’’پروفیسر ! پلیز، میری بہن کی زندگی کا سوال ہے ۔ اس کا میرے سوا اور کوئی نہیں ۔ اگراسے کچھ ہوگیا تو میں پاگل ہوجاؤں گا !‘‘ سراج نے روتے ہوئے کہا۔
پورے دوسو رُپوں کا سوال تھا، اس لیے پروفیسر ایاز گہری سوچ میں پڑگیا۔ بالآخر اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور کہا،’’ مجھے تمہارے ساتھ ہمدردی ہے ، سراج ! لیکن افسوس میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا۔ بیس پچیس رُپے ہوتے تو کچھ کیا جاسکتا تھا، لیکن …..‘‘
پروفیسرایاز اور بھی کچھ کہتا رہا ،لیکن وہ مزید ایک لفظ بھی نہ سن سکا۔ اس کی آنکھیں شعلے برسارہی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا:’’ کیا یہ وہی پروفیسر ہے جو کچھ دیر پہلے زندگی کے فلسفہ پر لیکچر دے رہا تھا؟ کیا وہ صرف خالی خولی کتابی باتیں تھیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ؟ کیاوہ باتیں صرف کتابوں تک محدود ہیں ؟ ان میں حقیقت کا رنگ نہیں بھرا جاسکتا ؟ اس کے کانوں میں پروفیسر ایازکی آواز گونج رہی تھی،’’ آپ اس گردآلوددھرتی پراپنی قیمتی زندگی کا بیشتر عرصہ گذارچکے ہیں ۔ آپ اس کائنات کو تحقیقی نظروں سے دیکھیں گے تو زندگی کا پورا راز آپ پر عیاں ہوجائے گا۔ زندگی کی تمام حقیقت گنجلک دھاگوں کی طرح ہے اور وہ کھل کر آ پ کے سامنے آجائے گی۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کو کسی شہرمیں داخل ہونے سے پہلے قبرستان سے ہوکر گذرنا پڑتا ہے ۔ آپ ٹرین میں ہوں ،تانگے میں ہوں یا پیدل لیکن پہلے موت اور پھر زندگی کے آثار نظرآتے ہیں۔ دنیا کے ان عبرت ناک مناظرسے ہم سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ دنیا کا ہرذرہ ایک بڑامطلب، ایک حقیقت رکھتا ہے اور وہ ہماری راہوں میں ایک بہترین رہبر کا کردارادا کرتا ہے ۔ اگر ہم اپنی آنکھوں سے حرص اور ہوس کے پردے ہٹا کر دنیا کی کھلی کتاب پرذہن وقلب کی آنکھیں مرکوز کریں گے تو اپنے مقصدِ حیات تک پہنچ پائیں گے ،نہیں تو ایک اندھے کی طرح موت کی وادی میں بھٹکتے رہیں گے ۔ اور بالآخر تھک ہارکر یوں ہی ڈھے پڑیں گے ۔ جس طرح ایک پیاسا سراب کے پیچھے دوڑدوڑ کر مرجاتا ہے ۔یہ زندگی ایک امتحان ہے ۔ ہمیں رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں اسی وادئ موت کو پارکرنا ہے ۔ زندگی کا شہر کچھ اتنا دوربھی نہیں ہے ۔ دنیا کا ہرنظارہ،ہرچیز ہماری راہ رو اور راہبر ہے ۔ علم کے بے پایاں سمندرمیں ادب کی کشتی کنارے کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ اگرلہریں ہمارے ساتھ ہیں تو ساحل خود بخود نزدیک آسکتا ہے ۔ دیکھو ، کنارے کے ساتھ سرکنڈوں نے زندگی کاگیت گنگنانا شروع کردیا ہے ۔ شاعر نے جس طور اس بات کی نمائندگی کی ہے ،ہم اسے سمجھنے کی کوشش کریں:
ڈوبتے وقت جھاڑیوں کا سہارا بے وقوف ہی لیتے ہیں
لطیفؔ کہتا ہے ، ان جھاڑیوں میں کتنی غیرت اور شرم ہے
وہ ڈوبتے کو بچالیتی ہیں یا پھراس کے ساتھ دریابرد ہوجاتی ہیں۔
ہمارا شاہ لطیف زندگی کا کتنا بڑا اور گہرا ترجمان ہے ! کیا حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے انہوں نے اس بیت میں! زندگی کا تمام راز انہی سطروں میں سمایا ہوا ہے ۔ ہماری زندگی کا مقصد صرف ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے ۔ اگرہمارے پاس کنارے پر اُگی ان کمزور جھاڑیوں کی طرح کسی کی مدد کرنے کی سکت نہیں ،ہم کسی کی مدد نہیں کرسکتے تو پھر ہمیں اس دُکھیارے کے ساتھ ہمدردی ضرور جتانی چاہیے ۔ اسی میں ہمارے جیون کا اصل حُسن چھپا ہوا ہے اور یہی ہماری زندگی ہے ۔‘‘
اُس نے بجھی بجھی نظروں سے پروفیسر ایاز کی طرف دیکھا۔ وہ باتیں پروفیسر ایاز نے تھیٹرکے کسی ادکارکی طرح کہہ ڈالیں، کیا یہ سب کہنے کی باتیں تھیں،کرنے کی نہیں !؟ اب ان باتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں؟ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک پیدا ہوئی اور وہ ایکدم بھڑک اٹھا:
’’ اگر ایک زندگی بچانے کے لیے آپ کی تجوری سے دوسو رُپے بھی نہیں نکل سکتے تو پھر آپ زندگی کے فلسفہ پر اتنے لیکچرز کیوں دیتے ہیں ؟ آپ زندگی کے مسئلہ پراتنی تنقید کیوں کرتے ہیں ؟ پھر آپ زندگی کے ترجمان کیوں ہیں ؟ دنیا ادب کے بغیربھی چل سکتی ہے ۔ زندگی کا پہیہ صرف اقتصادیات اور سائنس کے سہارے بھی چل سکتا ہے ۔ ہم ڈاکٹر اور انجنیئربن کر بھی قوم کی خدمت کرسکتے ہیں،تو دولت بھی کما سکتے ہیں ۔‘‘
’’ بس کرو ،سراج ! بس ۔‘‘ پروفیسرایاز نے غصہ میں میز پر مکا مارتے ہوئے کہا،’’ تم نے ادب کے بارے میں غلط رائے قائم کی ہے ۔ تمہارا خیال بالکل غلط ہے ۔ یہ ادب کی طاقت ہی ہے کہ آج دھرتی اپنے محورپر بالکل صحیح طورگردش کررہی ہے ۔ ادب، اقتصادیات اور سائنس پر حاوی ہے ، نہیں تو قیامت سے پہلے ہی سائنس کے شعلے کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ۔ دنیا کی گردش ،درندگی کا رقص ہوتی اور آج یہاں ایک بھی انسان موجود نہ ہوتا۔ ادب کے وجود سے ہی گوتم،کرشن چندر، ابراہام لنکن، ٹیگور اور شاہ لطیف ایسی ارواح زمین پرآتی ہیں ،جو زندگی کو نیا نُور عطاکرتی ہیں۔ یہ ادب کی طاقت ہے جو لوممبا کی مزار سے پھول اُڑاکر تمام دنیا کی فضاکو معطر کردیتی ہے ۔ ادب تمام علوم کی روح ہے ۔ تمہیں ادب کا منکرنہیں ہونا چاہیے ۔‘‘
’’ مجھے آپ کے لیکچر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، پروفیسر صاحب ! میں آپ کا لیکچر سننے نہیں آیا۔‘‘ سراج کی آواز بہت تلخ تھی۔ اس کی گستاخی پر پروفیسرایاز کی آنکھیں شعلہ بار ہوگئیں اور اس نے غصہ میں میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا،’’ بے ادب ! گستاخ !! نکل جاؤ۔ گیٹ آؤٹ !‘‘
سراج پروفیسرکا آگ بگولہ چہرہ دیکھ کر مسکرادیا،جیسے کہہ رہا ہو،’’ پروفیسر ! کیا یہی ہمدردی آپ کے دل میں ایک دکھی انسان کے لیے !؟ کیا یہی زندگی کی روشنی ہے ؟ کیا یہی زندگی ہے ؟ پروفیسر ! ‘‘
وہ جب اداس چہرہ لے کر باہرنکلا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے واقعتاً اس کی تپِ دق میں مبتلا بہن مرجائے گی۔ حالانکہ بہن تو کیا ، اس اتنی بڑی دنیا میں اس کا کوئی قریبی رشتہ دار تک نہیں تھا۔ اس نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو ایک یتیم خانہ میں پایا اور جس ماحول میں اس نے جنم لیا ، اس ماحول نے اسے ایک منطقی ذہن دیا ۔ وہ بچپن سے ہی بہت ذہین اور نڈر تھا۔ وہ ہر وقت عجیب عجیب باتیں سوچتا۔ وہ باتیں جو اس کی عمر کے حساب سے بہت بڑی ہوتیں۔ اسے اکثر اپنے متعلق یہ خیال آتا کہ وہ یتیم کیوں ہے ؟ یتیم کہاں سے آتے ہیں ؟ ان کے ماں باپ کیوں نہیں ہیں ؟ استاد انہیں ہروقت حرامی کیوں کہتا ہے ؟ اور وہ اپنے ماں باپ کی غلطی مسکرادیتا ۔ ایسی باتیں سوچ کر ا س کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی۔ جمعہ کے دن یتیم خانہ میں گوشت کی باری ہوتی تو وہ اپنی پیالی میں ایک چھوٹی سی بوٹی پاکرسوچ میں گم ہوجاتا کہ یہ بوٹی اکیلی کیوں ہے ؟ اتنا ساراچندہ ہوتا ہے ، وہ پیسے کہاں جاتے ہیں ؟ اتنا سارا گوشت کہاں جاتاہے ؟ پھر اسے ان یتیموں کا خیال آتا جو چارچار بچوں کے باپ تھے ، تب اس کے دل سے ایک ٹھنڈی آہ نکل جاتی۔ ایک مرتبہ اس نے ایسی ہی ایک بات پراستاد سے مارکھائی ، جب ملک کے جشنِ آزادی کے موقع پر یتیم خانہ میں مٹھائی تقسیم کی گئی ۔ اس کے حصہ میں آئے آدھے لڈوکو دیکھ کراس نے کہا،
’’ جناب ! یہ آدھا لڈوکیوں ؟ وہ پورے تین ٹوکرے کہاں گئے ؟‘‘
’’ چپ ، بے ادب ! صاحب کے گھر بھیجے ہیں ۔‘‘ استاد نے غصہ میں جواب دیا تھا ۔
’’ لیکن ،جناب ! صاحب یتیم تو نہیں ؟‘‘
بس پھر اس کا بدن تھا اور استاد کے ڈنڈے ۔ اب اس کا دل یتیم خانہ سے اوبنے لگتا۔ اپنے یتیم ساتھیوں کے چہرے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور اس پر عجیب وحشت طاری ہو جاتی۔ اس کا دل کرتا کہ وہ اس اداس یتیم خانہ کی کوٹھڑی سے بھاگ جائے …..بہت دور۔ لیکن پتہ نہیں کیوں وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا۔
ایک مرتبہ ایک وزیرصاحب یتیم خانہ کا دورہ کرنے آئے ۔ اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا،’’ آپ قوم کا روشن مستقبل ہیں۔ آپ کو ہی اپنے ملک کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا ہے ۔‘‘ اس دن نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے ایک عجیب حرکت سرزد ہوگئی۔ اس نے ایک دم اپنی قمیض اوپر اٹھاکر وزیر کو اپنی سوکھی پسلیاں دکھاتے ہوئے کہا ،’’جناب ! یہ کوئی ہائی سکول نہیں، یتیم خانہ ہے ۔ یہاں بھوک کے مارے یہ حال ہو جاتا ہے ۔‘‘ اس دن استاد نے اسے نہ صرف بید کی چھڑی سے مارا بلکہ یتیم خانہ سے بھی نکال دیا۔ کیوں کہ وہ بہت زیادہ عقل مند ہوگیاتھا یا پھر پاگل۔ یتیم خانہ سے نکل کر اسے محسوس ہوا کہ اس کے یتیمی کے ایام ختم ہوگئے ہیں۔ کچھ دنوں کی آوارہ گردی کے بعدایک شریف آدمی نے اسے نوکر رکھ لیا۔آدمی شریف تھا،اوپر سے اس کی ذہانت کا پتہ چلتے ہی اس نے اسے بھی اپنے بچوں کے ساتھ انگریزی میڈیم سکول بھیج دیا۔ اس کا کھاناپینا، اوڑھنابچھونا وغیرہ بھی اپنے بچوں جیسا اور ان کے ساتھ کردیا ۔ جب اس کے سامنے سالن بھری پلیٹ آتی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ۔ اس کو یتیم خانہ کے ساتھی یاد آجاتے ۔ نہ جانے کیوں اس نئے مالک کے بچے اسے یتیم خانہ کے ساتھیوں کی طرح پیار نہیں کیا کرتے تھے ۔ جب بھی اسے اپنے ساتھی یاد آتے تو اس کا دل اداس ہوجاتا اور اس کے قدم خود بخود یتیم خانہ کی طرف اٹھ جاتے ۔ وہ ایک دن پوپو کی بیماری کا سن کر جب اس کی بیمارپرسی کرنے یتیم خانہ گیا تو اسے پتہ چلاکہ شمو کو اولاد کی خواہش مند ایک عورت گود لے گئی ہے ، تب ا سکی نظریں پوپو کے گلاب ایسے لیکن مرجھائے ہوئے چہرے پر گڑگئیں اور وہ گہری سوچ میں پڑگیا کہ آخریہ اولاد کی خواہش مند عورتیں بڑے اور تنومند لڑکوں کوہی کیوں پسند کرتی ہیں ؟پوپو، ادریس اور ملوکاں کی یتیمی ختم ہونے کو کیوں نہیں آتی ؟ انہیں ماں کا پیار کیوں نہیں ملتا ؟ اس کی نظروں کے سامنے لقمان اور حکیم کے چہرے گھوم گئے ، جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ نوراں بائی اور سرداراں بائی کی خدمت کرتے ہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔
وہ اپنے مالک کے گھر میں بہت خوش تھا۔ اسے کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ اس گھر میں نوکر یا یتیم ہے ۔مالکن بھی اسے اپنے بچوں کی طرح پیارکرتی ۔ مالکن جب اسے صبح سویرے جوتے پالش کرتے دیکھتی تو ایکدم ناراض ہوجاتی اور کہتی :’’ سراج ! تم اس گھر کے نوکر نہیں ہو ۔ تم چل کر سکول کی تیاری کرو۔میں جوتے پالش کردیتی ہوں۔‘‘وہ اگر تھوڑاسابیمار پڑجاتا تو فوراً ڈاکٹربلالیا جاتا۔ اس کے کپڑے ،جُوتے ، سب کچھ گل جیسا ہی ہوتا۔اس کا ہرطرح سے خیال رکھا جاتا اور ہر موقع پر اسے وہ حیثیت دی جاتی جو اس گھر میں گل اور نازلی کی تھی۔ لیکن باوجود اس کے وہ اپنی نوکروں ایسی عادات سے باز نہ آتا۔ وہ روزانہ گھرکے کام کاج کے بعد گل اور نازلی کو سیر کرانے لے جاتا۔ رات کو گیارہ بارہ بجے تک خود بھی پڑھتا اور انہی بھی پڑھاتا رہتا، وہ گھرکا ایک فرد بن گیا تھا۔ اس کی یتیمی ختم ہوگئی تھی۔ وہ اب ہروقت خوش رہتا۔ اسے وہ سب کچھ مل چکا تھا جس کے لیے اس کی روح یتیم خانہ میں ہروقت سسکتی رہتی تھی۔ اب کوئی باپ اسے بیٹا کہہ کرپکارتا تو اس کی ایک ماں بھی تھی جو اسے ’میرا لال ‘ کہتی تھی۔ اسے بہن اور بھائی کی قربت مل گئی تھی ،جو روزانہ ا س کے ساتھ لڑتے جھگڑتے اور روٹھتے مناتے ۔ وہ ہرسال جب امتحان میں پہلی یا دوسری پوزیشن حاصل کرتا تو مٹھائی بانٹی جاتی۔ جب مالکن اس سے یہ پوچھتی کہ ’’ بیٹا! یہ تو بتاؤ کہ پڑھ لکھ کر کیا بنو گے ؟‘‘ تو اس کے بدن میں کپکپی کی ایک عجیب سی لہر دوڑجاتی۔ ا س کادل بے اختیار چاہنے لگتا کہ وہ’’ ماں‘‘ کے پیروں کی خاک بن جائے ۔ اس کا وقت بڑی خوشی سے گذرنے لگا تھا۔ خدانے اسے یتیم پیدا کر کے دنیا کی ہرنعمت مہیا کردی تھی۔
وہ جب صبح سویرے تیار ہوکر آئینہ کے سامنے آتا تو اپنے آپ کو بالکل بدلا ہوا پاتا۔ وہ اپنے عکس میں یتیم سراج کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا،لیکن وہ تصویر بہت دھندلاگئی تھی۔ اس کی جگہ ایک شوخ، صحت مند، خوب صورت لڑکے نے لے لی تھی،جس کے سر پر باپ کا سایہ تھا، ماں کا پیار اور بہن بھائی کی قربت تھی۔ وہ خوشی سے جھومنے لگتا اور آئینہ میں مسکراہٹیں بکھرجاتیں۔
مگر اس کی یہ خوشیاں زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکیں۔ اس نے محسوس کیا کہ جوں جوں وہ بڑا ہوتا جا رہا ہے ، توں توں اس کے رحم دل مالک کی نظریں بدلتی جارہی ہیں۔ وہ بہت بڑا ہوگیا تھا،نازلی اب اس کے سامنے آکر شرماجاتی اور اس کا رنگ سرخ ہوجاتا۔ نازلی خود بھی تو بڑی ہوگئی تھی۔مالک نے اس کو بیٹابناکرپالاتھا اور مالکن بھی غیرنہیں جانتی تھی،لیکن انہیں دنیاوالوں کو بھی تو جواب دینا تھا ! اب وہ ایک نوجوان تھا اور غیرمردبھی۔اس کی مسکراہٹیں اداسی میں تحلیل ہوکر فکرکی لکیروں میں بدلنے لگیں۔ وہ ہروقت کچھ اداس اداس رہنے لگا۔
ایک رات جب نازلی کی سولہویں سالگرہ تھی اور وہ تمام دن کی ماراماری سے تھکا ماندہ اپنے بسترپرگراتو اس کے کانوں میں اس کے مہربان مالک کی آوازآئی۔ وہ دھیمی آوازمیں کسی سے کہہ رہاتھا:’’لیکن میں نے اس کو اپنے بچوں کی طرح پالا ہے ….. میں اسے کیسے کہہ دوں ؟ اس کے دل پہ کیا گذرے گی ؟ نہیں،نہیں۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا!‘‘
’’لیکن ہمیں دنیا والوں کو بھی تو جواب دینا ہے کہ نہیں ! آج آپ نہیں دیکھا کہ جب وہ نازلی کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال رہاتھا تو رشتہ داروں کے چہروں کے رنگ کس طرح بدل رہے تھے ۔ اور پھر نازلی بھی تو اسے پسند کرنے لگی ہے ۔ پتہ نہیں کس ذات برادری کاہے ؟ماں نہ باپ کا پتہ ! ہم نے اپنا فرض پورا کرلیا…. اب….. !‘‘یہ اس کی ماں کے الفاظ تھے ۔ اسے یوں لگا کہ جیسے کسی نے اس کے کانوں میں پگھلاہواسیسیہ انڈیل دیاہو۔ اس نے غم کی شدت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں دے کر زخمی کرڈالیں۔ کہ جیسے وہ ایک سپنا دیکھ کر بیدار ہوا ہو۔ اس کے ماں باپ، بہن بھائی سب پھر سے مرگئے تھے ۔ وہ دیواروں سے سرٹکراتا روتا رہا۔ اچانک اس کے دل میں ایک عجیب خیال آیا۔ اس نے ایک کاغذ اٹھایا اور خط لکھنے بیٹھ گیا،’’ میرے مہربان مالک ! آج صبح مجھے نہ پاکر شاید آپ کی آنکھیں بھرآ ئیں ،تب تک میں آپ سے بہت دور جا چکا ہونگا۔ اگر آپ مجھ یتیم کو باپ کا پیار دے سکتے ہیں تو میری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ مجھے آپ کی عزت، ماں کی لاج اور بہن بھائی کے مستقبل کا خیال بھی رکھنا ہے !آج دنیا نے مجھے آپ سے بچھڑنے پر مجبور کردیا ہے ،لیکن مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے …… اپنی قسمت سے بھی نہیں۔ یتیم ہوتے ہوئے بھی میرا دل ماں باپ، بہن اور بھائی کے پیار سے لبریز ہے ۔ میں آپ سب کی یادیں دل میں لیے ایک نامعلوم منزل کی جارہاہوں اور جہاں بھی رہوں گا اپنے آپ کو آپ کی قدموں کی دھول سمجھوں گا۔ آپ کا خاک پائے ….. سراج ۔‘‘
اس نے خط میز پررکھا ،اپنے کپڑے اور کتابیں سوٹ کیس میں ڈالیں اور روتی نظروں سے تمام گھرکو الوداع کہا۔اس گھرکو جہاں اس کی یتیمی ختم ہوئی تھی، جس گھرمیں اس کا بچپن جوانی میں ڈھلا تھا،جس گھر میں اس کے ماں باپ،بہن بھائی سوئے ہوئے تھے ، آج وہ انہیں چھوڑکرجارہا تھا۔ اس کے قدم ایک نامعلوم منزل کی طرف اٹھ رہے تھے ۔
وہ نئے شہرمیں آکرکچھ دن کے لیے تو چکراکر رہ گیا۔ کئی ایام کی مسلسل آوارہ گردی کے بعد اسے ایک معمولی ہوٹل میں منشی کی ملازمت مل گئی اور ایک نئے دوست کی کوششوں سے کالج میں داخلہ بھی ملا۔ اور آج وہ سیکنڈییئر کا طالب علم تھا۔
وہ آج صبح کالج جاتے ہوئے ایک یتیم خانہ سے گذراتو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ سخت سردی میں شمال کی ٹھنڈی ہوا کے سامنے بیٹھے ، معمولی کپڑوں میں ملبوس بچے دیکھ کر اس کے بدن میں بھی کپکپی کی لہر دوڑ گئی۔ اسے اپنا زمانہ یاد آگیا اور اس پر وحشت طاری ہوگئی۔ وہ جب اس نیم دیوانگی اور بے خودی کی کیفیت میں کالج پہنچا تب پروفیسر ایاز لیکچر دے رہاتھا۔ مذکورہ لیکچر سننے کی تاب اس کے دل میں نہ تھی۔ اس نے سوچا،’’جب ہماری زندگیوں کا مقصد دوسروں کی مدد کرنا ہے تو پھر یہ غریبی،یہ افلاس کیوں ؟ پھر یہ یتیم سردی میں کیوں ٹھٹھرتے ہیں ؟ روکھی سوکھی کیوں کھاتے ہیں؟ انہیں سہارا کیوں نہیں ملتا ؟ اس کے دل میں ان بڑی بڑی کتابوں اور لیکچروں کے خلاف آگ بھڑک اٹھی۔ بڑے بڑے ادیبوں، ترجمانوں اور نقادوں کے ہوتے ہوئے بھی زندگی ایسی کیوں ہے ؟ ان کی باریک بین نظریں غریبوں کے بھوکے شکم ،بیمارجسم اور یتیموں کی کوٹھڑیوں پر کیوں نہیں پڑتیں ؟ جب کہ انہیں پہلے موت پھر زندگی نظرآتی ہے ۔جب زندگی کا مقصددوسروں کی مددکرنا ہے تو پھر ایسا کیوں ہے ؟ ‘‘ اس نے پروفیسر ایاز کو بتانا چاہا کہ وہ ان بے مقصد باتو ں میں وقت ضایع نہ کرے ۔ کون ان حقیقتوں میں رنگ بھرتا ہے !؟ یہی سبب تھا کہ وہ آج پروفیسر ایاز کے پاس تپ دق کی ایک مریضہ کا بھائی بن کر گیا تھا….. اور جو بات اس نے سوچی تھی وہی ہوئی۔ پروفیسر نے اسے مایوس کیا تھا ۔ اب اسے وہ لیکچر،کتابیں وغیرہ سب فریب ہی فریب نظرآرہی تھیں….. مسلسل فریب۔ اسے کالج کی دیواروں سے ہی نفرت ہوگئی۔ آج اس نے اپنے دل کے ’’پروفیسر‘‘کوبھی ماردیا۔ ’’ماں‘‘جب سے پیارسے پوچھاکرتی تھی کہ،’’ بیٹا! بڑے ہوکر کیا بنوگے ؟‘‘ تو وہ جواب دیتا….. ’’ پروفیسر۔‘‘ لیکن آج اس کی ماں رہی نہ ہی پروفیسر بننے کا خیال ۔ اس پروفیسر سے تو اس کا وہ شرابی اور جواری اور غنڈہ دوست اچھا تھا،جس نے اسے دسویں کے امتحانات کی فیس کی رقم دی تھی،جو اسے ابراہام لنکن بنانا چاہتا اور لنکن پکارا کرتا تھا۔
وہ دوسرے دن اپنے شرابی دوست کے ساتھ آوارہ گردی کرتے ہوئے ایک گلی سے گذررہاتھا،تب اس کے سامنے ایک دلدوز منظر آگیا۔ ایک مکان آگ میں جل رہا تھا۔ لوگ جمع تھے اور تماشائیوں کی طرح مکان کو جلتا دیکھ رہے تھے ۔ اسی مکان میں ایک ماں کا جگرگوشہ بھی آگ کے شعلوں میں گھراہواتھا۔لیکن کون تھا جو اس کلی کو بچاتا؟ کون تھا جواس ماں کے جلتے ہوئے دل پر پانی کا چھینٹا مارتا ؟ ماں کی دل خراش چیخوں نے زمین و آسمان کو تہہ وبالا کردیا تھا۔ وہ رورو کر فریاد کررہی تھی کہ ،’’مجھے چھوڑو کہ میں بھی جل مروں…. ہائے میرے جگرکاٹکڑا…. میری آنکھوں کا نور… میرے دل کا سرور ….! ہائے! کوئی ہے جو میرے لال کو بچائے ؟ کوئی ہے جو میری دعائیں لے لے …..‘‘ اس ماں کی دل دوز آہیں سن کر اس کے دلیر شرابی دوست میں بھی کوئی حرکت نہیں پیدا ہوئی۔ وہ خود بھی سنتا رہا۔ کون تھا جو آگ کے شعلوں میں کود کر زندگی کی بازی لگاتا۔
اس وقت ایک ’’بازی گر‘‘میدان میں کودا اور ایک ہی زقند بھرکر موت کا دروازہ عبورکرگیا۔ آگ اس کا راستہ روک نہ سکی، شعلے اسے جھلسا نہ سکے ، دھواں اس کی رکاوٹ بن نہ سکا۔ وہ آ گ سے کھیلتا،شعلوں کو اپنی راہ سے ہٹاتا، دھویں میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس نے ننھے پھول کوموت کے منہ سے بچالیا۔ موت ہارگئی،زندگی اس کے بازوؤں میں تھی۔ سراج حیرت زدہ ہوکراس زندگی کے بازی گر کو دیکھتا رہا۔۔۔ بازی جیتنے والا وہ بازیگر پروفیسر ایاز ہی تھا ! وہی نورانی چہرہ، وہی پروقار مسکراہٹ، وہی سنجیدگی۔ وہ محویت کے عالم میں اسے دیکھتا رہا۔ اسے ہوش تب آیا ،جب اس کے شرابی دوست نے اس کے کندھے کو پکڑکرہلایا۔ اس نے ایک ہی جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا،” تم مجھے غلط راستے پر لے جارہے ہو۔ تاش کے پتوں پربے وقوف ہی بازی لگاتے ہیں۔ میں زندگی کی بازی لگاؤں گا ! میں ‘پروفیسر ‘ بنوںٍ گا۔۔۔ زندگی کا سچا ترجمان۔ میں دنیا کواندھیرے سے نکال کر روشنی دکھاؤں گا۔”
اس نے پختہ عزم کے ساتھ کہا اور اپنے شرابی دوست کو وہاں حیران وپریشان چھوڑکر تیزتیز قدم اٹھاتے ہوئے گلی کے اگلے موڑ سے اوجھل ہوگیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے