امید کی حقیقی شہزادی اور ہوائی و تصوراتی اژدھا کے بیچ سجی ڈین بن پُھو کا انت: ریت اژدھا کے منہ میں ۔ یہ دو دن کی خدائی ’’تو کوئی بات نہیں‘‘ ثبات تو ثبات کو ہے۔
بلوچستان کی راہنمائی کرنے،یاروں کو ملانے ،آشنا ئیاں تخلیق کرنے والے گوادر میں چند سال قبل ہم نے پہلی بار وحید جان کو دیکھاتھا۔۔۔ ہم خوش نصیبوں کی ملاقات کتابوں کے انباروں میں ہی ممکن اور احسن ہوتی ہے۔
ایشیا کے گز سے ناپیں تووحید نوراپنے دوست حارث خلیق ہی کی طرح کوئی بہت زیادہ حسین وجمیل شخص نہیں ہے۔لحیم کاجو مطلب نکلتاہے، شحیم کے جو معانی نکلتے ہیں ، یہ دونوں دوست( میرے بھی اور باہمی بھی) اُس کا مجسم نمونہ ہیں۔پھراُن دونوں کی جلد کی رنگت جس پہ دنیا میں سب سے زیادہ جنگیں، مظالم اور بربادیاں ہوئی ہیں ایشیا میں منتخبہ نہیں ہے۔مگرچہرے میں سرخ روشنائی ہو نہ ہو یہ لمبا تڑ نگا آدمی اتناروشن خیال ہے ، اتنا روشن خیال ہے کہ اُسی کے دَم سے’’ دور دنیا نہیں تو کم از کم ہماری’’ دنیا‘‘ سے اندھیرا ہوجائے‘‘۔
ہم نام کیا گنوائیں مگر آپ کی توجہ اس تاریخی حقیقت کی طرف ضرور مبذول کرائیں گے کہ کارناموں کا شکل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔آپ جس وقت یہ صلاحیت پیدا کریں کہ کسی کے سر پہ بالوں کی کمی سے بے نیازہو کراُس کی کھوپڑی کے اندر کے Sulkyاور Gayraeکی تعداد کا تخمینہ لگاپائیں تو آپ کی زندگی بہت آسان ہوجائے گی ۔
دھوکہ نہ کھائیے وحید نور پہلی ملاقات میں آپ کو بہت مودب سانظر آئے گا۔رکھ رکھاؤوالا، ادب آداب والا ، عجز و انکساری والا۔ مگر اس وکیل کا جلال وجاہ دیکھنا ہوتو مارشل کے خلاف جمہوری جدوجہد میں اُس کا ریکارڈ دیکھ آئیں۔ ہجر نصیب خطے کا یہ شخص خلوت کا نہیں، بزم احباب کا ہے، جلوس جلسے کا ، تقریر کانفرنس کا ہے۔
وحید کا والد مکران کے دشت کھڈان سے کراچی آکر آباد ہو گیا تھا۔ مگر ماں سرباز سے تھی ۔ یہ تذکرہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اُس کی ماں کا باپ بلوچی اور فارسی میں شاعری کرتا تھا۔
ؒ 20جنوری 1971کو پیدا ہونے والے وحید نور کی ساری تعلیم کراچی کی ہے۔ اُس نے پولٹیکل سائنس میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کر رکھا ہے ۔ مگر وہ وکیل پیشہ بنا۔ اس نے ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی کر رکھا ہے۔
یہ بلوچ ماما دلچسپ لوگ ہیں۔ ساری دنیا نظریہ سے سرپٹ بھاگ گئی ۔کسی نے بھی مڑکر پیچھے نہ دیکھا۔ہم نے سرخ کوسفید بنتے دیکھا، مشرق کومغرب کی جھولی میں پایا ،جھوٹ کو کا لبادہ اوڑھتے دیکھا ۔ اور اِس سب کچھ پر تشریحات و توضیحات کی بلیغ تحریریں پڑھیں ۔مگریہ جو بلوچ بھائی صاحب ہے ناں!۔ یہ ابھی تک وہیں کھڑا ہے ، اوربحیثیت قوم وہیں کھڑا ہے ۔ وہیں اپنے یوسف عزیز مگسی کے ساتھ، اپنے مصری خان کھیتران کے ساتھ ، اپنے لال بخش رند کے ساتھ۔
اسی قوم کا بیٹا وحید ، اِس زمانے میں بھی اجتماع کا سوچتا ہے ، لوگوں کا سوچتا ہے ، ان کے مستقبل کوسنوارنے کی راہیں جھاڑو کرتا ہے۔(پاگل کو بلوچی میں ’’گنوخ‘‘کہتے ہیں!)۔
وحید کو اکاّدکا شاعری کرتے سنا تھا، مگر وہ واقعی کوئی لمبی چوڑی شاعری کرتا ہے یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔ اب اچانک ڈاک سے اُس کا مجموعہ ملا۔ میں سمجھ گیا کہ مزدور اپنی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے قبل مانگ رہا ہے۔
اُس کی 200 صفحات کی زبردست شاعری اور زبردست کاغذ اور گیٹ اپ والی کتاب کا نام ہے: ’’سکوت بول پڑا‘‘ ۔ مجھے عطا شاد یاد آیا۔ جہاں خاموش رات میں بھی دریا بولتا ہے۔ مجھے میرا پسندیدہ لکھاری ول ڈورانٹ یاد آیا جس نے کہیں ایک بہت اچھا لفظ ’’آرٹ آف سائیلنس‘‘استعمال کیا تھا۔مجھے شاہ لطیف یاد آیا جس نے گھپ تاریکی میں چوٹیوں کو باہم کھسر پھسر کرتے سنا۔
میں نے وحید نور کی شاعری کی کتاب ’’سکوت بول پڑا‘‘ پڑھنا شروع کیا تو پکا یقین ہوگیاکہ وہ شریف آدمی دراصل اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔ وہ بلوچی میں لکھنا چاہتا ہوگا ۔ مگر اُس سے لکھا گیا اردو میں۔ وہ اردو میں شاعری کرنا چاہتا تھا مگر اُس میں بلوچی بھرگیا۔وہ جب بھی تھرکی پیاس کی بات کرے گاتو اس کی قلم سے گوادر کی بے آبی نکلے گی۔اپنی شناخت کا احساس بلوچ میں شدید ترین صورت میں موجود ہوتا ہے ۔ ساتھ میں اس کے اندر انٹرنیشنلزم بھی لمحہ بہ لمحہ مضبوط ہوتا جارہا ہے ۔کس طرح دونوں کو ہم آہنگ کیا جائے ،یہ آئندہ والی نسل کے لیے سب سے اہم معاملہ ہے۔
آج کے عہد کے ہم بلوچوں کا یہ بہت بڑا معمہ ہے۔ جو بھی لکھت میں ’’اپنی ‘‘ بات کرنا چاہتے ہیں اس مسئلے میں گرفتار ہیں کہ کس زبان میں لکھیں۔ دس جینوئن اور بیس فرضی بہانوں سے ہم اردو میں لکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مگر ایسا کرتے ہوئے ہم اردو کا ’’ ککھ بھی نہیں چھوڑتے ‘‘۔ اُس میں موجود فیوڈل اشرفیت ہمارا پہلا مہلک نشانہ بنتی ہے۔ اور ہم ’’ آپ‘‘،’’ آئیے گا جائیے گا‘‘ کی نستعلیقیت کو آریائی’’ تم‘‘ میں سنگسار کرنے کے بعد ’’ قلم مذکر، پنسل مونث‘‘ کے گورکھ دھندے پر تیر بازی شروع کرتے ہیں۔ ایک ماہنامہ کے ایڈیٹر کے بطور اب تک ہزاروں بار ایک فقرہ سے واسطہ پڑا۔ جب بلوچ اردو میں مضمون لکھ بھیجتا ہے تو کونے میں وہ فقرہ لکھ مارتاہے:’’ واجہ اشی نروماد گاں ٹھیک کں‘‘ (محترم اِس مضمون کا مذکر مونث درست کردیں)۔
وحید نور کی بات ذرا مختلف ہے ۔وہ گو کہ اردو زبان کے غیرفطری مذکر و مونث پر دسترس رکھتا ہے اور لہٰذا اس مسئلے پرکوئی روایت شکنی نہیں کرتا۔ وہ بھی بالکل’’ آنکھ‘‘ میں مونث تلاش کرلیتاہے اور’’ کان‘‘ کو مذکر دیکھ لیتا ہے،کامیابی کے ساتھ (پتہ نہیں کیسے؟)۔ مگر وہ اپنے کلام میں سماجیات کے اندراردو کی فیوڈل خصوصیات پہ قلعہ شکن ضربیں لگاتا جاتا ہے۔
وحید کمال کرتا ہے ۔وہ اچھی خاصی رواں شاعری کرتا ہے۔وہ نہ وزن کے استحقاق کو مجروح ہونے دیتا ہے اور نہ کوئی اور فنی کمزوری کو اپنی نمائش کی اجازت دیتا ہے۔ وہ سمال ، میڈیم، لارج اور ایکسٹرا لارج ہر بحرمیں شاعری بولتا ہے۔ مجھے اشعار نقل کرکرکے اپنے مضمون کو طویل کرنے سے نفرت ہوتی ہے۔ ایسے ہی، لمبی بحر ثابت کرنے کو اس ایک ’’ دانہ‘‘ برداشت کرلیجیے۔
یہ سب وسائل یہ پھیلے ساحل، کروں میں کیسے حوالے اُس کے ؟
جو ہے ہمارا، نہ ہو ہمارا، تجھے گوارا مجھے نہیں ہے
(بھئی میں تو طویل بحر کی بات کررہا تھا ۔ آپ بس وہیں تک محدود رہیں ۔ معنویت میں گھس گئے تو سائیڈ ایفیکٹ کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ آفٹر آل آپ تقریر و تحریر میں پابجولانی والے خطے میں رہتے ہیں، یورپ میں نہیں )۔
وحید نور سیاسی شاعری کرتا ہے مگر وہ شاعرانہ بات کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی بات کرتا ہے اور سیاسی بات کو برقرار رکھتے ہوئے شاعری کرتا ہے۔ سارے اچھے شاعروں کی طرح اس نے بھی محبت کو اپنی سیاست اور انقلاب سے مخاصم ومتصادم نہ بنایابلکہ دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنالیا ۔
یہ شخص اپنے کلام میں زندگی سے ہمیشہ جڑا ہوا نظر آتاہے ۔زندگی جسے ہم نے ماضی ، حال اور مستقبل میں لخت کررکھا ہے ۔ وحید ہمارے ماضی کو غیرا ہم نہیں قرار دیتا اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ ماضی کے بغیر زندگی کا تذکرہ کرنا ایسا ہے جیسے پاؤں کاٹ کر کسی کو پیدل چلنے کا کہا جائے۔اور ہمارا ماضی ہے کیا؟ ۔ہمارا ماضی باہم پھنسے ہوئے دھاگے کا ایسا ڈھیر ہے جس کا سر ا آپ کو نہیں ملتا۔آپ کو کامن سنس گھر رکھ کر اس کی گتھیاں تلاش کرنی ہوں گی۔ بس آپ کو ایک چیز تسلسل سے ملے گی۔۔۔۔۔۔۔ زور آوری ۔ اور جو تاریخ زوراوریسے بنے گی وہ ’’ دبڑ گھوس‘‘ والی ہی ہوتی ہے۔ دبڑ گھوس میں دلیل، اور اسباب و علل کی تلاش فضول کا م ہیں۔ دیکھیے ناں، بغیر کسی طبقاتی یا دیگر بنیادی اور مخاصم تضاد کے بار بار کے مارشل لاکیا سکھاتے ہیں ۔ رہ رہ کر آپ دیکھیں گے کہ تھے جتنے سرکشیدہ ، سب کے ہی سر قلم ہوئے۔ قلی کیمپ ، شاہی قلعہ، سپیشل برانچ ، اور اب تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کہاں۔ زور آور ہمیشہ انہونی کو سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ملکی و صوبائی سے لے کر انفرادی قبیلے کی سطح تک بادشاہوں کی طبیعت رکھنے والا حکمران ہمہ وقت دانش کو قید کرنا چاہتا ہے، راگنی کو، بہتی ندی کو ۔ اسے سمجھاتے سمجھاتے کتنے بچوں کے باپ سر قلم ہوئے کہ آگہی قید نہیں کی جاسکتی، بیدار ضمیر کو جولاں نہیں لگائے جاسکتے، روشنی کو تباہ نہیں کیا جاسکتا ۔ خرمست حکمران یہ سمجھتا ہی نہیں کہ آبادی میں سے ’’ ہر کسی‘‘ کو قتل و قید نہیں کیا جاسکتا، ہمہ وقت رواں لولاکی گھڑی کو کبھی روکا نہیں جاسکتا۔۔۔۔۔۔
اور پھر سماج کا طبقاتی ساخت وحید کو اپنی طر ف متوجہ کیے رکھتا ہے۔ وہ نانِ شبینہ سے محروم خلقت کو نظر آتا ہے تو اُسے وہ وحشی ٹولہ بھی نظر آتاہے جس نے عوام الناس کو غربت کی تاریکی میں جھونک رکھا ہے۔وہ بچے کی حسرت مند آنکھوں کو سارے کھلونے دولت مند کی دکان میں ہونے کا سبب قرار دیتا ہے۔ وہ زندگی کو دوا کی قیمت سے بہت ارزاں دیکھتا ہے۔ وہ عورت کو(خواہ وہ سیتا جیسی مقدس ہستی کیوں نہ ہو) غیر محفوظ دیکھتا ہے۔ وہ اقلیتوں پہ جاری سماجی جبر کی شدت کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔
وحید نور یہی کچھ بیان کرنے والا ہمارے آج کا،ہمارے حال کا‘ شاعر ہے ۔ حال کیا ہے، آج کیا ہے ؟۔یہ کہ، ہمارا سماج ایک آسیب گھر ہے۔ یہ قطعاً ایک صحت مند اور تندرست سماج نہیں ہے۔
اس میں نفرت و وحشت و ظلم کاراج ہے۔تیرے گاؤں سے میرے شہر تک ہر طرف ڈر دکھائی دیتا ہے ۔ہر روز پائی گئی ہیں مسخ لاشیں شہر میں۔وحشتوں کا راج ہے ہر اک گلی میں،ہر اک سڑک پہ۔ڈر کے مارے مہر بہ لب ہے تمام شہر ۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ مرنے والوں میں اُس کا کون تھا۔ اس لیے کہ ٹکڑے ٹکڑے شدہ جسم دوسرے ٹکڑے شدہ جسموں سے مکس ہوجاتے ہیں، اور دیکھنے والے کی کراہوں آہوں سسکیوں کو ایک لڑی میں پرونا نا ممکن ہوجاتا ہے۔ قاتل خواہ جو بھی جامے پوش کر آئے ، اس کے ہاتھ، گلے یا سینے سے بندھا جو بھی اسلحہ ہو ،خوف کئی کئی گنا بڑھتا جاتا ہے۔ جب اِس نڈھال خطے کا تذکرہ تاریخ میں ہوگا تو خون کے دریاؤں کے نئے جغرافیاؤں کا احوال ہوگا۔
وحید حیران کہ، جس شہر کا شعور زمانے میں تھا بلند وہ کیسے ہوا زوال۔
وجہ کیا ہے ؟ ، جرم کیا ہے ، ھدف و منزل کیا ہے؟ کچھ نہیں معلوم ۔
وحید نور ایک بے عمل فیوڈل معاشرے کے بے عمل فرد کو خوب بیان کرتا ہے۔ فرد بہت سڑگل رہا ہے۔ اس کے رویے غیر انسانی بنتے جارہے ہیں۔ متلاشی ‘علم کو نہیں بلکہ علم، متلاشیوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ بے عملی اور کاہلی اپنی ’’ ٹائم پاسی‘‘ بہت بھیانک طریقوں سے کرواتی ہے۔ غیبت، تہمت ، تذلیل ، ایک دوسرے پہ حقیر نام رکھنا، کھسر پھسر، دشنام طرازی۔ وہ روشنی گزیدہ معاشرے کو تاریکی کا سوگ منانے کا ڈھونگ رچانے پہ آڑے ہاتھو ں لیتا ہے۔ اُس نے واقعتا سماج کو ’’ بہروں‘‘ کا سماج قرار دیا۔
یہ درست ہے کہ وحید نور شہر اور شہری زندگانی کا دانشور ہے۔ اس کی معروضی مجبوریاں ہیں کہ اُس کی مزاحمت اور احتجاج شہری ذرائع ابلاغ کا متعین کردہ ہے۔ وہ فیوڈل معاشرہ کے اندر کی سڑاند سونگھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسے ’’ جمہوریت کے چیمپئن‘‘ فیوڈلوں کے اپنے زیر اثر سماج میں جھانکنے کا موقع نصیب نہ ہوا۔ وہ پرمیٹو اور فرسودہ معاشی سماجی نظام کی اذیت ناپنے کی سہولیات سے محروم ہے۔ چنانچہ ہم سب دانشوروں کی طرح وہ بھی نظام کے محض ایک حصے کی بوسیدگی کو محسوس کرکے اسی پر شاعری کرنے میں لگا ہواہے۔ اسے اندازہ ہو بھی نہیں سکتا کہ ایک بنیاد پرستی ’’ رسم و رواج‘‘ کی بھی ہوتی ہے۔ جس کی چوکھاٹ نظریاتی اور انتظامی ہر دو مٹی گار ے سے بنی ہوئی ہے۔ وہ عوام الناس کی فیوڈلزم کے خلاف داخلی مزاہمت کو دیکھنے، سمجھنے اور حمایت کرنے کی عینکیں ہی نہیں رکھتا ۔اُسے اندازہ ہی نہیں کہ وہ جن لوگوں کو مسیحا قرار دے رہا ہے۔ وہ سماج کے ایک دوسرے بڑے حصے کے قاتل ہیں۔ کمال بات ہے کہ ایشیا میں حالات ایسے ہوتے ہیں کہ بڑے پیمانے کی لڑائی میں وہ لوگ آپ کے اتحادی ہوتے ہیں جن کے اپنے پیر ہزاروں لاکھوں انسانوں کواپنا قیدی بنائے ہوئے جیل خانے پر رکھے ہوئے ہیں۔
وحید اپنے شعور کے Scanners سے ساہوکار کی بیوی کے پہنے گہنے کے بارے میں معلوم کر لیتا ہے کہ وہ اُس کا اپنا نہیں بلکہ کسی مفلس کا رہن میں رکھا ہوا زیورہے۔
وہ ’’سانحہ کی آڑ میں یہ واقعہ کچھ اور ہے ‘‘ کے بھانپنے کے لیے عجیب بصیرت رکھتا ہے۔ وہ کمال آدمی ہے۔ ہم سب کو بتاتا ہے کہ ’’ اور ہی کچھ کہہ رہے تھے میڈیا پر حکمراں‘‘۔ وہ عوام الناس کو ترغیبوں لالچوں، خوفوں ، انحرافوں، غلطیوں سے ہوشیار کرتا جاتا ہے۔۔۔
کتنی سچی ہے بات جھوٹے کی
جتنے سچے ہیں سارے پاگل ہیں
وحید نور’’ دربغل دار دکتاب‘‘ ۔ وہ ایک مینی فیسٹو کا مالک ہے۔
اور وہ اپنے اِس رول کی اہمیت سے واقف ہے۔ وہ اُس اعزاز کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے جو اُسے عشق نے عطا کردیا ہے۔
وہ حال اورزندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اُسے کہنیاں مارتا جاتا ہے۔ اسے کالی ، گہری کالی رات کو پڑھنا آتا ہے۔
ہم سب کی طرح وہ بھی صبح شام سینکڑوں لوگوں سے حال کی ناروائیوں کے بارے میں کو سنے سنتا جاتا ہے۔ کیا امیر کیا غریب کیا ماتحت کیا افسر، سب شکایت کرتے ہیں۔ وحید حیران ہے کہ ہر شخص گلستان کے ایک ایک پھول ایک ایک پتے کا دشمن ہے اور پھر بھی چاہتا ہے کہ گلشن گلشن نظر آئے!!
پھر وہ لوٹ مار دیکھتا ہے۔ طاقتور کمزور کو مارتا ہے ، استحصال کرتا ہے۔ وہ غریبوں کی بستیوں میں گھر گھر پھیلے سناٹے کی پیمائش کا پٹواری بن جاتا ہے۔ اگر آپ کو بلبل اور کرگس میں فر ق جاننا مطلوب ہوتو وحید نور کی شاعری پڑھ لیں۔
پھر وہ اس پہ کڑھتا ہے۔اُسے خوب بیان کرتا ہے۔اُس کی ایک ایک منافقت اور ایک ایک بشر دشمنی کی وضاحت کرتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ زور آور حکمران طبقہ وار پہ وار کیے جاتا ہے چال پر چال چلتا جاتا ہے۔ اور کمزور غیر منظم نچلا طبقہ اپنا سر اور کیڈر بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ وہ اس معاملے میں محض ترقی پذیر دنیا کی بات نہیں کرتا۔ اسے اپنے ہاں پیداواری رشتوں کی فرسودگی کا اندازہ اور احساس ہے۔ لوگوں کی بالخصوص دیہا توں کی وسیع کسان آبادی کی رجعت اور تو اہم پرست مینٹلیٹی کا اندازہ ہے ۔مگر اُسے تو شہر سے ، یورپ سے اور امریکہ کی ورکنگ کلاس سے بھی گلہ ہے کہ اس نے دنیا میں کتنا شعور پھیلایا، عوام کو کتنا منظم کیا؟
یہ مرحلہ وہ بہت باریک بینی سے عبور کرتا ہے۔ پھر ہی وہ اِس سارے مروج کو حقارت کے ساتھ مسترد کردیتا ہے۔ اور یہاں مشرق میں استرداد کے لیے سب سے تلخ لفظ ’’ تُف‘‘ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں اُس کی سب سے بڑی نظم ’’ تف‘‘ ہے۔میرا ہمیشہ سے خیال تھا ’’تف‘‘ لفظ کا استعمال بلوچی شاعری میں آزاد جمالدینی نے جس انداز میں کیا تھا، کوئی دوسرا بلوچ نہ کرسکے گا۔ وحید کی اسی ’’لفظ‘‘ والی غزل کا مقابلہ آزاد صاحب کی نظم سے تو ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر وحید نور کی غزل ایک اور لحاظ سے بہت اہم اور مزیدار ہے۔ یہ نظم تو ضر ب المثل بن جانی چاہیے۔( وحید کی شاعری میں بے شمار لائنیں ایسی ہیں جنہیں جلد یا بدیر ضرب المثل بننا ہوگا)۔
تف والی نظم تین چار لائنیں اس لیے دے رہا ہوں تاکہ اگلا لطیفہ نما آپ کو آپ کو سنا سکوں۔
بلوچستان میں ایک قصبہ میں بہرام نامی ایک اچھا بلوچ رہتا ہے۔وہ کبھی کبھی ایسی بڑی دعوتیں کرتا ہے کہ اُس میں سیاّل کی مریدی کے علاوہ کچھ بھی مشترک نہیں ہوتا۔ ایک ایسے بڑے عشائیہ میں رات کے نو بج گئے مگر کھانا نہ تھا، دس بج گئے، گیارہ بج گئے مگر کھانے کے کوئی آثار نہ تھے ، بس ہر سُو مر مریں شیشہ ( ایسے موقعوں پہ شیشہ کم پڑتا ہے۔ پھر تو کٹورہ ، مگاّ ، کپ، پیالہ ۔۔۔۔۔۔ سب چلتا ہے) تھا ،اور اُس گلاس کے اندر کا مافیہ تھا، اور اُس کی برپا کردہ کیفیت تھی۔ اس محفل میں ایک نو آموز، کم آمیز اور نسبتاً نووارد نے کھسر پھسر میں بارہ بجے کھانے کی بات یاد دلائی۔ یہ کھسر پھسر جب ایک فرد سے واردِ عام ہوا تو پھر کورس میں ایک نغمہ گونجا۔ دماغ اور زبان کی ہم آہنگی میں مئے کی دخل اندازی ہوتو ایسے نغمے بہت معصوم ہوجاتے ہیں۔ نغمہ کے بول تھے:
بہرام کی دعوت اگر بارہ بجے ہی کھائی جائے، تو ایسی دعوت پہ
سب با جماعت ہوکر کہتے:
تُف
اور پھر تو ہم بہت عرصے تک یہ مصرع اپنی مرضی اور خواہش اور ضرورت سے پیوند کرتے رہے ۔ بلوچستان اگر باہم جُڑا ہوتاتو اب تک تو یہ مصرع گھر گھراستعمال ہوتا ۔ مگر کانٹوں سے آلودہ ندی نالے اور پہاڑ گھاٹیاں عبور کرتے کرتے ہمارا ہر اچھا مصرع بلوچستان کے دوسرے کونے تک برسوں بعد پہنچ پاتا ہے۔۔۔۔۔۔ جب کہ آج کا فیس بُکی شاعر پسینہ نکلنے سے بھی پہلے معاوضہ چاہتا ہے ۔ اس لیے وحید نُور انتظار کرو۔ تمہیں بلوچستان کچھ عرصہ بعد ہی بڑا شاعر مانے گا۔۔۔۔۔۔ کاش میں بھی وہ دن دیکھ سکوں!!۔
وحیدمحض کڑھتا نہیں، محض اس کو بیان نہیں کرتا، محض اسے مسترد نہیں کرتا بلکہ وہ اُس کا متبادل بتاتا ہے۔وحید سماج کو بدلنا چاہتا ہے۔ سماج جو کہ لوٹ کھسوٹ کی سڑاند کے پیندے تک کو چھوچکا ہے۔ وہ اسے سمجھتا سمجھاتا ہے ۔
سماجی سیاسی اور معاشی حالت کو دیکھنے ، بیان کرنے اور مسترد کرنے کے بعد ہی متبادل کی بات آجاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے خطے میں انتہائی بڑے شاعر و دانشور ایسے گزرے جو وحید نور کی طرح انہی مراحل سے گزرے مگر متبادل نہ پیش کرسکے۔ یوں پچھلے کو مسترد کردنیا نسبتاً آسان ہے، فلاسفر و دانشور کو عوام الناس کے سامنے متبادل دینا اشد ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ تو آپ خود انارکی پیدا کررہے ہیں۔ اور وحید نور اناکسٹ بہر حال نہیں ہے۔
اُسے یہ الہام ہوچکا ہے کہ کچھ بھی ہوروشنی رکے گی نہیں۔وہ اس کی گھپ تاریکی میں صبح کی آمد کے حتمی آثار دوسروں سے بہت پہلے دیکھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اُسے یہ الہام ہوچکا ہے کہ کچھ بھی ہوروشنی رکے گی نہیں۔
وہ اُس متبادل میں شامل ہونے کا طریقہ بتاتا ہے۔ شامل ہوکر چلنے کے طرز طریقے بتاتا ہے۔
وہ اس کام کو بہت مشکل اور صبر آزما قرار دیتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ بشر شر میں تو چند لمحوں میں ڈھل جاتا ہے مگر شر سے بشر میں ڈھلنا بہت دقت طلب امرہے۔ صدیوں سے نا انصافی کے قالب میں ڈھلا ہمارا پورا سماج شر میں، شر پسندی اور شر پرستی میں ڈوبا ہواہے۔ الٹے کھڑے اس سماج کو دوبارہ سیدھا کھڑا کرنے کے لیے تو ریاست کی طاقت چاہیے ۔ مگر ریاست جس معاشی طبقے کے قبضے میں ہے اُس نے عوام الناس کو گمراہ کرنے اور وحید کی تعلیمات کو کاؤنٹر کرنے کے بے شمار اور جدید ذرائع ڈھونڈ رکھے ہیں۔
وہ کمزور اور کچلے ہوؤں کا پاسبان بنتا ہے۔ وہ ہمارے عہد کے چرواہوں کی آرزوؤں کا ترانہ بنتا ہے۔ وہ اُن کی امیدوں اور تمناؤں کو آواز بخشتا ہے۔ وہ میرے دور کا ایک نمایاں سنگ میل ہے، نشانِ راہ ہے، سیہ نصیبوں کی تقدیریں مٹا کر دوبارہ لکھنے والا شاعر ہے ۔اس کی شاعری زندگی کے زندہ رہنے کے لیے ، شادمانی کے حصول کے لیے ایک ترغیب ہے ۔ اس کا کلام از کار رفتہ روایتوں کا قاتل ہے۔ سب زمین وآسمان اُس کے فکر اس کے نظرکی پناہ میں ہیں۔
وحید جان عوامی بے چینیاں پیدا نہیں کرتا۔ بے چینیاں تو سماجی ناانصافی سے پیدا ہوتی ہیں۔ البتہ وہ اِن عوامی بے چینیوں کی ترجمانی ضرور کرتا ہے۔ انہیں پُر اثر الفاظ عطا کرتا ہے۔ ان کی تاثیر کو بڑھاتا ہے۔ خلقِ خدا کی محرومیاں استحصالی سماج میں کبھی کم نہیں ہوتیں۔ایسا سماج جس میں آکسیجن ( روحانی ، طبعی دونوں) کے سرچشموں پہ چند زوراوروں کا قبضہ ہوتو گھٹن زدہ عوام ’’ ہو اکی بھوک‘‘ کاشکار ہوجاتے ہیں۔ انفرادی طور پر تڑپتے ہیں، اور پھر جمع، جمع اجتماع بن جاتے ہیں۔ پھر تنگ و بند گلیوں میں سے امڈ امڈ کر نکل آجانے والے آدم کے یہ بچے آکسیجن کے اپنے ذخیرے اُن زور آوروں سے چھین لیتے ہیں اور اُس سارے کی از سرِ نو تقسیم کے پراسیس کو منظم و مربوط کر ڈالتے ہیں۔ پورا سماجی ڈھانچہ بدل جاتا ہے۔
سماجی ڈھانچہ عوام الناس کے حق میں بدل ڈالنے ہی سے انسان کی محرومیاں بے چینیاں گھٹ سکتی ہیں۔ وحید آہٹیں سب دبا کے پیروں کے ایک راستہ بنانے کے لیے اُسی طرف اپنے الفاظ کا گھڑ سوار دستہ رواں رکھتا ہے۔
مگر راستہ بنانا جتنا ضروری ہے، راہر وؤں کا دستیاب ہونااُس سے بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر راستوں پر چلنے والے ہی موجود نہ ہوں تو آپ راستہ بنا کر کیا کریں گے۔ اِدھر یہی المیہ ہے۔ یہاں سب سے بڑا دکھ، میرا، اُس کا ، ہمارے کارواں کا تو وہ ہے جو اُ س نے بیان کیا ہے:
تم پاؤں کے چھالوں پہ عبث نوحہ کناں ہو
دیکھا ہے کہاں تم نے ارادوں کی تھکن کو
یہ بہت ہی تاریک اور بدنصیب تھکن ہے۔ یہ صرف تھکن نہیں رہتی، یہ اپنے ساتھ جھوٹ، جواز ، جوابی الزامات، دوچہرگی ، سازش ، اور سابقہ کی صفوں میں توڑ پھوڑ کی بکواسیات بھی لاتی ہے۔ ڈھٹائی، ہٹ دھرمی، اور بلا وجہ کا ایک انتقام در آتا ہے۔یہی تلخ ترین حقائق لیے ہوئے اُس کی اس طویل بحر کی غزل دیکھیے تو یہ کسی ناول کا عنوان ہوسکتا ہے۔
ریاستیں ہیں ریاستوں میں غلام ابنِ غلام چپ ہیں
خطیب و قاضی، شیوخ و مفتی ہیں جتنے واعظ ، امام چپ ہیں
خطیب و قاضی، ہنر کے داعی، قلم قبیلہ کے اہل دانش
تمام چپ ہیں، تم چپ ہیں، تمام چپ ہیں ، تمام چپ ہیں
وہ اُن کے چپ رہنے کا صرف گلہ نہیں کرتا۔ وہ تو ہر لفظ اور ہر لہجے میں سماجی شعور اور فریضہ سے لاتعلق غمِ درہم ودینار میں گم فرزانوں کوللکارتا ہے، مزمت کرتا ہے، ہمت و غیرت دلاتا ہے۔
اُس کا ایک شعر تو مجھے بہت اچھا لگا، معنوی اعتبار سے بھی اور فنی لحاظ سے بھی۔میں وہ شعر فیڈل کا سٹروپراپنی لکھی کتاب کے اگلے ایڈیشن میں لے جانا چاہتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ یہ جو شخصیت پر ستی اور نرگسیت ایک وبائی صورت ہر جگہ موجود رہتی ہیں ، یہ انسانی سماج میں ایک بہت بڑی بتاہی لاتی ہیں ۔ بہت ہی عظیم لوگ ہوتے ہیں جو اس عذاب عادت سے آزاد ہوتے ہیں۔
دنیا میں سوشلسٹ لیڈر (دوچار کو چھوڑ کر ) عمومی طور پر سخت جدو جہد کرتے رہے کہ اُ ن کی ہر دلعزیزی میں انہیں پوجا پاٹا نہ جائے ۔شخصیت پرستی عوام کو توبت پرست بناتی ہی ہے مگر اصل نقصان اُس شخص کو بھی ہوتاہے جسکی پرستش ہورہی ہوتی ہے ۔ وہ پھر واقعی میں سمجھنے لگتا ہے کہ ساری کائنات اُسی کے لیے، اور اسی کی وجہ سے، قائم ہے۔ بربادی مقدر ہوتی ہے۔
فیڈل کا سٹرو تو اتنا درویش آدمی تھا کہ اس نے تو اپنے ملک کے آئین میں درج کرایا کہ کیوبا کے اندر کسی ’’زندہ ‘‘ لیڈر کے نام کا نہ کوئی ترانہ ہوگا، نہ کسی سڑک وسکول وعمارت کا نام اُس کے نام رکھا جائے گا، اور نہ ہی کرنسی نوٹ وڈاک ٹکٹوں پہ اس کی تصویر چھپے گی۔ لہٰذا دنیا میں کیوبا ایک ایسا ملک تھا جہاں اِس کے بہت بڑے فلاسفر لیڈر کا کوئی مجسمہ نہ تھا ۔
وحید نور کا یہ شعر میں کاسٹرو کی کتاب میں شامل کروں گا۔
میں چوک کابت نہیں بنوں گا
دلوں کے اندر سجا ؤ مجھ کو
وحید منزل تک جانے والا دانشور ہے۔منزل جو آنکھ کی اوٹ جتنی قریب ہے ، مگر منزل جو صدیاں دور ہے۔ منزل جس تک رسائی اس قدر آسان ہے جتنا کہ بغیر کانٹوں والے درخت پر لگے شہد کے چھتے کو اتارنا،منزل جس کی رسائی اس قدر مشکل جس قدر اولین حمل کا دردِ زہ۔مگر :
ابھی تواور کھچے گا جنوں کا افسانہ
کہ میری نظموں کا عنوان اب بھی باقی ہے
وحید راہ کو مدھم و کنفیو ز بنانے والوں کی چالوں سے خبردار کرتا جاتا ہے۔اسے خوب پتہ ہے کہ :
وہ صحافت ہو یا عدالت ہو
سب کے سب زرخرید طاقت کے
وہ پنڈت پادری کو بھی’’ توجہ ہٹاؤ مہم‘‘ کا انچارج قرار دیتا ہے۔ مندر مزار محض ایسی بھجن گاہیں ہوکر رہ گئی ہیں جہاں ازل سے ا بھری طبقاتی لڑائی سے اجتناب کے حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ زمینی کڑوی حقیقتوں کو ہیلی کاپٹروں میں لاد کر آسمانوں میں بسیرا کیے دیوؤں،دیویوں، راکھشسوں کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔ یوں عوام الناس سامنے موجود مجسم ظالم کو اُسی طرح دست بہ شمشیر چھوڑ کر، اوپر رام اور لچھمن کی خوشنودی کو لگ جاتے ہیں۔ اس طرح ہم ایک اصلی جنگ سے بھاگ کر بھجن کے مقابلے میں لگ جاتے ہیں۔ تعویذ اور ردِ تعویذ میں لگ جاتے ہیں۔
وحید نور میں ایک کمال میں نے یہ دیکھا کہ وہ اپنے قافلے کے لوگوں کا بہت خیال رکھتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ جن بڑے انسانوں کے ترانوں کا وشوں سے صحرا ؤں میں گل کھلتے رہے اُن کے چرچے اورتذکرے عام ہونے چاہییں۔ وہ انسانی نجات کی جنگ کے دوران گرچکے اپنے سپاہیوں کے ناموں کے کتبے چلتن و چمالنگ کی بلند چوٹیوں پر نصب کرنا چاہتا ہے۔
وحید تازہ تازہ افکار، تازہ تازہ انکشافات، تازہ ایجادات اور تازہ ترین اصطلاحات و نظریات کو عوام الناس کو تھما دینے کا شاعر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خلقت جس قدر علم و سائنس کی نئی نئی ایجادات اور جدید ٹکنالوجی سے روشناس ہوتی جائے گی، اُس کی نجات کی راہیں اتنی ہی آسان ہوجاتی جائیں گی۔ وہ اپنے قاری کو ڈی این اے جیسی تازہ ترین دریافتوں کی گواہی کے سچے ہونے کا شعور دیتا ہے۔ وہ مادی طور پر مفلس شدہ اور روحانی بے چارگی کے شکار انسانوں کو جمالیاتی ہتھیاروں سے لیس کردیتا ہے۔
کہیں کہیں اُس سے اس قدر نظریاتی اختلاف ہوجاتا ہے کہ ۔ اس کا ایک شعر پڑھ کرتو میری خاموشی چیخ بن گئی:
میں خاک ہوں خاک ہی میں خوش ہوں
نہ مسندوں پہ بٹھاؤ مجھ کو
مجھے پتہ ہے کہ اگر اس سے بحث کی جائے تو وہ اپنا شعر واپس لے لے گا۔ بھلا اُس جیسے سیاسی ورکر سیاسی اقتدار کے لیے نہیں تواور کس بات کے لیے جیلیں کوڑے کھاتے ہیں۔ سیاسی اقتدار چاہیے اپنے منشور کے اطلاق کے لیے۔ سمجھے وحید جان؟۔
اسی طرح جب میں نے اس کا یہ شعرپڑھا:
شیشہ و سنگ کی لڑائی میں
طے ہے شیشے کو چور ہونا ہے
تو زور سے کہہ بیٹھا’’ انّا‘‘۔
یہ کاغذی سنگ اُس وقت تک سنگ ہیں جب تک عوام باشعور نہیں ہوتے، متحد نہیں ہوتے، اور منظم نہیں ہوتے۔ اور جب وہ ایسا کر جاتے ہیں تو بظاہر پتھر بنے پتھر کی حیثیت پانی میں حل شدہ مٹی کے ڈھیلے کی بھی نہیں رہ جاتی۔
بخت والے ہیں وہ لوگ جواپنے لیے سوچ سمجھ کر ایک منزل’’ طے‘‘ کرتے ہیں اور پھراس منزل کو ’’طے‘‘ کرنے لگ جاتے ہیں۔ حتی الموت۔