پاکستان میں معاشی ترقی کے لیے جو لا ئحہ عمل اختیار کیا گیا ہے اُ س کے لیے چار نکات کو ہمیشہ مد نظر رکھا گیا ہے اور تمام پالیساں اور بجٹ اور پلان ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیے گئے:
۔1۔ قومی آمدن کی شرح نمو میں اضافہ
۔2۔ بجٹ خسارہ کو کم کرنا
۔3۔ سرمایہ کاری کی شرح نمو میں اضافہ خصو صاً پرائیویٹ اور غیر ملکی سرمایہ کاری
۔4۔تجارت اور ادائیگیوں کے خسارہ کو کم کرنااور” "Foreign Exchange Reserve کو بڑھانا
اس سے پہلے کہ ہم ان اہداف کی کامیا بی ا و ر اس کے ذریعے ترقی کے عمل پر گامزن ہونے پر کوئی تبصرہ کریں ہم پہلے ان چار وں اہداف کے متبادل چار اہداف بھی بتائیں جو کہ عوام کی معاشی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری تھیں۔
۔1۔ معاشی ترقی کے لیے قومی آمدنی کی شرح نمو میں اضافہ کو لازمی شرط(Necessary) سمجھنا لیکن حتمی(Sufficient) ہدف نہ سمجھنا بلکہ قومی آمدنی میں اضافہ کے ساتھ آمدنی کی منصفانہ تقسیم +شرح بے روزگاری میں کمی ، غربت کی سطح میں کمی ، اور افراط ز میں کمی جیسے ا ہداف کو بھی مد نظر رکھنا۔
۔2۔ معاشی ترقی کو خود انحصاری کا ذریعہ بنانا، خود انحصاری سے مراد خود کفالت نہیں کیونکہ اس دنیا میں موجودہ دور میں خود کفالت ممکن نہیں لیکن خود انحصاری سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی معاشی ترقی کے بارے میں پالیسیاںآزادانہ طور پر اس طرح تشکیل دیں جو کہ ہمارے مفادات میں ہوں اور غیر ملکی اداروں کے تحت قرضوں کے بوجھ تلے دب کر ایسی پالیساں مرتب کریں جو عوام کی معاشی بہتری اور ملک کی سیاسی آزادی کے متصادم ہوں۔
۔3۔ انسانی اور سماجی وسائل کی ترقی کے لیے کوشش کرنا اور ان کو ترقی کے لیے اولین اہمیت دینا اس کے لیے جہاں پر خوراک ۔پانی۔تعلیم اور صحت جیسے وسائل کی ترقی اور بہتری کو دوسرے مسائل سے زیادہ ترجیح دے کر خوراک کی قلت -پانی کی قلت- تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے فقدان اور ابتر صورتحال کو بہتر بنانا۔
۔4۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ اور ملکی سرمایہ کاروں کو بہتر سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے لیکن ہمیشہ یہ مد نظر رکھنا ہو گا کہ ہمارے وسائل کو ہم بہتر طور پر استعمال کریں جو کہ ہمارے معاشی اور سیاسی و سماجی مفاد میں ہو اور ہمارے صوبوں کے درمیان تفاوت و تضاداور عوام کی بہتری کے خلاف نہ ہو۔
اب ہم موجودہ سال کے اعدادو شمار کی روشنی میں اس نقطہ نظر پر بحث کرتے ہیں کہ کیا ہم جن موجودہ پالیسیوں کے ذریعے اپنے اہداف کو جو ہم نے مقرر کیے مستقل طور پر معاشی ترقی کے لیے اور سیاسی استحکام کے لیے حاصل کر سکے۔ IMF نے پاکستان کی معاشی صورت پر 5۔ اپریل2017 بحث کوکرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان کی قومی آمدنی کی شرح نمو 5 فیصد رہی جو کہ اہداف کے مطابق 5.7 فی صد ہونی تھی اور پاکستان کی شرح نمو آئندہ سالوں میں 5 فیصد اور 6 فیصد متوقع ہے اور امید ہے کہ افراط زر کی شرح4.32 فیصد رہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کوآئندہ چند بر سوں میں تین مسائل کا سامنا ہو گا: ایک مالیاتی خسارہ میں اضافہ، دوسرا انرجی کا مسئلہ اور تیسرا External Sectors کے مسائل در پیش رہیں گے۔ مالیاتی سال2017 میں مالیاتی خسارہ 4.1 فیصد ہو جائے گاجبکہ موجودہ مالیاتی سال کا خسارہ 3.8 فیصد ہونا چاہیے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ اعتراف کیاموصولیاتی وصولیوں میں ۱۰۰ ملین روپے کی کمی رہی FBR کے مطابق Incentives Growth PRO کی وجہ سے ۱۰۰ ملین روپے کا GAP پیدا ہوا اور ان Incentives Growth PRO میں برآمدات اور زرعی ترقی کے شعبے میں ترغیبات کے لیے پیسہ لگایا گیا ۔IMF کے اسی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو موجودہ مالیاتی سال کی قومی آمدنی کا ۹.۲ فیصد ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ تجارت میں خسارہ ہے جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری درآمدات میں اضافہ ہوا جبکہ ھماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا اور Remittances بھی نہ بڑھیں۔ بیرونی ادائیگیوں اور بیرونی ملک و صولیوں کا فرق قومی پیداوار کے1.5فیصد کے ابتدائی تخمینے سے تقریباًدو گنا ہو جائے گاپاکستان کے ذرمبادلہ کے ذخائر وزیر خزانہ کے مطابق جو کہ اس وقت22 ارب ڈالرہیں جون تک 23 ارب ڈالر ہو جائیں گے ان تمام اعدادو شمار اور اہداف کے حاصل کرنے کے لیے جو بحث ہو رہی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ حکومت ان اعدادو شمار کے ذریعے فی الوقت ترقی کی نوید سنا رہی ہے لیکن رپورٹس تین خطرات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جوکہ انرجی سیکٹر بیرونی ادائیگیوں اور افراط زر کی شرح میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قومی آمدنی کی شرح نمو اور بجٹ خسارے کے اہداف سے متعلق ہیں۔بہرحال اس تمام تر بحث میں عوام کے لیے کیا بہتری کی توقع ہے اور ان کی فلاح و بہبود یا ترقی کے امکانات کیا ہیں ہر ہدف شرح کے بارے میں کوئی حتمی رائے یا کوشش یا امکانات کے بارے میں کچھ موجود نہیں البتہ شرح افراط زر میں اضافہ کی وجہ سے غربت میں اضافہ ھو جائے گا کیونکہ عموماً شرح افراط زر میں سب سے پہلے زرعی اشیا اور خوراک کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ پچھلے چند ماہ سے مسلسل ہو رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا بحران ہے ہم ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جہاں پر پانی کی شدید کمی کے بارے میں مسلسل تمام اداروں کی طرف سے نشاندہی کی جا رہی ہے ۔پاکستان میں پانی کا بحران ایک طرف ہمارے پینے کے قا بل ا ستعمال پانی سے متعلق ہے اور دوسری طرف ہماری زراعت کو متاثر کر کے بین الاقوامی اورقومی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور غذائی قلت کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی طور پر اس بحران سے ہمارے صوبوں کے درمیان اختلاف کا باعث بھی ہے خوراک کی کمی اور اور غذائی قلت ہماری تعلیم اور صحت کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ ہمارے وہ بچے جو کہ 6-59ماہ کی عمر کے درمیان ہیں ان میں غذا کی قلت کی وجہ سے 45 فیصد بچے اپنی عمر کے لحاظ سے قدوقامت میں اور وزن میں کم اور کمزور بلکہ موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں ۔بچوں کی شرح اموات صاف پینے کے پانی کی قلت کی وجہ سے بہت زیادہ ہے اور ہمارے دیہاتی شہری آبادی اور مختلف علاقوں میں تفاوت بھی زیادہ ہے ۔ پاکستان میں غذا یئت کی کمی دیہاتی علاقوں میں شہری علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ جبکہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے قد وقامت اور کم وزن کے بچے شہروں میں 38 فیصد کے قریب ہیں۔ لیکن دیہاتوں میں یہ شرح 52 فیصد ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جو علاقے خوراک کا ذریعہ اور زراعت کے لیے ر یڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ، وہ خوراک کی کمی کی وجہ سے غذا یئت سے محروم ہے۔پاکستان میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں علاقائی تفاوت بہت زیادہ ہے۔بین الصوبائی تفاوت، صوبوں کے اندر تفاوت، شہری اور دیہاتی علاقوں میں تفاوت اور شہروں میں کم آمدنی اور زیادہ آمدنی والے علاقوں میں تفاوت۔اس تفاوت سے ہمار ی معاشی،سماجی،سیاسی اور انفرادی زندگی اور رحجانات پر بہت منفی اثرہوا ہے۔اور ہم ایک قوم کی بجائے ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے مختلف تضادات کا شکار ہو گئے ہیں۔پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جہاں غذا یئت کی کمی کی وجہ سے عمر کے لحاظ سے بچوں کے کم وزن اور قدو قامت کا مسئلہ علاقائی تفاوت کی وجہ سے بہت زیادہ ہے۔ہمارے ہاں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں stunningکی شرح 22فیصدہے۔ اور دوسری طرف ایسے بھی علاقے ہیں جہاں کہ عمر کے لحاظ سے کم وزن اور قد و قامت کے بچوں کی شرح82 فیصد ہے۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے اور غذائی قلت کی وجہ سے 5 سال سے کم عمر والے بچوں کی قدوقامت اور وزن کا کم ہونے کے تفاوت کے لحاظ سے بھی پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔امیر طبقہ میں غذا یئت کا شکار اور stunning کی شرح22 فیصد ہے۔جبکہ غریب طبقہ میں یہ شر ح 82 فیصد ہے۔ماؤں کی تعلیم کے لحاظ سے بھی 5سال سے کم بچوں میں stunning کی شرح تفاوت بہت زیادہ ہے۔غیر تعلیم یافتہ ماؤں میں stunning کی شرح 59 فیصد ہے۔جبکہ اعلٰی تعلیم یافتہ ماؤں میں یہ شرح 19فیصد ہے۔پاکستان میں ایک بحث یہ بھی جاری ہے کہ stunning کی ایک
بڑی وجہJunk Food ہے۔اور اس خوراک میں غذا یئت کی کمی ہوتی ہے۔اسے چھپی ہوئی بھوک یا غذا یئت کی کمی کہا جاتا ہے۔ Junk Food زیادہ تر شہروں میں تعلیم یافتہ اور امیر والدین کے بچوں میں زیادہ ہے۔جب کہ غذا کی قلت کو خوراک یا food کی اشیا ء کی قلت سے منسلک نہیں کیا جاتا بلکہ اسے خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم یا غربت کی وجہ سے خوراک کی رسائی کے کم ہونے سے جوڑا جاسکتا ہے۔بہرحال اگر اسے غربت کی وجہ سے خوراک تک رسائی کا کم ہونا اور خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم کے ساتھ منسلک کیا جائے تو ایک بڑا المیہ ہے کہ خوراک اور زرعی اشیا ء کی پاکستان میں قلت نہیں لیکن غربت ، غیر منصفانہ تقسیم اور غذا یئت کی کمی پاکستان کے عوام کامقدر ہے۔جس کی وجہ سے ملک میں بچوں کی صحت اور تعلیم اور پیداواری صلاحیتں بْری طرح اثر انداز ہو رہی ہیں۔اور پاکستا ن کی اشرافیہ نہ صرف معاشی ترقی کی نوید سناتے رہتے ہیں بلکہ ان تمام عناصر کو بہتر بنانے کے لیئے نہ ہی کوئی کوشش کرتے ہیں،اور نہ ہی اِن کی کمی اْن کی ترقی کی منصوبہ بندی کے اہداف میں شامل ہے۔پاکستان میں stunning کی شرح 45 فیصد ہے۔اور پاکستان میں piped پانی کی رسائی صرف39 فیصد کو حاصل ہیں۔ Improved Sanitary کی سہولت64 فیصد لوگوں کو میسر ہے۔بچیوں کی جوکہ سکینڈری سکولز میں داخل ہیں صرف32.21 فیصدکی شرح ہے۔البتہ خواتین کی اوسطاً عمر مردوں کی نسبت زیادہ ہے اور یہ تناسب کے لحاظ سے1:3ہے ۔غربت کے منحوس چکر میں پھنسے عوام نسل در نسل اسی میں جکڑے رہتے ہیں جس کی بنیادی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اب اس غذائیت کی کمی میں زیادہ تر عوام غریب دیہات سے تعلق رکھنے والے پسماندہ علاقوں میں رہتے اور تعلیم سے محروم لوگ ہیں۔ پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں ہے یہ صحیح ہے لیکن عوام کی خوراک تک اور صاف پانی پینے تک رسائی نہیں ہے۔ اب تو کراچی جوکہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر، بندرگاہ اور 2.5کروڑ عوام کی رہائش گاہ ہے کے عوام بھی پانی کو ترس رہے ہیں۔ گندگی کے ڈھیر ہیں اور صوبوں میں اور وفاق میں تضادات وتفاوت بڑھ رہا ہے ۔
اِسی طرح پاکستان میں پانی کا بحران جو بہت زیادہ شدت اختیار کر جائے گا اور جس کے بارے ہماری اشرافیہ کوئی منصوبہ بندی نہیں کررہی اور عوام کو اِس کا شعور نہیں ہے۔ اگلے دس سالوں میں درج ذیل مسائل کوجنم دے گا جو کہ ہمارے ملک میں معاشی۔سیاسی۔سماجی۔بین الصوبائی عوام میں تقاوت و تضاوات کو اِس قدربڑھائے گا کہ ملک میں ترقی کے باقی تمام پروجیکٹ بے معنی اور اہداف حاصل کرنابے سود ثابت ہوں گی۔ ہمیں اس وقت اشد ضرورت ہے کہ ہم پانی کے اِسی بحران کو حل کرنے کی کوشش بلکہ اِس کے اثرات سے عوام کو بھی آگاہ کریں کیونکہ ملک کی اشرافیہ ہمیشہ اصل مسائل سے ہماری توجہ ہٹا کر اُن مسائل کو آگے لے آتی ہے جو کہ اُن کی حکمرانی اِس ملک میں قائم رکھے۔ وہ وسائل پر قابض رہیں اور بین الاقوامی سرمایہ داری اور امپیرلزم کا حصہ بنے رہیں۔ پاکستان میں غذائیت اورپانی کے بحران کے حوالہ سے عوام میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ اب تو پینے کاپانی جس طرح منڈی میں بکنا شروع ہوگیا اور باقی ضروریات کے لیے بھی پانی خریدنا ہوتاہے۔ انسان کی زندگی کا بنیادی انحصار خوراک اورپانی ہے۔خوراک کے پیداوار کے ذرائع پر پہلے ہی چند لوگوں کا قبضہ ہے اور اب پانی پر قبضہ ہو جائے گا اور پھر آکسیجن کے سلنڈر بھی سانس لینے کے لیے خریدنا پڑیں۔ بقول ھمارے ایک وفاقی وزیر کے پاکستان میں زندہ رہنا تو مشکل تھا اب مرنا بھی مشکل ہو گیاہے۔کیونکہ مرنے کے بعد دفن ہونے کے لیے اخراجات اور زمیں خریدنا بھی عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہے۔
1960 میں پاکستان کے سند ھ طاس معائدہ اور سبز انقلاب کے سراب سے لیکر 2015 کے سی ۔پیک منصوبہ اور صنعتی انقلاب کے خواب تک عوام کو کیاحاصل ہوا اور ہو گا ۔ ثمرات کیسے عوام تک پہنچائے جا سکتے ہیں کے لیے ہمیں متبادل چار اہداف کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی جو کہ مضمون کے شروع میں بتا دئیے گئے ہیں۔

نوٹ: یکم مئی 2017پر پیارے بڑے بھائی اور عوام کی بھلائی اور امن کے خواہش مند ماما عبد اللہ جان جمالدینی(مرحوم) کے نام جن کی یوم پیدائش 8 مئی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے