کئی ورق سفید ہیں
لکھے گا جس پہ آدمی
اک اور بابِ جستجو!۔
کتاب کا نام: ایک چھوٹی سی کتاب کی دیوانی، فہمیدہ ریاض
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: ۱۲۰
قیمت: ۲۰۰ روپے
مبصر : عابدہ رحمان

 
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کے تراجم ہوں یا ان کی اپنی تخلیقات، بہت خوبصورت ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔لیکن ان کی کچھ تحریروں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے انھوں نے انھیں دل کے قلم سے لکھا ہو۔ ان کی ایسی ہی تحریروں میں سرِ فہرست تو’’ مستیں توکلی‘‘ ہے لیکن ان کی ایک اور کتاب ’’ ایک چھوٹی سی کتاب کی دیوانی۔۔۔ فہمیدہ ریاض‘‘ کو پڑھ کر بھی کچھ ایسا ہی احساس ہوتا ہے جو فہمیدہ ریاض کے نرم میٹھے لہجے، سچے مضبوط انداز اور ان کی بولتی آنکھوں ہی کی طرح نرماہٹ،مضبوطی، سچائی اور بولتی ہوئی تحریر ہے۔انھوں نے اس کتاب میں فہمیدہ کی شخصیت کو ان کی تخلیقات کے تناظر میں لکھا جن میں پتھر کی زبان، بدن دریدہ، ہم رکاب، دھوپ اور دوسری کتابیں شامل ہیں۔
فہمیدہ ریاض جنھوں نے کم عمری ہی میں مارکسزم کو پڑھا ، سمجھا اور اس فلسفہِ فکر کو اپنایا۔ ایوب رجیم یونیورسٹی آرڈینینس اور طلبہ سیاست پر پابندی کے خلاف لکھا اور باقاعدہ پارٹی کا حصہ بن گئیں۔
اپنی تحریر و تقریر دونوں میں فیوڈلزم سے منحرف دکھائی دینے والی شاعرہ ، فہمیدہ ریاض، اگر ان کی شاعری کو دیکھا جائے تو ان کی شاعری مردوں کو رجھانے والی، مردوں کو خوش کرنے والی نہیں بلکہ بظاہر اس نازک ہستی کو کوہِ شاشان کی طرح مضبوط بتایا ہے اس شاعری نے اور دوسری طرف دیکھا جائے تو عورت بہ حیثیت انسان، عورت کے دل میں اپنے محبوب کے لئے ہونے والی گدگدی، ماں بننے کے مراحل کے خوبصورت احساس کو انھوں نے اپنی شاعری میں نہایت ہی ایمانداری سے پرویا ہے۔ ان کی شاعری میں کسی قسم کا کوئی ڈر، خوف اور منافقت کا وجود نہیں ۔ انھوں نے جو محسوس کیا وہ لکھا۔ وہ کہتی ہیں؛

تم میں لوگ پائیں گے
ثبت کوکھ پر میری
اس کے پیار کا بوسہ
سوچتی ہوں کہ بدن دریدہ پر آخر اتنا شور کیوں اٹھا۔اس ظالمانہ معاشرے کی مردانگی کے کس انگ پر کاری ضرب پڑی بدن دریدہ سے؟۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب اس کتاب میں ہی اس کا جواب دیتے ہیں کہ ’’ عطر زدہ پوشاک والوں کے دل و دماغ پر ڈالے سیاہ دبیز پردے کو جو نوچ ڈالا تھا فہمیدہ نے۔ پہلا پتھر جو شیطان کو لگ چکا تھا‘‘ ۔ تو جناب پھر تو بلبلانا بنتا ہی ہے۔
’’ عورت صنفِ نازک ہے‘‘ اس سوچ پر انھوں نے اپنی شاعری کا قلم پھیر دیا ۔ ان کی اس سوچ اور اپنے عورت ہونے پر اترانے والی اس خوبصورت شاعرہ کی شاعری پڑھنے سے ہم نے بھی ایک دفعہ پھراپنے عورت ہونے پر فخر کیا۔
مارکسزم کا فکر و فلسفہ رکھنے والی یہ انقلابی گھناؤنے رسم و رواج، آمریت کے مظالم ، استحصال پر وہ چیخیں کہ ظالموں اور آمروں کے اوسان خطا ہو گئے۔
سنگ دل رواجوں کے
خستہ حال زندان میں!
اک صدائے مستانہ!
ایک رقصِ رندانہ!
یہ عمارتِ کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیرِشہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
ضیاء الحق کے تاریک کدے سے گھبرائے بنا اپنی شاعری کی روشنی اک تیر کی مانند اس تاریک کدے کی اَور پھینکی کہ مکینِ آمریت تو ہڑ بڑا اٹھے۔
ایک ٹکڑا دیکھئے؛
یہ چار دیواریں، یہ چادر ، گلی سڑی لاش کو مبارک
کھلی فضاؤں میں بادبان کھول کر بڑھے گا مرا سفینہ
میں آدمِ نو کی ہمسفر ہوں
کہ جس نے جیتی میری بھروسہ بھری رفاقت!
لہذا اس بوکھلاہٹ اور ہڑبڑاہٹ کا اس کے سوا کیا نتیجہ نکل سکتا تھا سوائے اس کے کہ فہمیدہ ریاض کو وطن بدر کیا جائے تو بس وہی ہوا۔لیکن کیا ان طریقوں سے کبھی بھی ظلم کے خلاف آواز کو دبیایاجا سکا ہے؟
ظلم و ستم کی چاہے کوئی بھی شکل ہو اور چاہے کسی بھی گوشے میں ہو انھوں نے اسے یاد رکھا۔ وہ کہتی ہیں؛
اس دھرتی کو یاد رہے گی، ساری رات بلوچ کی
سسی سہاگ بنے گی تیرا،بھاری رات بلوچ کی
شاعری کے ساتھ ساتھ انھوں نے نثر نگاری کے میدان میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ افسانے ہوں یا ناول ، سفر نامہ ہو یا تراجم انھوں نے بھرپور انداز میں لکھا۔پڑھئے اور لطف لیجئے؛ ،، یہاں ایک عجیب سی ریس لگی ہوئی ہے کہ کون زیادہ بڑا محبِ وطن ہے۔۔۔آپ اکھاڑہ تصور کر لیں جس میں پہلوان پٹھے دکھا دکھا کراپنی حب الوطنی میں بڑائی ثابت کر رہے ہیں ( عشقِ رسول کے بعدیہ دوسرے نمبر پر آتا ہے جس میں سینے پر ہاتھ مار کر دعوی یہ ہے کہ سب سے بڑا عاشق میں۔۔۔ تو دوسرا کہے نہیں میں۔۔۔تو پہلا کہے تیری ایسی کی تیسی) جس کے بعد دونوں سڑک پر اکڑ کر چل سکتے ہیں اور باقی کے غریب شہری تھر تھرائیں،،۔
معاشرے کی ،، دھوپ،، میں جلتے جلتے وہ کندن صفت، خوبصورت اور پُر عزم آنکھوں وا لی شاعرہ اپنی شاعری اور اپنی نثر سے اپنے قاری کی شخصیت میں بھی وہ عزم و استقلال بھر دیتی ہیں کہ وہ خود تو ایک بے چین روح ہیں ہی لیکن ان کی یہ بے چینی قاری کو بھی چین لینے نہیں دیتی اور یہی چیز ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔
وفا ؤں کے سفیر ڈاکٹر شاہ محمد مری جنھوں نے شاید ہی ایسی کوئی شخصیت چھوڑی ہو اور ان پر بات نہ کی ہوکہ جن کی جدوجہد اور کاوشوں کی تمام انسانیت مقروض ہے ، اپنے حصے کا قرض اد اکرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح ان کی یہ تحریر بھی مزیدار رہی ۔ ضرور پڑھیے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے