یوم مئی پوری دنیا میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔1886ء میں امریکا کے شہرشکاگو میں لاکھوں مزدوروں نے استحصالی قوتوں اور اپنے ساتھ ہونے والے جبر اور ناانصافیوں کے خلاف شکاگو کی سڑکوں پر بھرپور احتجاج کیا۔ یہ احتجاج جبری مشقت کے خلاف تھا اس وقت کی سامراجی طاقتوں نے محنت کشوں کے اس احتجاج کو جو کہ48گھنٹے کے اوقات کار سے8 گھنٹے اوقات کارمقرر کرنے کیلئے تھا کچلنے کیلئے مزدوروں پر گولیاں برسائیں سرمایہ داروں نے ظلم کی انتہا کردی مگر اس تحریک کو نہ دبا سکے۔ اس وقت اس تحریک کی لیڈرشپ پر بہیمانہ تشدد کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ مگر سرخ سلام ان باہمت اور عظیم محنت کشوں کو جنہوں نے بہت دلیری کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما۔ پر یہ تحریک نہ کمزور ہوئی اور نہ رُکی۔ آخرکارمزدوروں نے ٹیکسٹائل کی صنعت میں ہڑتال کی جس میں محنت کش خواتین بھی شامل ہوئیں۔ جن پر انتظامیہ اور حکومت نے مل کر بدترین تشدد کرکے ان کے جسموں کو چھلنی کیا اور سرخ رنگ جو انکے خون کا تھا وہ جھنڈا بنا۔ سو آج پوری دنیا میں شکاگو کے شہدا کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔
آج ہم یوم مئی جن حالات میں منا رہے ہیں وہاں مزدور کسان راج کا نعرہ تو ہے مگر20 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان میں مزدوروں کی تعدادکروڑوں میں ہے لیکن ان میں صرف3فیصد محنت کش منظم ہیں۔ باقی97فیصد مزدور جن میں محنت کش خواتین بھی ہیں انتہائی ناگفتہ حالات میں کام کررہے ہیں یہ97فیصد مزدور کنٹریکٹ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں جس میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ3فیصد مزدور جو کہ غیر رسمی شعبہ میں کام کررہے ہیں اور انہیںیونین سازی کا حق تو ہے مگر سرمایہ دار حقوق کے حصول اور یونین سازی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جب محنت کش یونین بناتے ہیں تو استحصالی قوتیں اس کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ پاکستان میں لیبر کے تحفظ کے ادارے بھی ہیں جو کہ لیبرقوانین کو لاگو کرواتے ہیں اور مزدوروں کی یونین کو تسلیم کروانے سے لیکر ان کے دیگر مسائل حل کرانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مگرسرمایہ دار مزدوروں کے حقوق پر ڈاکے ڈال رہا ہے دوسری طرف ریاست بھی نہیں چاہتی پاکستان کا مزدور خوشحال ہو، کیونکہ فیصلے کرنے والے حکمران خود فیکٹری مالکان ہیں۔
سوشل سیکورٹی کے ادارے لیبرقوانین کے مطابق علاج کی سہولت، ڈیتھ گرانٹ اور میرج گرانٹ اور اسکالرشپ کی سہولیات 3فیصد محنت کشوں کو مل رہی ہیں مگر حکومتی اداروں کی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے ان سہولیات کو حاصل کرنے کے لئے ٹریڈ یونینز کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ باقی97فیصد استحصالی اور ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ مزدوروں کے علاج کیلئے اسپتالوں کی تعداد کم، غیرمعیاری ادویات، ڈیتھ گرانٹ، اسکالرشپ اور میرج گرانٹ کے کیس کئی سالوں سے گرانٹ نہ ملنے کی وجہ سے محنت کشوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رہی بات یونین سازی کی جس کا حق پاکستان کا آئین اور ILO کے کنوینشن87 اور98 بھی دیتے ہیں۔مزدوروں کے تحفظ کیلئے بنائے گئے یہ ادارے چہ جائیکہ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریں یہ مالکان سے ساز باز کرکے محنت کشوں کو لیبرقوانین کے مطابق یونین بنانے نہیں دیتے۔اگر یونین کسی مضبوط فیڈریشن سے منسلک ہے اور اپنی جدوجہد سے تنظیم بنالیتی ہے تو وہ اپنے ممبروں کا تحفظ بہتر طریقے پر کرپاتی ہے۔ ILO کے کنوینشنز بھی اس کی اجازت دیتے ہیں مگر مالکان ان محنت کشوں کو نوکری سے برطرف کردیتے ہیں بلکہ پورے خاندان کا معاشی قتل کرنے کے بعد ان کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جاتا ہے۔ گو کہ لیبر انسپکٹر سے لیکرتمام بیوروکریسی تک سب ریاستی مشینری کے تابع ہیں اور سب اچھا کہتے ہوئے محنت کشوں کا استحصال کررہے ہیں۔ مزدوروں کو EOBI کے تحت پڑھاپے کی پنشن ملنے میں جو دشواریاں اور پیچیدگیاں ہیں اس سے یہ ریٹائرڈ بزرگ ادارے کی30 سال خدمت کے بعد صرف5200روپے پنشن وصول کررہے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے اورانہیں علاج معالجہ کی سہولت بھی نہیں۔وہ ریٹائرڈ مزدور جو عمر کے قیمتی 30 سے 40 سال اداروں کو اپنی خدمات پیش کیں انکے صلہ میں انہیں کم از کم سوشل سیکورٹی اور فری ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائیں۔
مگر مزدور دشمن پالیسیاں بنا کر مزدوروں کا استحصال کرنے والا استحصالی ٹولہ اور حکمران عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔WWFاور EOBI ورکرزویلفےئر بورڈ جس کے تحت ڈیتھ گرانٹ، میرج گرانٹ، لیبرکالونیاں کی تعمیر اور بڑھاپے کی پنشن دی جاتی ہے اِن اداروں میں افسران کے گھپلے اور فراڈعروج پر ہے اور افسر شاہی نے محنت کشوں سے تمام سہولیات چھیننے کی کوششیں کیں،لیبرڈیپارٹمنٹ جو کہ لیبر انسپکشن کیلئے بنا،لیکن لیبرانسپکٹر کو اداروں کو وزٹ کرنے نہیں دیاجاتا ہے مل مالکان اس کو انسپکشن کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ سرمایہ دار اپنے سرمائے کو بڑھانے کی وجہ سے یہ بتاتا ہی نہیں کہ کتنے مزدور رجسٹرڈ ہیں اور کتنے مزدوروں کولیبر قوانین کے تحت سہولیات مل رہی ہیں۔ لیبرڈیپارٹمنٹ جو کہ بجائے محنت کشوں کو تحفظ دینے کے لئے ہیں وہ پھر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی چلوں کہ اداروں میں لیبرانسپکٹرز کی تعداد کم ہے۔ کوئی کمپیوٹرائزڈ سسٹم ہی نہیں کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ محنت کشوں کی تعداد کتنی ہے یا کتنی یونینز ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لیبر انسپکشن بھی موثر نہیں جس کی وجہ سے سرمایہ دار سارا سرمایہ خود لے جاتا ہے اور مزدور کو دینے کیلئے اس کے پاس کچھ نہیں۔
EOBI (ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس) کا ادارہ مزدوروں کو پنشن دیتا ہے۔ اس ادارے میں افسرشاہی کی موجیں اور بوڑھے مزدور جن کی تعداد5,00000 وہ علاج معالجہ سے محروم جو30-40 سال مختلف فیکٹریوں میں لگا کر آئے ہیں۔ اس ادارہ کے افسران فراڈ اور گھپلوں میں ملوث مگر کوئی ان کو روکنے والا نہیں۔
یہی حال سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن کا ہے جہاں ادویات غیرمعیاری اور اسپتال کی تعداد بہت کم یہی حال میرج گرانٹ، جہیز فنڈ اور ڈیتھ گرانٹ کا ہے۔3سے 4 سالوں کے Cases ابھی تکPending ہیں۔
اوپر جن اداروں پر میں نے تنقید کی وہ ادارے محنت کشوں کی جدوجہد کی وجہ سے مزدوروں کو سہولیات فراہم کررہے ہیں۔ آج مزدور کو اپنی بقاء اور اپنے ملک کی بقاء کیلئے چومکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ ملک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ حکومت کی سامراجی دوست پالیسی کی وجہ سے ملک آج خانہ جنگی کی حالت میں ہے۔ آج ٹریڈ یونین تحریک کو جتنی دشواریوں کا سامنہ ہے اس سے پہلے نہیں تھا۔ ملک میں دہشت گردی کے باوجود مزدور سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں چاہے وہ مل مزدور ہو، یا کسان یا پیرا میڈیکل اسٹاف ہو یاٹیچر یونین ہو یا کلرک، پوری قوم اس مہنگائی اور مزدور دشمن اور سامراجی ایجنٹوں کی بنائی ہوئی پالیسی پر احتجاج کررہی ہیں اور اشرافیہ اربوں اور کھربوں روپیہ صرف اپنے آپ کو تحفظ دینے پر، جبکہ اس صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات کی ضرورت ہے۔ چہ جائیکہ قومی بجٹ میں85% فوج پر خرچ کیا جائے حکمران کی ذمہ داری ہے کہ پڑوسی ممالک اور اندرون ملک حالات کو بہتر کریں۔ ایسی پالیسیاں بنائیں جو مزدور دوست اور انسان دوست ہوں۔ نہیں تو کہیں پورا ملک سراپا احتجاج نہ بن جائے۔
شکاگو کے محنت کشوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑا اور اپنے اوپر ہونے والے جبر کے خاتمہ کیلئے جو فقید المثال جدوجہد کی وہ تا ابد تک یاد رہے گی۔ آئیں ہم سب شکاگو کے شہدا سے تجدید عہد کریں کہ ہم اس ملک میں صرف مزدور کسان راج کا نعرہ نہیں لگائیں گے بلکہ مزدور کسان راج لانے کیلئے اپنی حکمت عملی پر نذرثانی کریں گے اور متحدہ جدوجہد سے اپنے مسائل کو حل کریں گے کیونکہ مزدور تحریک ہی وہ پرولتاریہ ہے جو انقلاب روس، چین اور فرانس میں ہراول دستہ تھی اور اب جہاں کہیں بھی انقلاب آئے گایہی وہ مزدور کسان خواتین اس انقلاب کا ہر اول دستہ ہو ں گے۔