کبھی بہتے پانی پہ تم نے
بھڑکتی ہوئی آگ دیکھی ؟
کبھی تم نے سورج میں
پڑتے ہوئے بے تحاشہ بھنور
اپنی آنکھوں کے شفاف عریانیوں میں اتارے؟
تمہارے لیے اجنبیت ہے!
چاروں طرف پھیلتی دھند میں۔۔۔ہو گی !۔
لیکن مرے آئنے میں تو منظر کا منظر
چمکتی ہوئی دھوپ ایسا نکھرتا ہوا ہے
میں تجرید کے بیکرانے میں یوں گھومتا ہوں
کہ جیسے مجھے معرفت ہے
مرے بچپنے کے کھلونوں سے
کونوں سے
جن میں بھٹکتا لڑکپن کی جانب دھکیلا گیا تھا۔۔۔

زمانہ عجب دھند ہے !۔
جیسے گزرا ہوا کل۔۔۔اک آتا ہوا کل
اور ان کے کہیں درمیاں آج !۔
جس کا کوئی بھی پیمبر نہیں ہے!۔
نہ مصحف ہے کوئی
۔۔۔کتابیں تو آتے ہوئے کل کی پیشین گوئیوں سے
گزرے ہوئے کل کے بے مقصدیت سے بھرپور قصوں سے
اس دھند کے صرف چوتھائی حصے کے پر کاٹتی ہیں !۔

۔۔۔مرے نیم تاریک کمرے میں ایسا اک امکان ہے
جو تمہاری نگاہوں سے اوجھل رہے گا
کتابوں کی الماریاں
میرے سینے کی چنگاری سے آگ پکڑیں
تو جل جائیں قرنوں سے موجود الفاظ کی خوش رعایت
رفاقت کا نشہ لیے!۔

میں ابھی تک جو شفاف امکان اٹھانے کی سادہ روایت سے پیوست ہوں
منتظر ہوں پنپتی ہوئی شعلگی کا
جو تجرید کے سردخانوں میں آہستہ آہستہ بھڑکے گی
اور لفظ ہئیت کے ان تجربوں سے الگ
اس مجرد سے احساس کا تجربہ بن سکیں گے
کہ میں جس کے دورانیے میں
مرا عصر۔۔۔
دونوں ہی خاموش بیٹھے لرزتے رہیں گے!۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے