوامی پارٹی پڑ گیا ۔1958ء میں مارشل لاء لگا۔ میر گل خان نصیر ، میر غوث بخش بزنجو اور فیض محمد یوسف زئی دہوار ، قلی کیمپ میں ڈال دیئے گئے ۔
شا ہ محمد مری لکھتے ہیں
"بیسویں صدی دلچسپ صدی رہی اس صدی میں بلوچستان میں گل خان نصیر ، ترکی میں ناظم حکمت، چلی میں پابلونرودا، فارسی میں لاہوتی اردومیں فیض احمدفیض اور حبیب جالب ایک جیسی باتیں نظم کر رہے تھے”
گل خان نصیر کے بلوچی نظم کا ترجمہ فیض احمد فیض نے یوں کیا۔
جب تک وہ بہادر سرمیدان نہیں آتے
جو اپنے لہوسے فضاؤں کو سجاتے
اور اپنے رجز سے نہیں اک حشر اٹھاتے
جب تک سحر سرخ کی منزل نہیں پاتے
اے ہمدم شب گریہ خوں آب سلامت
اے سرخ دیئے تیری تب و تاب سلامت
میر گل خان نصیر کا کہنا تھا کہ بدترین قیادت سے اچھائی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے جو محض گڈ گورننس کا نعرہ لگاتے ہیں
فرخ سہیل گوئندی اپنی کتاب "بکھرتا سماج” میں لکھتے ہیں "گورننس تو ہے ہی ایک کالونیل اصطلاح یعنی محکوم لوگوں کو گورن کرنا یعنی کنٹرول کرنا۔ یہ سیاسی اصطلاح موجود ہ حکمرانوں کی فلسفے کی عکاسی کر تاہے ۔ گلو بٹ کی طاقت پر گورن کرنے کی پالیسی پنجاب کا رویہ ہے ۔اچھی حکمرانی جن ممالک میں ہے وہاں کی سڑکوں ، محلوں اور گلیوں میں حکمرانوں کی تختیاں تصاویر اور سائن بورڈ نہیں سجتے بلکہ وہاں Self Rule نظر آتاہے ۔آپ کو سویڈن، ناروے، بیلجیم ، فرانس یا کسی حقیقی جمہوری ملک کی شاہراہوں پر ان کے حکمرانوں کی تصاویر اور سائن بورڈ نہیں ملیں گے ”
1958 ء سے1965ء تک جیل کاٹنے کے بعد میر گل خان نصیر 1967ء میں لیاری میں عوامی ادبی انجمن کی بنیاد رکھ چکے تھے فیض احمد فیض ۔شیخ ایاز ۔ اجمل خٹک۔ ابراہیم جویو اور دیگر اس انجمن میں ان کے ساتھی تھے۔آخر کار آمریت نے ہتھیار ڈال دیئے اور 1970ء میں پہلی مرتبہ عام انتخابات کا اعلان ہوا۔نیشنل عوامی پارٹی کی ٹکٹ پر میر گل خان نصیر اپنے آبائی ضلع چاغی سے الیکشن لڑے اور کنگ آف ماربل نبی بخش زہری کو چت کردیا انقلاب روس کی طرح آمریت کے خلاف انقلاب برپا ہوچکا تھا ۔چونکہ حکمران جمہوریت کے عادی نہیں تھے ان کے ہاضمہ پر یہ گران گزرا ، انہوں نے نوماہ کے بعد 1973ء میں بلوچستان اسمبلی کا خاتمہ کردیا ۔ عطاء اللہ مینگل حکومت کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا میر گل خان نصیر نے اس دوران پانچ سال کی طویل قید کاٹی۔ جیل یاترا کے دنوں میں گل خان نصیر اور فیض احمد فیض ایک دوسرے کا غم بانٹنے کیلئے ایک دوسرے کو شاعری کے تراجم سنا تے رہے ۔کوئٹہ میں نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی میٹنگ کے دوران فیض احمد فیض نے میر گل خان نصیر سے مخاطب ہو کر کہا ۔
"میں نے آپ کی نظم ڈیوا (دیا) کا اردو ترجمہ کیاہے مجھے اپنی کچھ اور نظمیں دو تاکہ میں ان کو اردو میں منتقل کرسکوں مجھے آپ کی نظم کا ترجمہ کرکے بہت خوشی ہوئی ‘‘۔نظریاتی سیاست میں ہم خیال دوست بنتے ہیں ایک سے ہوتے ہیں اس سے ہٹ کر دوستی اور یکجہتی کا تصور بے کار کی باتیں ہیں جیسے کہ حکومت کی عوام کیلئے اسٹریٹجک ڈیپتھ کا معاملہ ہمیشہ اسٹریٹجک ڈ یتھ ثابت ہوتارہاہے ۔
پاکستان کا ایک بازو کٹ کر مشرق پاکستان سے بنگلہ دیش میں تبدیل ہو ا ۔ میرگل خان نصیر کو ایک موقع پر کہنا پڑاتھا ۔
میرے دوست میں توحرمت لفظ کا پاسدار ہوں
اگرچہ میں بے سکت اور بوڑھا ہوچکاہوں
لیکن میں جب تک زندہ ہوں
ظلم و جبر کے خلاف لکھتا رہوں گا ۔
اپنے ماضی کو یاد کر و تاکہ حال کے چھلنی سے پیوتر ہو کر گزر سکو ، اپنے حال میں رہوتاکہ مستقبل میں اس عمل سے نہ گزرنا پڑے ، لیکن جن قوموں میں ماضی نام کی کوئی شئے نہ ہو توہمیشہ حال ہی میں رہیں گے ۔ میرگل خان نصیر ماضی کا حصہ نہیں رہے اس لئے وہ حال میں اسی طرح یاد ہوتے ہیں جیسے انکا لکھا اور بولا ہو اہر جملہ رات کی بات ہے ۔اچھے لیڈر خرابی کی نشاندہی کر تے ہیں خرابی کے ساتھ ریسلنگ کی رنگ میں نہیں اترتے۔
گل خان نصیر خواب نہیں حقیقت ہے محض اخلاق نہیں اچھی نیت ہے۔ آمروں کے خلاف بلا تھکان بولنے کی عادت ہے ۔ اپنے ضمیر سے اٹھنے والی شہرت ہے ،شرافت کے ساتھ سیاست کی حمایت ہے ۔ مظالم کو روکنے والی روہانسی صورت ہے ، ہرایک کی زبان پر یقین رکھنے والی عجلت ہے چشمہ علم کی امانت اور علم بانٹنے والی دولت ہے ۔ اپنے بغل میں بیٹھنے والی قبائلی آمریت سے واقفیت ہے جبھی تو اس کا ضد سرداریت ہے۔ آج کی محفل ان جیسوں کی ودیعت ہے ۔
اگر میر گل خان نصیر اورفیض احمد فیض سمیت اس وقت سرخ پرچم سے سبز انقلاب کشید کرنے والی بات سمجھی اور سنی جاتی انہیں دھتکارانہ جاتا تو آج پانامہ کے پجامے میں پھنسے نہ ہوتے۔ مودی کی دودی باتیں نہ سنتے ، ایان علی کے گلی کے پھیرے نہ لگا تے ، احتساب بے حساب کا کھیل نہ کھیلاجاتا ، چین کا روباری مزاج سے لے کر آنے کی بجائے ہمارا بہترین ہمدرد ہوتا ، انصاف کبھی لاپتہ نہ ہو تا ہربچہ سکول کا طفلی نعرہ نہ لگتا ، چھوٹو ڈکیت ،گلو بٹ اور مولاجٹ کی بجائے میاں محمد بخش او رشاہ حسین کے تذکرے ہوتے ، سی پیک پارسل نما کوئی چیز معلوم نہ ہوتی ، محض بھیک مانگنا ہماری روایت نہ بنتی ، افغانی مجبوراً یہاں نہ آتے اورنہ یہاں کے لوگ دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہوتے اور ہم ایک دوسرے پر واگہ بارڈر کے سپاہیوں کی طرح آنکھیں سرخ نہ کرتے اور نہ ہی ہمارے ملک میں ٹائیگر صابن، ٹائیگر ٹائراور نہ ہی ٹائیگر سیاسی پارٹیوں کا رواج پڑتا ۔ اب بھی بہتر ہے کہ ادبی تہذیب سے رشتہ جوڑ لیں ۔ طوفان نوح کی کشتی کو سچ کے سمندر کی جانب موڑ لیں، ہوائی باتیں چھوڑدیں، فیض احمد فیض ، اور میر گل خان نصیر کے قبیل کے لوگوں کو گلے لگائیں ۔