دوسہیلیاں میری۔۔۔
جن سے سیکھتی ہوں میں
ایک میری ماں ہیں
جو مجھے سکھاتی تھیں
شہرِ بے اماں میں تو
اس طرح ہی جیتے ہیں
گیت لکھتی،
کلیاں چنتی
انگلیاں لہو کرو
راہ تکتی
سپنے بنتی
آنکھ کو دھواں کرو
"میں بھی ہوں‘‘ کے جانفریب
زعم سے مکرجاؤ
مصلحت کی دلدل میں
تھوڑا تھوڑاجینے کی
عادتوں کو اپناؤ
دوجی میری بیٹی ہے
یہ مجھے بتاتی ہے
"میں بھی ہوں‘‘ کی آگہی
آج کی سچائی ہے
گیت لکھتی،سپنا بنتی،
آنکھ ہو کہ انگلیاں۔۔۔
وہ بھی سانس لیتی ہیں۔
آئیے، کہ ہم سب اب مصلحت
کی چوکھٹ پر
سانس سانس مرنے کی
عادتیں بدل ڈالیں
اب "جیؤاورجینے دو‘‘ کااصول اپنا کر،
شہرِ نا مہر کو بھی
مہرباں بناڈالیں
دوسہیلیاں میری۔۔۔
جو مجھے سکھاتی ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے