انسان بھی کیا نجیب عجوبہ ہے۔ اِس طاقتور مخلوق نے وقت جیسے نظر نہ آنے والے، سونگھے نہ جا سکنے والے، بے وزن، بے رنگ، بے ذائقہ ، چھوئے نہ جاسکنے والے، اور حتیٰ کہ محسوس نہ کیے جاسکنے والے ’’تصور ‘‘کو بھی ٹکڑوں ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا۔ اُس نے پہلے چاند کے حساب سے وقت کے بارہ ٹکڑے کیے، اور ہر ٹکڑے پر اپنی مرضی ، پسند، خواہش یا اُس ٹکڑے کی کسی خصوصیت کی مطابقت میں کوئی نام رکھا۔۔۔۔۔۔ اِن بارہ ٹکڑوں میں سے پانچویں ٹکڑے کا نام ’’ مئی‘‘ ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ یونانی لوگ زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کے پائی نیئر کے بطور موجود ہیں۔ سال کے اس (پانچویں) ٹکڑے کا نام انہی یونانیوں نے اپنی ایک دیوی ’’ مایا‘‘ پر رکھا تھا۔ یہ دیوی زرخیزی اور تولیدی معاملات پہ قدرتی رکھتی ہے۔مئی: مایا کا مہینہ۔
عورت کے لیے بلوچی کا محترم لفظ ’’ مائی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ فرانسیسی زبان میں اِسی دیوی کے لیے استعمال ہوتا تھا)۔ بہار، نوخیزی، سرسبزی، پیدائش ، بڑھوتری، محبت، کامیابی۔۔۔۔۔۔ کتنے معنی دے سکیں گے آپ؟۔
مئی کامہینہ دنیا بھر میں بالعموم ، اور بلوچستان کے لیے بالخصوص ایک eventfulمہینہ ہے ۔
عالمی سطح پر اس ماہ کو دووجوہات سے تکریم حاصل ہے:
ایک تو یوم مئی ہے جو ہر سال مئی کی پہلی تاریخ کو دنیا بھر کے ہر شہر اور گاؤں میں منایا جاتا ہے ۔ یہ بین الاقوامی مزدور دن ہے، اور جو شگاگو کے اندر مزدوروں کی جدوجہد اور قربانیوں سے منسوب ہے ۔
عالمی پیمانے پر اس ماہ کی پانچ تاریخ بھی بہت احترام اور گراں قدر گردانی جاتی ہے۔اس لیے کہ اُس دن محکوموں مظلوموں کمزوروں کے عالمی فلاسفر کارل مارکس پیدا ہوا تھا۔
بلوچستان میں اس ماہ کی اہمیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں طبقاتی انقلابی سوچ کا بانی اور سامراج مخالف کارواں کے ایک اہم راہی میر یوسف عزیز مگسی نے مئی (31) میں دنیا سے پردہ کیا تھا۔
مئی یہاں اس لیے بھی اہم ہے کہ بلوچی زبان کا سر شاعر، انقلابی راہنما اور خوبصورت دانشور میر گل خان نصیر بھی مئی(14) کو پیدا ہوا تھا ۔
پھرسندھ میں ہمارے سینئر دوست سوبھوگیان چندانی کی سالگرہ بھی مئی میں آتی ہے (3مئی) ۔
اور بلوچستان میں ماما عبداللہ جان بھی اسی ماہ (8مئی) پیدا ہوا تھا ۔
اسی طرح بلوچی زبان میں شاعری کے سنگ ہائے میل کو دیکھنا چاہو تو ماضی میں ایک بڑا پتھر ملا فاضل کے نام سے ملے گا، وہ بھی مئی کے ماہ سے منسوب ہے۔
ابھی حال میں آئیے تو ایک مینار آپ کو کفایت کرار کے نام کا مئی کے کیلنڈر میں ملے گا۔
اور اسی ماہ(28) مئی میں ہمارے پہاڑکے اندر مہلک ترین ہتھیار ایٹم بم کا د ھماکہ ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ حالات کے بادل جب کچھ چھٹتے ہیں تو اِس ماہ سنگت کانفرنس لازمی ہوچکی ہوتی ہے ۔ مگر حالات کے ہیبت بھرے بادل کہاں چھٹتے ہیں؟ ۔ بلوچستان اپنی کانٹوں بھری راہیں ذراسابہتر کرتا ہے تو پھر ریت کے جھکڑ اُسے بند کردیتے ہیں۔ ہماری قسمت کا ستارہ ابھی طلوع ہونا نہیں چاہتا ۔پھر بھی یہ بات عام ہے کہ اہلِ بلوچستان مویشی کے شانے کی ہڈی (بڑدست)دیکھ کر موسم شناسی کرتا جاتا ہے۔ کبھی تُکاچل جاتا ہے اور کبھی یہ حالات’’بڑدست گند ‘‘کو چاروں شانے چت پٹخ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ (عموماًثانی الذکر کا حکم چلتا ہے )۔
مئی کی کانفرنس سردیوں میں گوادر کے اندر ’’پوسٹ عبداللہ جان بلوچستان ‘‘سمینار میں طے ہوگئی تھی ۔وہیں اس عزم کا بھی دوبارہ اعادہ ہواتھاکہ غم و آلام میں مبتلا بلوچستان میں کوشش کی جائے کہ بڑی شخصیات کی برسیوں کے بجائے اُن کی سالگرہیں منائی جائیں تاکہ کچھ تو جشن کا بہانہ میسر ہو،کچھ تو مسکرا ہٹیں بکھریں ،اور لوگ کچھ تالیاں کچھ سیٹیاں بجا پائیں ۔
ہم نے اُس دن کو ماما پر ایک مجوزہ ڈاکیو منٹری سے شروع کرنا تھا ، پیٹنگز کی نمائش بھی منعقد کرنی تھی،جو کہ سنگت سیمیناروں کانفرنسوں کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔
گوادر سے واپس آئے توکانفرنس کے لیے تیاری میٹنگیں شروع ہوئیں۔ کمیٹی جو کہ سنگت اکیڈمی کے سربراہ عابد میر کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی، اُس کی میٹنگیں متواتر ہوتی رہیں۔
ادارہ سازی میں میٹنگیں توبہت ضروری ہوتی ۔ لہٰذا ہم میٹنگوں پہ میٹنگیں کرتے رہے ۔ اِس طرح کانفرنس کا فارمیٹ مرتب ہوگیا۔ مقالوں کی تعداد ،موضوعات اورمقالہ نگار مختص ہوتے گئے ۔
مقالوں کو ہم نے انہی شخصیات ہی کے حوالے سے تین ادوار میں تقسیم کیا ۔ پہلا دور ہماری تحریک کے بلوچستانی بانی یوسف عزیز مگسی کی سرگرمیوں اور اُسے درپیش بین الاقوامی ،ملکی اور بلوچستانی سطح کی سیاسی معاشی اور سماجی معاملات سے متعلق طے ہوا۔ اور چونکہ مارکس اور مارکسزم کی باضابطہ اور تحریری انداز میں اُسی نے تبلیغ وتذکرہ شروع کیا تھا اور یوم مئی پر مزدوروں کے جلوس نکالنے کی خواہش کا اظہار بھی اُسی نے پہلی بار کیا تھا اس لیے فیصلہ ہوا کہ یوسف عزیز مگسی کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے کارل مارکس اور یومِ مئی کے موضوعات پہ بھی بھرپور بات ہو۔
پروفیسر جاوید اختر نے اس موضوع پر مقالہ لکھنے کی پیش کش کرلی ۔ اُس نے 1920سے لے کر مگسی صاحب کی وفات 1935تک کے عرصے کے سیاسی معاشی اور معاشرتی معاملات میں سے ’’تحریک‘‘ کاراستہ بنانے کے عمل کا احاطہ کرنا تھا۔
مگسی صاحب کی 1935میں وفات کے وقت میر گل خان نصیر ،بلوچستان کی سیاسی زندگی میں ابھر کر سامنے آیاتھا ۔یوں وحید زہیر نے 1936سے 1952تک بات کرنی تھی جب ماما عبداللہ جان اور لٹ خانہ تحریک کا جھنڈا بلندہونا تھا۔
1952سے لے کر ماما کی وفات( ستمبر 2016)تک کی ہلچل سے بھری بلوچ تاریخ کے لگ بھگ ستربرس کا احاطہ پروفیسر غلام نبی ساجد بزدار کے ذمے لگا۔ مگر اُس نے ہمارے دوسرے بزرگ اور عبداللہ جان کے ہم عصر انقلابی سوبھوگیا نچندانی کی شاندار جدوجہد کو بھی جائز مقام دینا تھا ۔
سٹیج سیکریٹری والے فرائض دوستوں نے شاہ محمد کے ذمے کردیے ۔
بُک فیئر اور پنیٹگز کی نمائش تو سنگت کانفرنسوں کا لازمی حصہ ہوتے ہی ہیں۔ مگر مشاعرہ بھی ایک زبردست سرگرمی ہوتا ہے ، بین اللسانی مشاعرہ ۔ بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں کا مشاعرہ ۔ مشاعرہ کی پوری ذمہ داری ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں نے اپنے ذمے لیا۔
پریس کلب کے معتبرین سے پریس کلب کا ہال اور دیگر سہولیات کی منظوری لی گئی ۔
بینرز، پینافلیکس جئیند خان ، بیچ اور کولڈ ڈرنک عطاء اللہ بزنجو نے اپنے ذمے لیے ۔
جیسے کہ عام طور پر ہوتا ہے جوں جوں 7مئی قریب آتا گیا کچھ بے چین روحوں کی بے چینی بڑھتی گئی ۔ مگردلچسپ ہے کہ،اس کے برعکس جو پُرسکون ارواح ہوتی ہیں اُن کی پرسکونی بڑھ کر تساہل کی سرحدوں کو چھونے لگتی جاتی ہے ۔ چنانچہ آخری دن معلوم ہوا کہ ہم ڈاکیو منٹری نہ بنا سکے ۔ پینٹنگز کی عدم دستیابی (بعد میں معلوم ہوا عد م ٹرانسپورٹی) نے ہماری دوسری معمول والی سرگرمی بھی سبوتا ژ کردی ۔
سریندا والا آئٹم بھی ’’فلاں نے فلا ں کو کہا‘فلاں نے پھر فلاں کو‘‘ کا شکار ہوا۔ تنظیمیں بھی دلچسپ طریقوں سے فنا اور برباد ہوتی ہیں۔کبھی کبھی اُن کی تنظیمی بیوروکریٹک سخت چوکھاٹ (روسی بیوروکریسی کے لیے گورباچوف کے استعمال کردہ اصطلاح appartchikبن کر) تنظیم کے عام ارتقا میں رکاوٹ بن جاتی ہے ، توکبھی کبھی ڈھیلاپن اس کے لازمی اور معمول کے امور کی بجا آوری کابھی بھٹہ بٹھادیتی ہے ۔ ہم نے اول الذکر بیماری سے تو اس تنظیم سے بچائے رکھا البتہ کوششوں کے باوجود ثانی الذکر عارضے سے مکمل طور پر Immune نہ ہوسکے۔
تیاری کمیٹی نے اس موقع پر جن چار کتابوں کی اشاعت کا فیصلہ کیا تھا وہ چاروں کتابیں وقت پر چھپ کر آئیں اور رونمائی کے لیے تیار تھیں۔
تقریب سے ایک دن پہلے پریس کلب کا جائزہ لینے دوچار دوست وہاں گئے اور دوتین گھنٹے میں سارے انتظامات کو حتمی شکل دے دی ۔
ایک غلطی آئندہ نہیں کرنی ہوگی کہ اتوار کادن ہو ‘سنگت اکیڈمی کا فنکشن کسی تعلیمی ادارے کے بجائے پریس کلب جیسے علاقے میں ہو،اوروہاں فنکشن کے لیے شام کا وقت مقرر ہو توبک فیئر پورے دن کے لیے نہ لگایا جائے ۔اس لیے کہ ایسی جگہوں پر رش تقریب کے وقت ہی ہوجاتا ہے ۔ کتابو ں کی میزوں پر چہل پہل بھی اسی وقت ہوجاتی ہے۔
پھر سنگت اکیڈمی کو اپنے بہت ہی حساس دوستوں کو بتانا چاہیے کہ اگر تقریب پریس کلب جیسے منظم وباسامان ادارے میں ہوری ہو اور اُس کا وقت شام چار بجے مقرر ہوتو صبح دس بجے پہنچنے اور دن بھر وہاں اونگھتے رہنے کا کوئی تُک نہیں بنتا۔
جیسے کہ ذکر ہوا،سنگت کانفرنس کے دن 7مئی کو اکیڈمی کی کتب تو گیارہ بجے برائے فروخت (50%) میزوں پر لگ چکی تھیں مگر وہاں دوست بس مکھیاں ہی مارتے رہے ۔اُن کی بِکری میں زبردست تیزی ساڑھے تین بجے ہی آئی ۔ اور ایک گھنٹے کے اندر اندر تقریباً سب کی سب بک چکیں ۔
ہال بھر چکاتھا اورسٹیج سیکریٹری نے ساڑھے چار بجے سٹیج پہ جاکر کہا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
اُس نے بسم اللہ کے بعد گل خان نصیر کی خوبصورت دعا پڑھنے کے لیے پروفیسر شاہ محمود شکیب کو بلایا۔شکیب کا انداز بالکل سنٹرل ایشیا والوں کا ساہے۔ اس نے ٹھہر ٹھہر کر ، اور الفاظ اچھی طرح ادا کرتے کرتے ہمیں ’’آمین‘‘ کہتے رہنے پر لگائے رکھا۔
یا خداوندا بلوچانا چشیں مردمؔ بدئے
پُر دماغ وجانثار وزندہ دل روشن خیال
پکر آوانی بہ بیت چوتاز گیں سہب ئے چراغ
اکل چو سبزیں زرئے پُر شوکتیں جاہ وجلال
سر بہ بیت خالی چہ کہن وگندگیں رسم ورراج
دپ بہ بیت کندوک آوانی پہ ہر رنج وملال
پکر آوانی بہ بیت روژناتراچ مہرِمنیر
کو رمہ بیت چوشیہہ وملایاں ہما وانی ضمیر
ساز آوانی بہ بیت ہمساز سازِ زندگی
نَیں چشیں سازے کہ ہم آواز ببیت گوں خان و میر
تَرس آوانی دلابے شک بہ بیت پہ بے وساں
نئے چشیں تُرسے کہ مرد سجدہ بکنت شاہ ووزیر
یا خداوند ابلوچاں مں جہانا زندہ کن
مئے دوارا گوں چشیں مرداں وتی تا بندہ کن
سٹیج سیکرٹری نے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا ترجمہ ’’علوم اکیڈمی‘‘کردیا۔ہم نے دنیا کی سائنس اکیڈمیوں کے بارے میں معلومات کے بعد ایک عرصے سے بلوچستان کی ’’ سنگت اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کے بارے میں تمنا کررکھا ہے کہ اسے مندرجہ ذیل امور پہ سیمینار، ماہانہ باقاعدہ نشستیں اور ریسرچ واشاعت کرتے رہنا چاہیے۔
الف۔ نیچرل سائنسز
بیالوجی
کیمسٹری
فزکس
ارتھ سائنس
ب۔ بلوچالوجی( سوشل سائنسز)۔
بلوچالوجی پہ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں بے شمار عنوانات شامل ہیں: ہیومن رائٹس، کلچر، سپورٹس ، امن، زراعت، لائیوسٹاک، سمندری حیات، سوک ایجوکیشن ، ڈزاسٹر مینجمنٹ، رضا کاریت، ماحولیات ،سیاسیات، فوڈ سیکورٹی اور نیوٹریشن، واٹر مینجمنٹ ، ٹریڈ، انڈسٹری، ٹرانسپورٹ ، انرجی، انتھراپالوجی، آرکیالوجی، اکنامکس، جورس پروڈنس، جغرافیہ، انٹرنیشنل ریلیشنز، نفسیات، سوشالوجی، کرمنالوجی، اتھنالوجی، اتھنوگرافی، ڈویلپمنٹ سٹڈیز۔
بلوچالوجی کی اس فہرست میں وہ شعبے شامل نہیں ہیں جن پہ سنجیدگی مگر غیر منظم انداز میں ’’ سنگت اکیڈمی‘‘ کام کررہی ہے۔ سٹیج سیکرٹری نے سنگت کی طرف سے مندرجہ ذیل شعبوں میں کام کرنے کی رپورٹ کردی :
ادب وفن ،تراجم،سوانح عمریاں، سیاسی معیشت ، تاریخ ،فلسفہ ،تعلیم ، صحت ،محنت کش طبقہ،خواتین ،صحافت ۔لسانیات ، پرفارمنگ آرٹس۔
سنگت اکیڈمی کے سینئر ساتھی خالد میر نے ہماری تنظیم کے سربراہ عابد میر کے ساتھ مل کر پوری رات لگا ئی۔ اوراس کانفرنس کے حوالے سے ایک وڈیو تیا ر کی تھی۔ اس لیے پر یزیڈیم کو سٹیج پر بلا نے سے قبل سارے ہال نے وہ خوبصورت وڈیو دیکھی۔ ہمیں اچھا لگا کہ بلوچستان کے دوستوں نے سوبھوگیان چندانی کو قدروعزت کے ساتھ پہچاننا شروع کردیا۔
بلوچستان کے جنوبی کونے اوستہ محمد سے خصوصی طور پر اس کانفرنس میں شرکت کے لیے آنے والے ہمارے پرانے فکری سینئر ساتھی صوفی عبدالخالق کو اعزازی مہمان کے بطور سٹیج پر بٹھا یا گیا۔ہمارا دوسرا بزرگ ہمسفر، اور بلوچستان سنڈے پارٹی کا صدر قاضی عبدالحمیدشیرزاد اس کانفرنس کا مہمان خصوصی تھا اورسنگت اکیڈمی کے سربراہ(سیکریٹری جنرل) عابدمیر کو اس کانفرنس کی صدارت کی محترم نشست پر بٹھایا گیا۔
ہم سب سے پہلے، حالیہ عرصہ میں انتقال کرنے والوں کے لیے فاتحہ کروانا چاہتے تھے ۔یہ بڑی شاں والے لوگ تھے: بلوچی زبان کے سب سے بڑے مزاح نگار محمد بیگ بیگل ، براہوئی زبان کے بہت اچھے دانشور وشاعر عبدالخالق ابابکی اور پشتو اردو کے روشن فکر شاعر پر وفیسرربنواز مائل۔ قاضی عبدا لحمید شیرزاد نے عربی اور بلوچی میں طویل فاتحہ پڑھی ۔ہا ل میں موجود ڈیڑھ دوسو افراد ہاتھ اٹھا کر اُن کی روحوں کے سکون کے لیے آمین کہتے رہے۔
اُس کے بعد تین ننھے بلوچ بچے ستیم کمار، روشنی اور سندیپ کمار سٹیج پہ آئے اورایک انقلابی ترانہ سنا کر خوب تالیاں کمائیں۔
ہم نے اپنے مرحوم مشاہیر کو سالگرہ کے موقع پر ہیپی برتھ ڈے توبولنا تھا۔ اور اُس روز کو، اُن ’’ ہیپی برتھ ڈے بوائیز کی‘‘ارواح کے شایانِ شان منانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ تھا کہ اِن کتاب والوں کو کتاب ہی کا تحفہ پیش کیا جائے۔ چار کتابیں چھپ کے آئی تھیں: دو ماما کی اپنی تصانیف، ایک ماما سے متعلق ،اور ایک اُس کے سب سے اچھے دوست سائیں کمال خان شیرانی کے بارے میں ۔
سوچا،ماما تو اپنے دوستوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ لہٰذا ماماکی روح اپنے بہترین دوست کے بارے میں اُس کی اپنی زبان پشتو میں چھپی کتاب کی رونمائی کا سنے گی تو اُسے بہت خوشی ہوگی ۔ چنانچہ پریڈیم کے تینوں دوستوں نے کھڑے ہو کر بارکوال میاخیل کی اردو سے پشتو میں ترجمہ کردہ ’’سائیں کمال خان شیرانی ‘‘ کی کتاب سینے سے لگا کر اُس کی رونمائی کی ۔ مترجم خوش ، ہم خوش اورساراہال خوش۔ اظہار؟ بھرپور تالیاں۔
دوسری کتاب ماماعبداللہ جان کی اپنی لکھی ہوئی کتاب ’’لٹ خانہ ‘‘تھی۔ یہ اُس کی زندگی میں دوبار شائع ہوئی تھی اور اب اُس کی وفات کے بعد آنے والی اُس کی اولین سالگرہ پرہیپی برتھ ڈے کے بطوراُس کی تیسری بار اشاعت اور رونمائی کا اعلان ہوا۔ کھڑے ہو کر اس کی کتاب کی پذیرائی ہوئی ۔ پر جوش تالیوں نے سماں باندھ لیا۔
تیسری کتاب بھی ماما عبداللہ جان جمالدینی کی اپنی لکھی ہوئی تھی : شمع فِروزاں ۔اُس کے انتقال کے بعد یہ کتاب اب دوسری مرتبہ چھپ گئی تھی ۔ اسی جوش سے سٹیج کے تینوں دوستوں نے کھڑے ہو کر کتاب سینے سے لگائے سامعین وحاضرین وکیمروں کو دکھا دی۔
چوتھی کتاب عبداللہ جان کے ایک ہم عصر جو نیر دوست نے لکھی تھی۔ یہ کتاب دوسری مرتبہ چھپ گئی ۔کتاب پہلی بار ماما کی زندگی اور صحت مندی کے وقت چھپ گئی تھی، اب اُس میں اچھے خاصے اضافے کیے گئے۔ اس لیے یہ دوسری اشاعت نہ تھی ، دوسرا ایڈیشن تھا۔ یہ ’’عشاق کے قافلہ‘‘ نامی کتابوں کے سلسلے کی 25ویں جلد تھی۔
اچھے انسانوں کی طرف سے اچھے دوستوں کو اچھی طرح یاد کرنے کا اچھا طریقہ!۔
کارل ساگاں ٹھیک کہتا ہے کہ ہم بطور انسان بہت شاونسٹ ہیں اور ہر طرح سے خود کو کائنات کا مرکزہ گرداننے پر مُصر رہتے ہیں۔ مگر انسان کا مقابلہ کائنات میں موجود کسی بھی مظہر سے کریں تو آپ کو فضیلت اور افضلیت خود بخود نظر آئے گی۔صلاحیتوں، اہلیتوں اور امکانات سے پُر ۔انسان کے ہزاروں عمدہ اور اعلیٰ اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی تنظیم بناتا ہے، اپنا گروہ قائم کرتا ہے۔ ایسوسی ایشن بنانا اُس کی جینز میں شامل ہے، پارٹی ساز جاندار۔
شروع شروع میں یہ ہم خیال، یا ہم شوق ، یا ہم عمر ، اور یا ،ہم پیشہ افراد کا گروپ بغیر تشہیر کرکے اپنے فیلڈ میں مصروف رہتا ہے ۔ جب کمپی ٹیشن بڑھنے لگتی ہے تو اپنی تعریف و توصیف بڑھتی جاتی ہے۔ اور ایک مقام ایسا آتا ہے کہ وہ اس شعبے سے متعلق اپنے دوسرے کمپی ٹی ٹرکی برائیاں بھی بیان کرنے لگتا ہے ۔ ’’ یہ کہنی ماری‘‘ چلتے چلتے گروہ کی زندگی کاایک اہم حصہ بن جاتا ہے ۔
لوہے میں لپٹی ایسی بے شمار کہنیوں کے نشانات سنگت اکیڈمی کی پسلیوں پر نقش ہیں مگر خدا کا شکر ہے کہ سنگت اکیڈمی نے اپنے بیس سالہ موجودہ نام، اور دس سالہ سابقہ ناموں کے تحت کہنی تو کیا کسی کو پِڑتی بھی نہ ماری۔
سٹیج سیکرٹری نے سنگت اکیڈمی کے سربراہ کو سنگت اکیڈمی کے تعارف و ورکنگ پیٹرن اور موجودہ کانفرنس کی غرض و غایت تفصیل سے بیان کرنے کی دعوت دی۔
پروفیسر عابد میر نے ایسا ہی کیا۔
بلوچستان یونیورسٹی میں انگلش کے استاد جاوید اخترجب میر یوسف مگسی، کارل مارکس اور یوم مئی پر بات کرنے سٹیج پہ آیا تو پِن ڈراپ سائیلنس میں سیاست و ادب کی کڑیاں ملاتا ملاتا 1935 تک آگیا۔اس نے کمال کا میابی کے ساتھ مغربی بلوچستان میں گل بی بی کی قیادت میں انگریز دشمن لڑائی کا تذکرہ کیا تھا تو دوسری طرف انہتائی انتہائی مشرقی بلوچستان میں خیر بخش اول کی سامراج دشمن جنگوں سے ابتداکی ۔ وہ مصری خان کھیترانڑ اور باکو کانفرنس سے ہوتے ہوئے یوسف مگسی تک تفصیل کے ساتھ بولتا رہا۔ اُس کی اولمپک لیمپ کی حد یہاں تک تھی اس لیے اُس نے لیمپ اگلے مقرر کے حوالے کرنے کے لیے میدان ( سٹیج ) خالی کردیا۔
مگر اگلے مقرر سے پہلے یومِ مئی ، کارل مارکس اور یوسف مگسی کی مناسبت سے کچھ قراردادیں منظور کرانے کلاخان خروٹی کو بلایا گیا۔ اس نے مندرجہ ذیل قراردادوں کی پرجوش منظوری لی۔
۔-1 یہ کانفرنس یوم مئی کے مزدور شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
۔-2 ڈیلی ویج مزدوروں کومستقل کیا جائے۔
۔-3 کنٹریکٹ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
۔-4 چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
۔-5 بلوچستان کے ماہی گیروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
۔-6 زرعی اصلاحات پر سختی سے عمل کیا جائے اور چھوٹے کسانوں کو بیج اور ادویات سستی قیمت پر مہیا کی جائیں۔
۔-7 کانفرنس بلوچستان میں پیرا میڈیکس کی جدو جہد کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتی ہے ۔
۔-8 کانفرنس صوبے کے نئے میڈیکل کا لجوں میں تدریس کا باقاعدہ عمل شروع کرنے پر زور دیتی ہے۔
۔-9 یہ کانفرنس کارل مارکس ، میر گل خان نصیر،میر عبداللہ جان جمالدینی اور سوبھوگیان چندانی کی سالگرہ منانے پر افتخارواطمینان کا اظہار کرتی ہے ۔
۔-10 یہ کانفرنس یوسف عزیز مگسی کی برسی مناتے ہوئے اُس کی تعلیمات پرچلنے کا عزم کرتی ہے۔
آگے تو گل خان تھا۔ عقل کا مالک گل خان، کلام کا مالک گل خان، ترانہ اور ہمت کا دھنی گل خان، دو درجن تخلیقی کتابوں کا مصنف گل خان، 69سال کی کُل زندگی میں سے 30 برس ایوبی بھٹوئی جیلوں میں سڑنے والا گل خان۔
گل خان کے بارے میں سٹیج سیکریٹری نے عجب بات چھیڑدی ’’ہمیں پتہ ہے ناں کہ گل خان کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی ۔ جب بھی اُس کی بیٹیاں، یا دوسرے قریبی لوگ ارمان بھرے انداز میں اس سے یہ تذکرہ کرتے تو وہ نازو نخرے اور ناراضگی میں کہہ اٹھتا:
’’ تو پھر کیا ہوا ؟ ۔کیاسارے بلوچ میرے بیٹے نہیں ہیں؟‘‘۔
آج کتنے نرینہ اولاد والے ہیں جن کی یاد نہیں منائی جاتی اور اُس بے نرنیہ اولاد والے بڑے انسان کی یاد اُس کے بیٹے منار ہے ہیں۔اُس کی یاد موت کے فوراً بعد نہیں منائی جارہی کہ وقتی اور جذباتی معاملہ ہو بلکہ آج اُس کی۔103ویں سالگرہ پرہال بھرے اُس کے بیٹے بیٹیاں یہاں موجود ہیں۔ اور ایسے ویسے نہیں نہایت سنگینی، سنجیدگی ، وقاراور بھاری پن کے ساتھ۔
’’ہماری آواز بنے گا وحید زہیر اور تیرے کار ناموں کے اس تذکرہ نامے کے دوران تالیاں بجائیں گے تیرے دوسرے بیٹے بیٹیاں۔۔‘‘
سو وحید زہیر آیا اور مواد کی ’’موجودگی‘‘ میں شاعری والی اپنی خوبصورت نثر سنا ڈالی ۔
اس کے بعد سیکرٹری نے ’’عالمی‘‘ صورتِ حا ل سے متعلق قراردادوں کے پیش کرنے اور انہیں منظور کرانے کیلئے نصر جمالی کو بلایا۔ قرار دادیں یہ تھیں:
۔-11 سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی یہ کانفرنس عالمی سیاست میں تنگ نظری ، ڈنڈے ماری اور رجعت پسندی کے نئی ابھار پہ تشویش کا اظہار کرتی ہے ۔ ٹرمپ کی قیادت میں یہ عالمی رجحان بین الاقوامی امن ، انسانی بہبود اور آدمیت کی بقا کے لیے خطرناک ہے ۔ اس کانفرنس کے شرکاء اپنا وزن ہمیشہ ٹرمپ ازم کے مخالفوں میں ڈالتے رہیں گے ۔
۔-12 یہ کانفرنس افغانستان ، عراق ، لیبیا اور شام کی تباہی کو حادثاتی نہیں سمجھتی ۔ یہ سارا کچھ سرمایہ داری نظام اپنی بقا اور بڑھو تری کے لیے کر رہا ہے ہم سرمایہ داری نظام اور اس کی جنگی صنعت کی مذمت کرتے ہیں۔
۔-13 ہم سعودی ایران تنازعہ سے لے کر ہمارے اپنے ملک کے چاروں طرف موجود ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی کے اصولوں پر قائم پڑوسی گیری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
۔-14 کانفرنس پاکستان اور ہندوستان کے مابین تمام اختلافی معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔
۔-15 ہم دو روز قبل چمن کے علاقے میں معصوم انسانی جانوں کے زیاں پر رنجیدہ ہیں۔دونوں ممالک بایدے کہ مل بیٹھیں اورباہمی مسائل حل کریں۔
اگلہ مقالہ دوتین وجہ سے مشکل مقالہ تھا۔
ایک تو اس لیے کہ اسے 1952سے لے کر 2016تک کی ادبی لسانی اور سیاسی سماجی تاریخ کا احاطہ کرنا تھا جو تقریباً 70سال کا عرصہ بنتا ہے ۔
دوسرا یہ کہ یہ ستر سال کمال کے سال تھے ۔ بلوچستان میں لٹ خانہ تحریک قائم ہونے سے لے کر افغانستان وایران میں انقلابات آنے تک کی زبردست ہلچلوں والا زمانہ تھا جس میں سرکار کی طرف سے ون یونٹ کے قیام سے لے کر عوام کی طرف سے اُسے بالآخر ختم کرانے کے شاہی قلعوں ،قلی کمیپوں ، فوجی کاروائیوں کے سارے دردناک سال شامل تھے ۔ پھر پاکستان ٹوٹنے ، بنگلہ دیش بننے ، پہلی بار ایک بورژوا جمہوری آئین بننے اور بلوچستان میں سیاسی حکومت قائم کرنے ، گرانے اور ایک اور فوجی کارروائی کے سال تھے۔ جس کے بعد افغانستان کا انقلاب ہوا ۔ درجن سے زائد سالوں تک چلا اور کشت وخون میں ڈوب گیا۔
انہی ستر برسوں میں روس کی بد ہضمی نے پورے مزدور طبقے کو ہسپتال داخل کرادیا۔ اُدھر طالبان ابھرے ،یہاں اکبر بگٹی اور بالاچ مری نہ رہے ۔ موت بارود کے ٹکڑے بن بن کر بلوچستان کا پیچھا کرتی رہی۔
اس پورے دو ر میں ایک مکتبہ فکر کی ترجمانی ماما عبداللہ جان اور اس کے ساتھی کرتے رہے۔
اس کے علاوہ چونکہ یہ ہمارا اپنا زمانہ ہے اس لیے خو د پر بولنا تھا ۔ اور خو د پہ بولنا دنیا کا مشکل ترین بولنا ہوتا ہے۔
اس پورے دور کو بیان کرنے کے لیے سٹیج سیکریٹری نے یہ کہہ کرغلام نبی ساجد بزدار کو بلا یا کہ ’’ڈیڑھ لاکھ بزداروں سے ہمارے حصے میں یہ ایک بزدار آیا‘‘۔ مگر کانفرنس ختم ہوئی تو سینہ تانے تین بزدار سامنے آئے کہ ہم ایک نہیں تین بزدار آپ کے ساتھ ہیں ۔ دوسری تصحیح انہوں نے یہ کردی کہ بزدار قبیلہ ڈیڑھ نہیں دولاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔
اس نے1952سے لے کر 2016تک کے سفر کا تذکرہ کیا ۔ اور پھر عبداللہ جان کے انتقال کے بعد کے چیلنجوں اور تیاریوں پہ بولا۔
اُس نے آج کے اربابِ صدق وصفا کی ہمت بڑھائی ۔ تنظمیں ٹوٹ جاتی ہیں ، لاغر ہوسکتی ہیں،زن کندن میں جاسکتی ہیں، حتی کہ معدوم ہوتی ہیں ، جون بدلتی ہیں مگر تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
چنانچہ’’ ہزار شمع بکشند انجمن باقیست‘‘ کا تاثر بھرا مقالہ ختم ہوا جس کے ساتھ ہی کانفرنس کا سٹرکچرڈ حصہ بھی اختتام پذیر ہوا۔ مگر یہاں ’’پاکستان ‘‘سطح کی سیاسی معاشی معاملات پر سرور آغا نے قراردادیں منظور کروائیں جو کہ یہ تھیں ۔
۔-16 یہ کانفرنس ملک میں ہوش رُبا مہنگائی کی مذمت کرتی ہے۔
۔-17 ہم تباہ کن بے روز گاری پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
۔-18 سنگت کانفرنس ریاست اور اُس کے اداروں میں موجود کرپشن یہ اپنی نفرت کا اظہار کرتی ہے ۔ اقر باپروری ، رشوت خوری اور سفارش مہلک وباؤں کی طرح سماج کی جڑیں کاٹ رہی ہیں۔ ہم ان سب کے خلاف ہیں
۔-19 سنگت کانفرنس عوام سے وابستہ ہر شعبہ سے متعلق، اپنے فرائض سے ریاست کے فرار کو تشویش سے دیکھتی ہے ۔ ریاست ٹیکس بھی لیتی ہے مگر کہتی ہے علاج پرائیویٹ ہسپتالوں سے کراؤ، علم پرائیویٹ اداروں سے حاصل کرو، اور اپنی جان کی حفاظت کے لیے پرائیویٹ گارڈ رکھو۔ عوام کو یہ سب کچھ نہیں کرنے دینا چاہیے۔
۔-20 کانفرنس حالیہ برسوں میں عدالت اور ریاست کے بجائے ہجوم کی طرف سے فیصلے کرنے اور خود سزائیں دینے کی لہر کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ اور ان سب کی ذمہ داربھی ریاست اور اُس کے اداروں کو قرار دیتی ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر معاملے کا فیصلہ ریاستی آئین اور قانون کے مطابق اُنہی متعلقہ اداروں کو کرنا چاہیے۔آئین و قانون ، پولیس ، اور عدالت سے باہر کچھ بھی نہ ہونا چاہیے۔
سرور نے بلند آواز میں ہال میں سے ’’ منظور ہے ‘‘ کی آواز سنی تو نیچے اترا اور نجیب اللہ نے ’’بلوچستان‘‘ سے متعلق مندرجہ ذیل قراردادوں کی منظوری لی۔
۔-21 اس کانفرنس کی نظر میں بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے ۔ اس کا جنگ کے ذریعے حل کبھی نہیں نکلے گا۔
۔-22 صوبہ سندھ بلوچستان کے نہری پانی میں چوری کر رہا ہے اور وفاق اس پانی چوری میں اُس کا ساتھ دے رہا ہے ۔ ہم اپنے صوبے اور عوام کے ساتھ روا رکھی گئی اس بے انصافی کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
۔-23 CPECکے سارے معاملے میں بلوچستان کی عوامی امنگوں، خواہشوں اور رضامندی کا کہیں بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ سنگت اکیڈمی کی یہ کانفرنس اس معاملے پر مروج اور تسلیم شدہ طریقوں سے عوامی رائے حاصل کرنے اور اس کے مطابق چلنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
۔-24 بلوچستان کی مردم شماری کو ہرلحاظ سے شفاف اور قابل قبول ہونا چاہیے۔
پُرامن انتقالِ اقتدار یوں ہوا کہ شاہ محمد نیچے اترا اور مائیک منیر احمد رئیسانڑیں کے حوالے کردی ۔ جس نے ایک بہت ہی اشرف انسانی سرگرمی یعنی شاعری کا دور چلانا تھا۔