ایک وہ وقت تھاجب میں محبت مخالف تھی۔اس کے عام تذکرے بھی مجھے اچھے نہ لگتے تھے۔میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی کہ کیا دنیا میں انسان صرف اسی ایک کام کے لئے بھیجا گیا ہے؟محبت کے علاوہ بھی دنیا میں بہت سے غم ،کام اور مسائل ہیں۔ سب نے محبت ہی کو کیوں مقصدِ حیات بنا لیا ہے؟ایک لیکھک نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ کہانی لکھنا بہت آسان ہے۔اس کے لئے صرٖ ایک لڑکے اور ایک لڑکی ضرورت ہوتی ہے۔ان دونوں کے گرد کہانی کا تانابانا بنا جاتا ہے۔‘‘
’’لڑکا اور لڑکی کے علاوہ بھی زندگی میں بہت کچھ ہے۔‘‘
انہوں نے ناگواری کا اظہار کئے بغیر ہلکا سا مسکرا کر کہا ’’ابھی آپ نادان ہیں۔‘‘
آج سوچتی ہوں کہ میں واقعی نادان تھی۔جو محبت جیسے خوبصورت جذبے سے متنفر رہی۔ایسی کہانیاں پڑھتی اور ایسی فلمیں دیکھتی
جس میں ہیرو ہیروئن ہجر کا شکار رہتے۔ہجر کی صورت میں ان دو دلوں میں رہ جانے والی کسک مجھے عزیز تھی۔یہاں تک کہ مجھے چھپکلیوں،
مکھیوں اور پرندوں کے محبت آمیز منظر بھی ناگوار گزرتے ۔انہیں بے شرم کہہ کر تالی مار کر ایک دوسرے سے دور کردیتی ۔
اسی طرح زندگی بلکہ شباب کے کئی سال گزر گئے۔جس طرح زندگی میں تغیر آتا رہتا ہے ۔اسی طرح ہماری سوچوں میں بھی تبدیلی
آتی رہتی ہے۔تبدیلی نہ ہو تو زندگی جمود کا شکار ہو جائے۔میری زندگی اور سوچ میں بھی اس وقت تبدیلی آئی ۔جب ایک محبت
آمیز نگاہ مجھ پر پڑی۔شروع میں تو مجھے اپنا مغالطہ لگا اور میں نے حسبِ سابق دل کو باز رکھا۔میں اس راہ کی مسافر نہ بننا چاہتی تھی ۔اس لئے میں نے اپنے احساسات کی نفی کی کوشش کی ۔جان بوجھ کر انجان بنی مگر پھر پسپا ہو گئی ۔ہتھیار ڈال دئیے۔
وہ محبت آمیز نگاہ اس سینئرڈاکٹر کی تھی جس کے میڈیکل کمپلیکس پر میں نے پریکٹس کا آغاز کیا تھا۔سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنا کلینک نہ بنا سکتی تھی ۔اس لئے میں نے ان کے کلینک کی پیشکش غنیمت جانی۔ہسپتال میں آتے جاتے ان سے سلام دعا ہو جاتی۔نفیس آدمی تھے۔ دبلے پتلے ،دراز قامت،سانولے اور پر کشش۔بات کے دوران اپنی’’ گویا آنکھوں ‘‘کو مخاطب کی نگاہوں میں گاڑھ دیتے۔
ان کی وجیہہ شخصیت پہلی نظر میں اچھی لگی۔ان سے بہت سی باتیں کرنے کو جی چاہتا۔ہم عورتوں کی عجیب خصلت ہے ۔جو ہمیں اچھا لگتاہے ۔ اس کے ہر عیب کو ہم فراموش کر دیتی ہیں ۔وہ ہم سے بات کرے اور عمومی زبان میں ہمیں ’’لائین ‘‘تک مارے تو ہمیں برا نہیں لگتا مگرجو اچھا نہیں لگتا وہ ضرورت کے تحت بھی بات کرے تو ہمیں برا لگتا ہے۔ہماری نظر میں انتہائی اوچھا اور بدتمیز ہوتا ہے۔گھورل ہوتا ہے ۔دنیاجہاں کے عیب ہمیں اس میں دکھائی دیتے ہیں۔ایک بدصورت م اور کریہہ جسمے سے زیادہ ہماری نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
جب تک میں نے خود زخمِ جگر نہ کھایا۔تیرِ نظر کی شکار نہ ہوئی تھی۔تب تک میں محبت مخالف رہی۔جب خود اسیرِ الفت ہوئی تو تمام عشاق
کی ہمدرد بن گئی۔وہ کہتے ہیں نا ’’جس کی نہ پھٹی ہو بوائی،وہ کیا جانے پیڑ پرائی۔‘‘اب میری سوچ کا زاویہ بدل گیا۔ڈاکٹر صاحب کو دیکھتی
تو دل میں اک لہر سی اٹھتی۔تازہ ہوا کے جھونکے مجھے اپنے اندر باہر محسوس ہوتے۔کام کی لگن بڑھ جاتی۔بننے سنورنے کو جی چاہتا۔ اچھے اچھے کپڑے سلواتی ۔بن ٹھن کر کبھی ایک زاوئیے سے خود کو شیشے میں دیکھتی اور کبھی دوسرے زاوئیے سے ۔وہ جب آتے حسبِ معمول اپنی نگاہیں گاڑھتے ہوئے پوچھتے’’ ڈاکٹر ہاجرہ !سنائیے کیسی ہیں آپ ؟ کام کیسا جا رہا ہے؟‘‘
’’ بہت اچھا سر !‘‘
’’ کوئی مسئلہ تو نہیں ؟‘‘
’’ نہیں سر۔‘‘
میں انہیں سر ہی کہتی تھی۔ وہ عمر میں مجھ سے بیس سال بڑے تھے۔ان کی نزاکت اور پیشانی پر پڑے بال مجھے بہت اچھے لگتے۔وہ بولتے کم اور اپنی ’’گویا آنکھوں‘‘ سے دیکھتے زیادہ تھے۔اتنا دیکھتے تھے کہ میں خود سے کہتی
’’کیسے آدمی ہیں جوبندے کے اندر تک جھانک لیتے ہیں۔‘‘
مجھے ان کا اس طرح دیکھنا بھی اچھا لگتا تھا۔اگر کبھی میں انہیں زیادہ اچھی لگتی تو ان کی نگاہ سر سے پاؤں تک میرے پورے وجود کا جائزہ لیتی۔مجھے اپنا پورا وجود با معنی سا ہو لگتا۔سوچتی ’’ واقعی محبت کے بغیر بندہ جیتا تو ہے مگر وہ جینا کوئی جینا نہیں ہوتا۔‘‘
رات کو سونے کگتی تو ان کی یاد سماجی و اخلاقی زنجیروں کی تمام قیود توڑ کر میری آنکھوں میں سما جاتی۔ان کاسانس اپنی سانسوں میں ملتا محسوس ہوتا۔اتنی قربت پر میں گھبرا کر اٹھ بیٹھتی اور بہت عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ایک تلخ حقیقت جس سے میں واقف تھی ۔وہ یہ تھی کہ وہ شادی شدہ تھے اور دو جوان بچوں کے باپ بھی۔میرے دماغ نے میرے دل کوبارہا اس راہ کا مسافر بننے سے روکا مگر وہ دل ہی کیا جو مان جائے۔دل ماننے والا ہوتا تو اسے غالب ؔ ’’ دلِ ناداں ‘‘ نہ کہتے۔میرا ناداں دل بھی کوئی عقلی تاویل سننے کو تیار نہ تھا۔عقل اپنی بے وقعتی دیکھ کر تھک ہار کر بیٹھ چکی تھی اور دل محبت کی لے پر تھرکنا سیکھ چکا تھا۔وہ روز میرے کمرے میں چکر لگا تے۔حا ل چال پوچھتے۔ادھر ادھر کی بہت سی باتیں کرتے۔بعض اوقات تو آدھا آدھا گھنٹہ بیٹھتے ۔کئی دفعہ سوچتی باقی سب ہمارے بارے میں کیا کہتے ہوں گے ؟پھر سر جھٹک کر خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیتی
’’ کہنے دو جو بھی کہتے ہیں ۔ان کا تو کا م ہی یہی ہے ۔‘‘
ایک دن جب میں اپنے کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کے لئے نکلی تو ڈاکٹر ہاشم میری طرف بڑھے ۔میں رک گئی ۔پیچھے کھڑے دو ڈاکٹروں میں سے ایک نے گردن ہلا کر آنکھ مارتے ہوئے ہماری طرف اشارہ کیا۔جو مجھے اچھا نہیں لگا مگر میں نے سر جھٹک دیا ۔
کچھ دن بعد وقفے کے دوران میں ڈاکٹر روبینہ سے میری دو سری شادی کے موضوع پر گرما گرم بحث ہوئی۔وہ کہنے لگیں
’’مرد تو ہوتا ہی بھنورا ہے مگر عورتوں کو ہی کچھ خیال کرنا چاہئیے۔وہ اگر ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کا ارادہ کرے تو دوسری
عورت کو ہی اس کی پہلی بیوی کا خیال رکھنا چاہئیے۔‘‘
’’لیکن ہمارا مذہب تو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔‘‘
’’ اجازت ضرور دیتا ہے مگر انصاف کی شرط کے ساتھ۔یہاں دوسری لانے کے بعد پہلی کو کون خاطر میں لاتا ہے۔دوسری پہلی کو طلاق
دلا دیتی ہے یا کھڈے لائین لگوا دیتی ہے۔ہر دو صورتوں میں پہلی کی زندگی وبال ہو جاتی ہے۔‘‘
پھر مجھ سے سوال کرنے لگیں’’بتاؤ کیا مرد محبت کے معاملے میں دو بیویوں کے درمیان انصاف کرتا ہے؟‘‘
’’ایسا ممکن بھی ہے۔ویسے ضروری نہیں کہ ہر آنے والی پہلی کو فارغ کرائے یا اس کے ساتھ بدسلوکی کرائے۔‘‘
’’ڈاکٹر ہاجرہ! ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’ جی ضرور ۔‘‘
’’ تمہیں کوئی ایسا ہی اچھا تو نہیں لگنے لگا؟‘‘
’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘
’’ کسی کو چاہنا کوئی جرم تو نہیں۔کوئی بھی ،کسی کو بھی اچھا لگ سکتا ہے۔‘‘
’’ نہیں میم ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
ان کی بات سے میں مضطرب ہوگئی۔ڈاکٹر سرور اور ڈاکٹر مقبول کا اشارہ بھی مجھے یاد آ گیا۔گھر آکر آرام کرنا چاہا تو ڈاکٹر روبینہ کی باتیں
کانوں میں گونجنے لگیں۔آنکھیں بند کرتی تو ڈاکٹر روبینہ ،ڈاکٹر سرور اور ڈاکٹر مقبول انگلیاں نچا نچا کر میرے منہ کے پاس لاتے ہوئے
کہتے ’’ہمیں سب پتہ ہے۔ہم سب جانتے ہیں۔ہم بچے نہیں ہیں۔‘‘
میں اپنی ہی سوچوں کے بھنور میں پھنسی ہوئی تھی کہ موبائل کی گھنٹی نے مجھے چونکا کر باہر نکالا ۔اسے اٹھایا تو ڈاکٹر ہاشم تھے۔ناگواری سی
محسوس ہوئی کہ ان کی وجہ سے مجھے اتنی باتیں سننی پڑ رہی ہیں۔سوائے گھورنے کے وہ منہ سے کچھ نہیں پھوٹتے۔ان کا گھورنا ہی رسوائی کا سبب بن رہا ہے۔پہلے یہ خیال آیا ’’میں کال اٹینڈ نہیں کرتی۔تھوڑی دیر بجنے کے بعد یہ خود ہی بند ہو جائے گا۔‘‘
مگر وہ مسلسل بجتارہا۔مجبوراً اٹھایا تو ان کی مخصوص آواز سنائی دی ۔
’’مبارک ہو بھئی ۔‘‘
’’کس بات کی مبارکباد؟‘‘
’’آپ کا سرکاری ہسپتال کے لئے چناؤ کر لیا گیا ہے۔‘‘
’’ واقعی؟‘‘
’’آپ کو کس نے بتایا؟‘‘
’’ آج کا اخبار دیکھو۔‘‘
’’ بہت شکریہ سر ۔‘‘
’’کیا آپ جوائن کرنا پسند کریں گی؟‘‘
’’ جی ضرور کیوں نہیں۔‘‘
’’ جی جی ضرور کیجئے اچھی بات ہے۔ سیکنڈ ٹائم میں توآپ ہمارے ساتھ کام کریں گی ۔‘‘
’’بہت شکریہ مگر میں دو دو کام نہ کر سکوں گی۔تھک جاتی ہوں۔‘‘
’’چلئے جیسے آپ کی مرضی۔جہاں رہیں خوش رہیں۔ہمیں بھولئیے گا مت۔‘‘
’’ آپ کو تو میں کبھی نہیں بھول سکوں گی۔‘‘
’’شکریہ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔‘‘
اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔میں نے سول ہسپتال جوائن کر لیا۔ مجھے کمپلیکس چھوڑنے میں دشواری پیش آتی مگر سٹاف کی ذومعنی
باتوں کی وجہ سے مجھے سہولت ہو گئی۔اب میں ان سے دور جانا چاہتی تھی ۔سومیں آسانی سے چلی گئی۔ایک دو دفعہ ان کا فون آیا۔پرسشِ احوال سے بات کبھی آگے نہ بڑھی۔
اب کبھی کبھار ان کے پیغامات بھی آنے لگے۔میں بھی جوابی پیغامات بھیج دیتی۔پیغامات کی صورت میں ہم ایک دوسرے کو کبھی
کوئی شعر،کبھی کوئی نظم،کبھی کوئی لطیفہ اور کبھی کوئی قول بھیج دیتے۔ واٹس ایپ کے ذریعے بھی پیغام رسانی ہوتی رہتی ۔ کGood Morning کے ساتھ خوش رنگ ،خوشبودار اور تازہ پھول ضرور ہوتے ۔مجھے ان کے پیغامات کا انتظار رہتا۔اگر کبھی میسیج نہ آتا تو میں خود میسیج کر دیتی ۔اس کے بعد جوابی میسیج کی منتظر رہتی ۔ بار بار موبائل دیکھتی ۔انتظار کی گھڑیوں میں ان کی واٹس ایپ پروفائل فوٹو سے دل بہلاتی۔کئی دفعہ بے ساختہ ہونٹ ان کی تصویر پر رکھ دیتی پھر خود سے بھی شرما جاتی۔پھر ان کی تصویر سے مخاطب ہوتی
’’ جو آپ کہنا چاہتے ہیں کہہ کیوں نہیں دیتے؟‘‘
میرا خیال تھا کہ وہ مجھے پسند کرتے ہیں مگر کہنے سے کتراتے ہیں۔شاید عمروں کا فرق حائل ہے۔میرے خیال کے مطابق کسی کو پسند کرنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا اور وہ شادی تھا۔اس کے علاوہ محبت کا کوئی منتہا و مقصود میری دانست میں نہ تھا۔ویسے بھی جب آس پاس والوں کی انگلیاں مجھ پر اٹھ چکیں تو میں نے یہی سوچا ’’ان سے شادی کرانے ہی میں بھلائی ہے۔‘‘
تقریباً ڈیڑھ ماہ تک ان کے پیغامات موصول ہوتے رہے۔ایک دن جب یہ پیغام ملا ’’لا حاصل کا غم عذاب ہے۔‘‘
اس میسیج کو پڑھ کر میرا شک ،یقینِ میں بدل گیا کہ وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔ مگر کہہ نہیں پا رہے۔کچھ دیر
تو میں ایک خوشگوار سے احساس سے دوچار رہی۔اس کے بعد میری خوش فہمی نے انہیں میسیج کرنے پر مجبور کیا
’’ہر نامکمل چیز تکمیل کی خواہشمند ہوتی ہے۔میری اس ادھوری زندگی کو بھی آپ کا خوبصورت ساتھ مکمل کر سکتا ہے۔‘‘
اپنے خیال میں میں نے ان کی بے زبانی کو زبان دے دی تھی۔اب کوئی رکاوٹ سدِ راہ نہیں تھی۔مگر وائے نادانی!خوش فہمیاں بھی کیا کیا گل کھلاتی ہیں۔ شدید انتظار کے باوجود ان کا جواب نہ آیا تو میں انتہائی بے چین ہوئی ۔بے چینی ،اضطراب اور بے قراری ا حساسِ ندامت میں بدل گئے۔اٹھتے بیٹھتے سوچتی ’’ وہ میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔اگر وہ ہمیشہ کے لئے ناراض ہو گئے یا انہوں نے کسی اور کو بتا دیا تو کیا ہو گا؟‘‘
بس اس احساس سے مجبور ہو کر میں نے کال کر دی۔کال ، مسڈ کال میں بدل دی گئی۔اْدھر سے کال مس کی جاتی اِدھر پشیمانی دوچند ہوتی۔
اب میری صرف یہ خواہش تھی ’’وہ میرا فون سن لیں تو شاید مجھے تسلی ہو جائے۔‘‘
میں نے میسیج کر دیا ’’please attend my call‘‘کوئی جواب نہ ملا
میں نے پھر بے چین ہو کر پیغام بھیجا ’’سر! آپ مت کریں مجھ سے شادی ۔میری بات کا جواب تو دیں۔‘‘
اب یہ خوف بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ان کی ناراضگی مجھے کسی قیمت پر گوارا نہ تھی۔رات سونے کی کوشش میں نیند آنکھوں سے روٹھ گئی۔بے بسی اور بے قراری نے آنسوؤں کی شکل اختیار کر لی۔دیوار کی طرف منہ کر کے میں بہت دیر تکیہ بھگوتی رہی۔بے چینی میں ایک ہی حل سوجھا ’’ڈاکٹر ہاجرہ!کل نئی سم لے کر کال ملائیے گا ضرور اٹینڈ ہو گی۔‘‘
اس ارادے کے ساتھ رات کے پچھلے پہر آنکھ لگ گئی۔فجر کی اذان کے ساتھ پھر کھل گئی۔اٹھتے ہی پھر تہیہ کیا کہ ’’سم خریدنا بھولنا نہیں۔‘‘
ہسپتال سے واپسی پر میں سم خریدکر آئی۔آتے ہی گوشۂ تنہائی ڈھونڈ کر نمبر ملایا مگر بے سود امید کو پھر ناامیدی کا منہ دیکھنا پڑا۔کالز
پھر مسڈ کالز میں بدل گئیں۔
آخرپندرہویں دن ان سے بات کرنے میں کامیاب ہوئی تو لمباسانس کھینچتے ہوئے کہا ’’شکر خدایا!آ پ نے کال تو اٹینڈ کی۔میں تو بہت فکر مند ہو گئی تھی۔‘‘
’’بہت مصروف تھا ۔اس لئے کال اٹینڈ نہیں کر سکا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘
’’ کہاں ہیں آپ ؟کہاں ملاقات ہو آپ سے؟میں خود بھی آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’ اس وقت تو گھر میں ہوں۔‘‘
’’وہاں تو یقیناًملاقات نہیں ہو سکتی۔خیر چھوڑیں پھر کبھی بات کریں گے۔‘‘
بات ہو جانے کے بعد مجھے قرار سا آگیا۔اضطراب ختم ہو گیا۔
سوچا ’’شادی نہیں کرتے تو نہ سہی ایک سماجی تعلق تو رکھا جا سکتا ہے۔‘‘
دوسرے دن ان کا پیغام ملا
’’بیڑیاں قیدی کو لاچار کر دیتی ہیں۔اگر تم قیدی کی مجبوری کو بے وفائی سمجھو گی تو کبھی کسی کا پیار نہ پا سکو گی۔‘‘
اس دن مجھے میرے تمام سوالوں کے جواب مل گئے بے ساختہ میرے منہ سے نکلا
’’ بہت گھُنے ہیں۔گھُنے مرد کو سمجھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ایسے مردوں کی خاموشی میں ایک طوفان پوشیدہ ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد بھی ان کے پیغامات آتے رہے مگر میں نے کبھی جوابی میسیج نہ کیا۔کالز آئیں جو میں نے اٹینڈ نہ کیں۔ دو تین دفعہ اپنی گاڑی پر مجھے اپنی راہوں میں بھی کھڑے نظر آئے ۔میں نے توجہ نہ دی ۔ ملاقات کے لئے کہتے رہے ۔میں نے کان نہ دھرے ۔
بیدار جذبے کو ڈپٹ کر سلانے کی کوشش کی۔دل کو خبردارکیا کہ اب وہ چلانا بند کرے۔ انوکھے لاڈلے کو سلانے اور سمجھانے میں بہت دشواری ہوئی مگر وہ سمجھ گیا اور آخر کار سوگیا۔ا سے نیند آ گئی۔میں نے اسے تھپک تھپک کرسلا دیا تھا۔وہ مرا نہیں صرف سویا۔کبھی کبھی بے لگام ہونے لگتا ۔میں اس سرکش گھوڑے کو لگام ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی ۔ ان کے پیغامات بھی آنے بند ہو گئے ۔میں بھی غم روزگار میں کھو گئی ۔دو سال بعدپھر ان کے پیغامات آنے لگے ۔ یہ پیغام سوچ میں ڈال گیا
؂ شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
بہت دیر سوچا جواب دوں یا پہلے کی طرح خاموش رہوں۔کچھ دیر میں اس شش و پنج کا شکار رہی ۔ آخر فیصلہ کر کے جواب دیا’’کون ؟ میں نے پہچانا نہیں۔‘‘
اس کے بعد ان کا کبھی کوئی پیغام نہیں آیا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے