جب تیری آگ برساتی تلوار
ظالم فوجیوں‘ لشکر گاہوں اور بددیانت کلیساؤں
کے سروں پر پڑی
ہر طرف سناٹا تھا
البتہ صبح کی سفیدی کچھ کچھ کہہ رہی تھی
تیرے پرچم کے علاوہ سب کچھ سرنگوں تھا
اور تیرے مسکراتے لبوں پر خون کے قطرے فخر کررہے تھے
خون کے قطروں کو یہ فخر تھا
کہ
وہ مدافعت میں بہہ رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پبلونرودا کی آخری نظم

ستمبر سن تہتر کے اذیت ناک دن
تاریخ کے سارے درندوں نے
ہمارے پرچمِ زریں کو بڑھ کر نوچ ڈالا ہے
درندو ، ستم نے کتنا خوں بہایا ہے
تمہارے جسم جاگیروں پہ پل کر
فربہی سے کس قدر بھر پور ہیں
تم وہ لٹیرے ہو
جگہ ہے جن کی شیطانی جہنم میں
بکاؤ مال کی مانند تم کو
بارہا بیچا خریدا جا چکا بازارِ عالم میں
تمہیں نیو یارک کے خونخوار عفریتوں نے
کارِ مرگ سونپا ہے
اذیت کی مشیں کے لالچی پرزو
ڈبو کر اپنے مقتولوں کے خوں دل میں
امریکہ کی روٹی کھانے والے روسیاہ ، بے آبرو سوداگرو
بے رحم قصّابو
تم ایک غولِ بیا بانی ہو ،
ظالم ، بے اصول و پُر ہوس افراد کی ٹولی
کہ جس کی زندگی کا مقصد و منشا
نہیں اس کے سوا کوئی
کہ مجبور و پریشاں خلق کے کرب و اذیت
بھوک اور افلاس میں
پیہم اضافہ ہو !۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے