دھول ہے اور زندگی تک راستہ پْرخار ہے
اس لئے اس سے نبھانا عشق بھی دشوار ہے
کیا عجب، بے خوف ہم خوابوں کی وادی میں ملیں
کون سی جنت ہے یہ جو بے در و دیوار ہے
دل میں سڑ جائیں گے بکنا ہے تو بس نہ صبر کر
آ چلیں اب حسرتوں کا گرم ہی بازار ہے
لٹ گئے جب روشنی میں گھر کی چیخیں نا سنیں
اب سرِ کوچہ جو واویلا کریں بے کار ہے
بولتا جب ہے مقرر کرتا ہے قدرِ سکوں
درد کی اپنی زباں اپنا الگ اظہار ہے
میں تو شورِ موج سے ہی سیکھتا ہوں زندگی
میں نے خاموشی کے مکتب سے کیا انکار ہے
بندگی نے روح کی آنگن کو ویراں کر دیا
کون جانے یہ گھڑی ماتم ہے یا تہوار ہے
اب بھی بارکوال! زندہ ہے غرورِ نرگسی
مدتوں سے خود میں بے چارہ پڑا بیمار ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے