تقریبا روز ہی صبح آفس جاتے ہوئے جب میں سٹاپ پراپنی گاڑی کا انتظار کررہا ہوتا ہوں تو پولیس والے قیدیوں سے بھری گاڑیاں لے کر جارہے ہوتے ہیں ۔آجکل پولیس کو قیدیوں کو لے جانے کے لیے جو نئی گاڑیاں ملی ہیں انہیں دیکھ کر مجھے مرغیوں کا ڈربہ یاد آجاتا ہے۔
آپ نے چھوٹے چھوٹے مرغیوں کے ڈربے تو دیکھ رکھے ہونگے جن کے اوپر ایک چھوٹا سا روشندان بھی بنایا جاتا ہے جو روشنی کاکام دیتاہے۔اور مرغیاں زیادہ تر اسی روشندان کے پاس ہی کھڑی ہوتی ہیں ۔
زیادہ تر قیدیوں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اسی روشندان کے پاس ہی کھڑے ہوں شاید ہر شے آزادی کی خواہش مند ہے چاہے انسان ہو کہ جانور۔
میں نے کبھی یہ کھڑکی کہ جس کے اوپر لوہے کی سلاخیں لگی ہوتی ہیں ، خالی نہیں دیکھی ۔ کوئی نہ کوئی آنکھ باہر ضرور جھانک رہی ہوتی ہے۔ حالانکہ روشندان تقریبا پانچ فٹ اونچائی پر ہے لیکن پھر بھی شاید قیدی اس ڈربے میں بیٹھتے نہیں اور سلاخوں پر آکر چمٹ جاتے ہیں ۔
یہ گاڑیاں قیدیوں کو صبح جیل سے کچہری لے کر جارہی ہوتی ہیں۔ مجھے اصل میں قیدیوں کی آنکھوں سے ڈر لگتا ہے ۔ مجھ سے ان کی آنکھیں دیکھی نہیں جاتیں ، میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے محکمے کی گاڑی پہلے آجائے اور میں یہاں سے چلاجاؤں۔ آپ کہیں گے آنکھوں سے بھلا کون ڈرتا ہے۔ ہاں بات سچ ہے لیکن آنکھوں آنکھوں میں فرق ہوتا ہے شاید۔ ہر آنکھ ایک الگ کہانی سنا رہی ہوتی ہے۔اب ایسی درد بھری، داستان گو آنکھوں سے وحشت نہ ہو تو کیاہو۔
بعض آنکھیں ایسی وحشت زدہ سی ہوتی ہیں کہ ایک بار آپ کی نظر پڑ جائے تو آپ کانپ جائیں ۔ ایسے قیدیوں کو شاید بڑی سزا ہونے والی ہوتی ہے اور وہ آپکو یوں دیکھیں گے کہ گویا آپ ہی وہ جج ہیں جس نے انکی سزا لکھی ہے۔ سو جیسے ہی میری آنکھیں ان آنکھوں سے ٹکراتی ہیں تو وہ آنکھیں چیخ چیخ کر سوا ل کرنے لگتی ہیں کہ کیوں لکھی ہے یہ سزا ، میرا قصور کیا تھا،سارے ثبوت اور گواہ میرے حق میں تھے پھر بھی فیصلہ میرے خلاف کیسے آگیا۔ میں سوچتا ہوں شاید دوسری پارٹی بہت مضبوط ہوگی یا جج نے پیسے لے لیے ہوں گے۔ ایسے سوالوں کے جواب میں میرا دل کرتا ہے پولیس بس کے ساتھ ساتھ بھاگتا جاوں اور عین کھڑکی کے نیچے پہنچ کر کہوں کہ فیصلہ میں نے نہیں سنایا۔ تم نے جو کہنا ہے جج کو کہو ۔لیکن میں کچھ بھی نہیں کہتا۔اور نظر چرا کر سڑک کے دوسری طرف دیکھنے لگ جاتا ہوں۔
کچھ قیدی ایک ہی نظر میں سارا باہر کا منظر اپنے اندر اتارنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں پلک جھپکانا بھی بھول جاتے ہیں ایسے قیدیوں کو شاید لگتا ہے کہ اب وہ کبھی بھی آزاد نہیں ہونگے اور اس قید میں ہی باقی زندگی گزرے گی ۔سو تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی جتنے منظر دیکھ لو بہت ہیں۔ ایسی آنکھیں کوئی سوال نہیں پوچھ رہی ہوتیں ، شاید پہلے والی آنکھیں جب سوال پوچھ پوچھ کر تھک جاتی ہیں تو وہ ایسی ہو جاتی ہوں ، لالچی آنکھیں سارے منظروں کو اپنے اندر سمو لینی کی خواہش میں ڈوبی آنکھیں ۔
لیکن کچھ آنکھیں بے حد اداس ہوتی ہیں۔ ایک نظر باہر کا منظر دیکھا اور پھر آہ سر دکھینچ کر آنکھیں نیچے جھکا لیں ایسے قیدی شایدعادی مجرم نہیں ہوتے ۔ یونہی کبھی کبھار جذبات میں یا حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر کوئی جرم کر بیٹھتے ہیں اور سونے پہ سہاگہ پکڑے بھی جاتے ہیں۔ پھر ضمیر انہیں ملامت کرتا رہتا ہے او ر وہ ایک پچھتاوے کی آگ میں سلگ رہے ہوتے ہیں۔
صبح صبح ایسی آنکھیں بالکل نہیں دیکھنی چاہئیں کیونکہ ایسی آنکھیں دیکھ کر آ پ بھی میری طرح اداس ہوجائیں گے اور سارا دن دفتر میں آپ سے کام نہیں ہوسکے گا۔ سو میں کوشش کرتا ہوں کہ ان گاڑیوں کا بلکہ ان آنکھوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔لیکن جب بھی وہ سامنے سے گزرتی ہیں تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی نظر اٹھا کے دیکھ لیتا ہوں ۔
اور آج بھی میں یہی سوچ رہا ہوں کہ میراسامنا نہ ہو ۔لیکن محکمے کی گاڑی آج لیٹ ہے سو انتظار کرنا پڑے گا۔ اور وہ دیکھیں پھر پولیس کی گاڑیاں آرہی ہیں آج تو میں نہیں دیکھوں گا ،پہلی گاڑی گزر گئی میں دوسری جانب دیکھنے لگا ، ایسا بھی کیا ڈر مجھے دیکھ لینا چاہیئے۔ میں نے سوچا اور جب دوسری بس نزدیک آئی تو میری نظر فورا کھڑکی کی طرف اٹھ گئی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔ نہیں یہ نہیں ہوسکتا ۔
میری آنکھیں کھڑکی پر کیا کررہی ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟؟