۔1۔ پاکستان میںیہ بات طے ہے کہ بغیر انقلاب کے کوئی بھی مسئلہ حل ہونے والا نہیں لیکن اس کے باوجود انقلابی پارٹیاں اصلاحات کیلئے بھی جدوجہد کرتی رہتی ہیں ۔ پاکستان میں ملازمین کے قوانین اور عدالتیں انتہائی متنازعہ ہیں ۔ سرکاری ملازمین کے قانون کے تحت سرکاری ملازم کی ٹھوس تعریف نہیں ہے ۔ قانون میں لکھا ہے کہ جو کنٹریکٹ ملازم ہیں یا کنٹی جنسی سے تنخوا لیتا ہے یا ڈی پوٹیشن پر بھی ہے وہ سرکاری ملازم نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی اداروں کے ملازمین کی تشریح پر مسلسل متضاد فیصلے آتے رہے ہیں جیسے کہ اسمبلی سینٹ یا دوسرے اداروں کے ملازمین ۔
۔2۔ اس طرح سروس ٹرائبیونل کا دائرہ اختیار بھی انتہائی متنازعہ ہے ۔ 2008ء میں بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ کیا کہ جب فائنل آرڈر نہ ہو یا مجاز اتھارٹی نے سزا نہ دی ہو اور اس طرح چھ شرائط بتائی ہیں ایسی صورت میں سروس ٹرائیبونل کو اختیار نہیں ہے ، اس طرح کے بے تحاشا متضاد فیصلے ہیں ۔
۔3۔ پروموشن (ترقی ) کی صورت میں بھی جب فٹنس کی بات آئے تو سروس ٹرائیبونل کو اختیار نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ پروموشن کا قانون لاٹو کی طرح گھومتا ہے۔ جب اپنا عزیز کم تعلیم یافتہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں پروموشن کیلئے اصل میں سینئر ہونا ضروری ہے ۔ اور پھر جب کوئی اور منظور نظر آجاتا ہے تو کہتے ہیں اصل مسئلہ کوالیفیکیشن ہے ۔ جب ایک غیر سفارشی ملازم دونوں صورتوں پر پورا آتا ہے تو کہتے ہیں ترقی کیلئے اے سی آر کو دیکھنا پڑتا ہے۔ جب یہ تینوں صورتیں بھی پورا کرتا ہے تو کہتے ہیں یہ معاملہ ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کا ہے اور اس طرح عدالتیں بھی پسند و ناپسند کو دیکھ کر اسی طرح پروموشن کے قانون کو گھماتے رہتے ہیں ۔ اور یہی حال ریگولرائزیشن کا ہوتا ہے ۔ منظور نظر کو تو مقررہ وقت میں ریگولر کیا جاتا ہے جبکہ غیر سفارشی شخص 10، 10 سال سے عارضی ملازمت کررہا ہوتا ہے ۔ اسی طرح کچھ محکموں میں سروس اسٹرکچر ہے اور کچھ میں نہیں ہے ۔ اور بعض جگہ ایک ہی محکمے میں ایک کیٹگری کیلئے سروس سٹرکچر ہے اور دوسرے کیلئے نہیں ہے ۔ اور یہی حال سینارٹی کا ہے ۔
۔4۔ مزدوروں کے قوانین میں 60 سے زیادہ قوانین ہیں اور ہر قانون میں مزدور کی تعریف الگ ہے ابھی تک پاکستان میں مزدور کی ایک ٹھوس تعریف نہیں آئی ۔ جب سے18ویں آئینی ترمیم کے بعد لیبر قوانین صوبائی اور مرکزی الگ ہوئے ہیں تو 2010ء سے 2017ء تک اب تک یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ اب پتہ نہیں کہ حتمی فیصلہ کب آئے گا۔ مرکزی صنعتی قانون کے تحت ایک مزدور تربت سے یا راجن پور سے کس طرح کوئٹہ یالاہور میں یا پشاور میں اپنے مقدمات بے روزگار نہیں چلا سکے گا۔ اور پھر اپیل کیلئے اسے فل بنچ جانا پڑے گا جو کہ سالوں سال کے بعد سماعت کرتا ہے ۔ اور بعض اوقات حکومت دانستہ ججوں تعینات نہیں کرتی ہے ۔ پچھلے ایک سال سے کوئٹہ کا ممبر نہیں ہے ۔ اگر یہ قانون برقرار رہے تو یہ برطرف ملازم کیلئے یہی بہتر ہوگا کہ برطرفی کے بعد عدالت آنے کی زحمت ہی نہ کرے ۔
۔5۔ کارپوریشن ،نیم سرکاری ادارے اور یونیورسٹیوں کے ملازمین کی تو صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک بہت سے محکموں نے اپنے رولز ہی نہیں بنائے ۔ اور ایسی صورت میں وہ صرف ہرجانہ کے کیس ہی کرسکتے ہیں ۔ بحالی کے کیس نہیں کرسکتے اور پاکستان میں ہرجانے کا قانون مذاق کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ جب 1997ء میں ان ملازمین کیلئے سروس ٹرائیبونل میں ترمیم کی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ تک یہ کیس منظور اور نا منظور ہوتے رہے پھر ایک دن سپریم کورٹ کو خیال آیا کہ یہاں تو ہر دوسرا آدمی اپیل لے کر آتا ہے ۔ اور ہزاروں اپیلیں جمع ہوگئیں تو چوہدری محمد افتخار نے 2006ء میں اس قانون کو ہی غیر آئینی قرار دیا اور سروس ٹرائیبونل اور سپریم کورٹ سے 17 ہزار سے زیادہ اپیلیں واپس بھیج دیں ۔ اکثریت ان لوگوں کی ابھی تک رُل رہی ہے ۔ اور چوہدری محمد افتخار نے لیبر کیس سلسلے میں ایک فیصلہ ایسا کیا کہ جو افسر ملازم کو برطرف کرے اسی کو شکایتی نوٹس دینا چاہئے بصورت دیگر اس کا مقدمہ ناقابل رفتار ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ 90فیصد لوگوں کے پاس نا تو تعیناتی کا آرڈر ہے اور اکثر ملازمین کو یا تو زبانی برطرف کیا جاتا یا گیٹ اسٹاپ کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں وہ کس کو نوٹس دے اور اگر شاز و نادر کسی کو تحریری طور پر برطرفی کا آرڈر دیا جاتا ہے تو اس پر لکھا جاتا ہے کہ مجاز اتھارٹی کے اجازت سے آپ کو برطرف کیا جاتا ہے ۔ مجاز اتھارٹی کون ہوگا ایک ان پڑھ آدمی کو اس کا کیا پتہ ۔ اس فیصلے کے بارے میں بھی یہ عام سی بات مشہور ہے کہ در اصل یہ فیصلہ عدالتوں کا دروازہ مزدور کیلئے بند کردیا گیا ہے اور اس طرح دیگر کئی مسائل ہیں ۔ پرائیویٹ سکولوں ، ہسپتالوں اور این جی اوز کے ملازمین ان کے رحم و کرم پر ہیں اور بے تحاشا ملازمین کیلئے قوانین ہیں ہی نہیں۔
۔6۔ سب سے پہلے ہماری بیوروکریسی نے اداروں کو اتنا لوٹا کہ اندر سے کھوکھلا کردیا جیسے واپڈا ، پی ٹی سی ایل ، سٹیل مل ، ریلوے ، بینکس اس کے بعد حکمرانوں نے بڑی آسانی سے ان کو بیچ کر اپنے گھر بھر لیے ۔اس کے بعد مزدوروں کا معاملہ ہے اور انہیں لوٹنے کا عدالتوں نے سرٹفکیٹیں جاری کی ہیں پہلے تو سالوں سال فیصلے نہیں ہوتے اور اگر فیصلے ہوتے ہیں تو وہ ملٹی نیشنل کی مرضی سے ہوتے ہیں پوری دنیا میں ہم جیسے کئی ملک کہتے ہیں کہ ہم تو اداروں کو نہ بچا سکے کم از کم اپنے ملازمین کو تو بچائیں اگر ملازم خوش ہونگے تو ملک خوش ہوگا لیکن پاکستان میں عدالتیں روز ان کے احکامات کو قانونی قرار دیکر اپنا معاوضہ وصول کرتے رہے ہیں ۔ پاکستان میں اداروں کا خریدنا اور مزدوروں کا استحصال ملٹی نیشنل اور مالکان کیلئے سونے کی چڑیا ہے۔
۔7۔ بد قسمتی یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی ایسوسی ایشنوں نے تو کبھی قانونی سازی میں دلچسپی ہی نہیں لی لیبر یونینیں اور فیڈریشنیں سیمیناروں میں شرکت کرکے سمجھتے ہیں کہ اپنا فریضہ پورا کرلیا ہے ۔ اس لیے مزدور تنظیموں اور ایسوسی ایشنوں کو ان قوانین کو از سرنو جائزہ لینے کیلئے کوشش کرنی چاہئے اور حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ آنے والے الیکشن میں ایسے پارٹی کو ووٹ دیں گے جو ان کیلئے ٹھوس قانون بنائے ۔ پوری دنیا میں اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ قانون کو سادہ بنایا جائے اور ان کو یکجا کیا جائے اور ان میں یکسوئی لائی جائے اور عدالتوں اور آفیسران کے ثواب دیدی اختیارات کم کئے جائیں اور قانون سب کیلئے یکساں ہو اور انصاف تک رسائی آسان ہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے