محض کسی ایک روز کے اخبار کو دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ ہمارا وطن اب مکمل طور پر ایک قتل گاہ بن چکا ہے۔کہیں سیاسی اختلاف پر قتل و قتال جاری ہے ۔ کہیں ننھی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کیا جاتا ہے، کہیں چور ڈاکو قرار دے کر دکاندار ‘اہلِ محلہ اورراھگیر مل کر کسی کو مار مار کر قتل کررہے ہیں۔کہیں چھ بچوں کی ماں کو سیاہ و سیاہ کاری میں قتل کیا جارہا ہے، کہیں سسرالیوں نے خاتون کو زندہ جلاڈالا۔ اسی طرح سہونڑ شریف کا دربار سینکڑوں جیتے جاگتے دکھی انسانوں کا مقبرہ بنا، درگاہ نورانی ‘زمانے کے ستائے ہوئے بے کس و نادار مردوں عورتوں کا قتل گاہ بنا۔
لوگوں نے اس بات کولائسنس جان لیا کہ لباس ، گفتار یا کسی اور حرکت کو جواز بنا کر روڈ پر‘ برسرِ عام‘ دوسرے شہری کو قتل کیا جاسکتا ہے۔
تو یہ ،(خود رویا منظم کردہ) عدم رواداری ، یہ عدم برداشت کہاں تک لے جائے گی؟ ۔یہ بے خوفی ، بے باکی، اوربے رواجی معاشرے کو کہاں لے جائے گی۔ آج ریاست صحت کی مفت سہولتیں نہیں دے رہی، مفت تعلیم نہیں دے رہی ، مال و عزت کی حفاظت نہیں کررہی۔۔۔۔۔۔ اور اب نوبت یہاں تک آگئی کہ اپنے شہریوں کو انصاف بھی نہیں دے رہی۔ زندگی ’’لینے ‘‘کی حتمی انتہا تک والا ریاستی اختیاراب پرائیویٹ لوگوں نے سنبھال رکھا ہے۔ یوں تو یہ اتھارٹی پہلے بھی سردار، جاگیردار‘ا ور بھوتار کے پاس تھی۔ مگر اب اُس میں توسیع ہوگئی کہ اب دو چار شخص کسی پر الزام لگاتے ہیں، پھر مجمع جمع ہوجاتا ہے اوروہ شخص قتل ہوتا ہے ۔ بے دردی کے ساتھ، بے رواجی کے ساتھ ، بے گناہی میں۔ اور پھر ساری روایتیں، ثقافتی اخلاقی معیارات اور مذہبی تعلیمات کو روندتے ہوئے ایک مردہ انسان کو برھنہ کردیا جاتا ہے ۔ اُس کی لاش پر ڈنڈے، اینٹیں، گملے چاقو چلائے جاتے ہیں، تھوکا جاتا ہے۔ اور اُس برہنہ میت کے ویڈیو لیے جاتے ہیں۔
یہاں پاکستان میں بسنے والی ساری قوموں کو اپنے کلچر پر فخر رہا ہے۔ اُسی کلچر کو مضبوطی سے تھام کرماضی میں اِن قوموں نے اپنی تاریخ کو دوام دے رکھا ۔
یہاں کے کلچر زمیں یہ بات شامل ہے کہ اُن میں بازاری پن نہیں ہوتا۔ ہلکا پن نہیں ہوتا۔ ہر قدم ایک متعین کوڈ کے مطابق اٹھتا ہے۔ معاشرہ کو، کلچر قوانین اور کوڈز بہت سختی سے چوکھاٹ میں رکھے ہوتے تھے ۔ مثلاً کلچرمیں یہ بات تھی کہ کسی بے گناہ کو قتل کرنا جرم ہے۔ اوراگر اُسے قتل کردیا تو یہ لازمی ہے کہ اسے کم سے کم ضربوں یا گولیوں سے قتل کیا جائے۔ بزدلی تصور ہوتی ہے کہ اگر کسی کو غیر ضروری گولیاں مار دی جائیں۔ لاش کو دھوپ میں نہیں چھوڑا جاتا تھا، اُسے کھینچ کر سایہ میں ڈالنا بہادری تصور ہوتا تھا ۔ پھر اُس لاش کے ہاتھ پاؤں برابر کرنے لازمی ہوتے تھے۔ اُس کی آنکھیں بند ہوں، اس کا منہ بند کیا جائے تاکہ بعد میں بدصورتی نہ ہو۔ یہ بات بھی یقینی بنائی جاتی کہ اُس لاش کو درندوں وغیرہ کے کھانے سے بچایا جائے ۔ چنانچہ کسی قریبی راہرو یا خیمہ والے کو لاش کے بارے میں بتانا لازمی تھا تاکہ جب تک اُس کے ورثاء نہیں پہنچتے اُسے گیدڑوں بھیڑیوں سے بچایا جائے۔
مگراب ہم دیکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا کے اُلٹ عمل ہوتا ہے۔کیا پشتون معاشرہ کے عین قلب مردان یونیورسٹی میں مشعال کا قتل کسی بھی کلچرل کو ڈ پہ پورا اترتا ہے؟ ۔نہیں ناں؟ ۔ اور یہ کسی ایک فرد نے نہیں کیا تھا، نہ ہی کسی اَن پڑھ او ررسوم و کلچر سے ناواقف لوگوں نے کیا تھا ۔ بھئی یہ قتل یونیورسٹی کے طلبا ، کلرکوں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ نے کیا تھا۔
تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ کلچر ناکام ہوگیا؟۔
اب آئیے سیاست کی جانب ۔ خطہِ مردان عام علاقہ نہیں ہے ۔ یہ ادبی اور فکری تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔سنگین و متین سیاسی تحریکیں یہاں پیدا ہوئیں اور یہیں سے پھیل کر پورے صوبے میں وسعت یافتہ ہوچکی ہیں۔ پھر بہت بڑی سماجی تحریکیں یہاں سے اٹھی ہیں۔ اُس صوبے میں جتنی بھی طبقاتی جنگیں ہوئیں سب کا مرکز یہی نہری زرعی علاقہ رہا ہے۔ کیا یہ سب تحریکیں اور اُن کی تعلیمات بھی اب کار گرنہ رہیں؟۔
معاشرے علم اور تعلیم کی اہمیت ہی اس بات میں دیکھتے ہیں کہ علم وحشت کی فیکلٹی کا دم گھونٹتا ہے ۔ یہ انسان کو استدلال کی دولت سے مالامال کرتا ہے۔آدمی نرم دل اور نرم خو بن جاتے ہیں۔ مزاج کی درشتگی کی درستگی ہوجاتی ہے۔تو کیاکالجوں یونیورسٹیوں میں آئے دن کے بے رحمانہ قتل کہیں یہ بات تو نہیں ثابت کررہی کہ یو نیورسٹی ، کالج، سکول،اور مدرسہ وحشت کم نہیں کرتے، بڑھاتے ہیں؟۔ثابت ہوا کہ محض خواندگی یا ڈگری‘ نجات دھندہ نہیں۔ اب یہ اضافہ لازمی ہوگیا ہے :’’منظم سیاسی جدو جہد کے ذریعے تفکر نامی پراسیس تعلیم کا لازمی جزو بنے‘‘۔
پوری تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی ارتقا میں ریاست کی تشکیل ایک ارفع ترین مرحلہ تھا۔ ریاست ہی اپنے شہریوں کو سز ا و جزا دینے کا اختیار رکھنے والا واحد قانونی آئینی ادارہ ہے۔ ایک ریاست اپنے شہری کو ضمانت دیتی ہے کہ وہ اس کی عزت آبرو، مال جائیداد اور صحت و زندگی کی حفاظت کرے گی۔ لہٰذا شہری خود اسلحہ نہیں اٹھائے گا بلکہ اپنے ٹیکس کے ذریعے اپنے لیے مسلح مدافعین کے ادارے تشکیل دے گا۔ جن کو فوج، نیم فوج، پولیس اور لیویز کہا جاتا ہے۔ تو پھر کوئی غیر ریاستی قتل دِن دھاڑے ایک ایٹمی ریاست کے اندر کیوں ہو؟۔
ریاست کا ایک دوسرا ادارہ عدلیہ کے نام سے موجود ہوتا ہے۔ اس غیر جذباتی اور حتمی طور پر آئین اور قانون پہ چلنے والے ادارے کا کام اپنے شہریوں کو مفت، اصل، اور تیز رفتار انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے ۔گوکہ ہمارے کمزور عدلیہ کا کام شروع دن سے پیر ‘ وڈیرہ ، سردار حتیٰ کہ ڈاکوؤں کے سربراہ کرتے چلے آئے ہیں۔ مگراب تو اِس کا کام متشدد نفسیاتی ساخت کے’’ شہری لُمپن عناصر‘‘ نے عدل اپنے ہاتھ میں لے لیا، گلی میں ۔ایسا انصاف جس میں پوچھ گچھ نہیں ہوتی، جینوئن گواہ نہیں ہوتے، ڈاکو منٹ نہیں چلتے، اور صفائی کا موقع تو بالکل نہیں ملتا ۔ فوری فیصلہ ، وہیں کے وہیں۔۔۔۔۔۔ ڈنڈے کے زور پر ۔
پورا معاشرہ سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔کیا پوری ریاست، اُس کے شہری، اُس کے اندر موجود ادارے اور بحیثیت مجموعی پورا سماج ناکام ہوا؟۔ یعنی کیا صدرو وزیراعظم، گورنر و وزیراعلیٰ، وزیر و ایم پی اے اور لوکل باڈی کے ممبرز، اسی طرح جنرل بریگیڈیئر ، آئی جی ، ایس پی، چیف سیکرٹری ، ہوم سیکرٹری ، کمشنر اور ڈی سی او پر مشتمل ریاستی ادارے ناکام ہیں ؟۔ اسی طرح کیاسماج میں موجود روحانی شخصیات، شعر و ادب ، پندو نصیحت کا سارا بالائی ڈھانچہ بھی لاچارہوچکاہے؟۔ اسی طرح رسم و رواج و کلچر کے قیود ، قوانین کی شقیں بھی پئے درپئے واقعات میں کسی طرح کی کمی لانے کا باعث نہیں بن رہے؟۔
اور سب سے بڑی ناکامی (سماجی) یہ ہے کہ لوگوں کو کسی مبینہ جرم پراز خود سزا متعین کرنے اور اُس پہ عملدرآمد کرنے کاجرم کرنے کے بعد اِس بحث میں ڈال دیا جاتا ہے کہ مقتول قصور وار تھا یا نہیں۔حالانکہ بحث تو یہ ہونی چاہیے کہ ریاست کدھر تھی؟۔ پولیس و ملیشیا کہاں تھی ؟۔اے سی ڈی سی کہاں تھے؟ میئرو ایم پی اے کہاں تھے ؟ ۔۔۔ اور عدلیہ کہاں تھی؟۔
اُس سے بھی بڑی بحث یہ ہونی چاہیے کہ کہیں ریاست خود بھی وہی کچھ تو نہیں چاہتی جو mobکرتی پھرتی ہے؟۔
علاج کے لیے تو سب سے پہلے اسباب کی معلوم داری ضروری ہے ۔ ہمارے اِس سماجی عدم برداشت اور عدالت سے باہر، ہجوم کی طرف سے فیصلہ بازی اور اُس فیصلے پر ترت علمدرآمد نامی بیماری کے بے شمار اسباب ہیں۔ہم ڈیڑھ سوبرسوں سے کسی نہ کسی صورت عقیدہ کو سیاست میں شامل کیے چلے آرہے ہیں۔ باچا خان نے دینی مدرسے کھول کر اپنی سیاست آگے بڑھائی تو ضیاء الحق نے سکول کو مدرسہ بنا کر سکو ل و مدرسہ کی دوری ختم کر ڈالی ۔کلچرل سرگرمیاں روایت وروایت پرستی کے آگے ہتھیار ڈال کر اُس کے لیے جگہ خالی کر تی رہیں۔ پچاس برس قبل جب افغانستان میں ضیا، سعودی اور امریکہ کی سوچیں ایک نکتہ پر مرتکزو مرکوز ہوئیں تو پھر تو خرد دشمنی ، دلیل کُشی اور مباحثہ بندی کانصف صدی ہمیں جھیلنا پڑا ۔ ہماری سماجی زندگی کے اندر ماضی اور روایت ڈال دی گئی اور روایت میں جنگی سوچ انڈیل دی گئی۔ پہلی جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی تک کا نصاب اسی طرح ڈھال دیا گیا ۔
معالج کون ہے ؟۔ معالج ایک ہے : ریاست ۔ ریاست کے بارے میں ہمارے آپ کے جو بھی خیالات و نظریات ہوں، آپ بے شک حکومت سے مخالفت یا حمایت میں ہوں، یا جب بھی ریاست کے قوانین ، طریقہ ہائے کار حتی کہ خود ریاست کو بدلنے، یا بالآخر صدیوں بعد اِسے مکمل طور پر ختم کرنے کا نظر یہ رکھتے ہوں مگر آج، اگلے دس بیس، حتیٰ کہ اگلے سودو سو برسوں تک امریکہ ہو یا روانڈ ا، بھاولپور ہو یا قلات ہزاروں برس قبل وجود میں آنے والا ادارہ یعنی ریاست شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی واحد ذمہ دار ادارہ رہے گی۔ آیئے، ہردم ریاست کو اُس کے اصل کام ، اصل فرائض کی انجام دہی سے بھاگنے نہ دیں ۔
ریاست میں چار ادارے شامل ہیں: 1۔پارلیمنٹ ( اور یوں اکثریتی پارٹی کی کا وزیراعظم اور کابینہ)،2۔ فوج، 3۔ عدلیہ اور 4۔بیوروکریسی۔ شہری کے جان ومال کے تحفظ سے لے کرپیراسٹامول کی گولی تک مہیا کرنا اِن چار اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ چنانچہ ہر سماج ہر لحظہ خبردار رہتاہے تاکہ ریاست کو اپنے بنیادی فرائض سے بھاگنے نہ دیا جائے۔ ریاست خواہ بورژوا ہو، نیم بورژوا ہو‘ یا نچلے طبقات کی، یہ اُسی کی ذمہ داری ہے کہ اُس کی پارلیمنٹ آئین سازی اور ریاست کی عمومی راہنمائی کرتی رہے ، اُس کی فوج سرحدوں کی حفاظت کرے، اُس کی پولیس داخلی امن کا انتظام کرے، اُس کی عدالت فیصلے کرے اور اُس کی بیوروکریسی اِن تین اداروں کی مدد کرے۔
لہٰذا گلی کے ہجوم کو کوئی حق نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ کرے، اُس فیصلے پر عمل درآمد کرے۔
****
بیگُل
ؒ بلوچی زبان تخلیقی لکھاری تو ویسے ہی بہت کم ہیں۔ بالخصوص مزاح نگار تو دو تین سے زیادہ نہیں ہیں۔ بیگ محمد بیگل اُن کا سرغنہ تھا۔ وہ بھی اب نہ رہا۔
کمال رائٹر تھا ۔ ایسا مزاح نگار جس میں ہلکا پن، پھکڑ گیری اور حقارت کے جراثیم موجود نہ تھے۔ وہ ایسے سنگین و سنجیدہ نصف صدی کے زمانے کا لکھاری رہا جب بلوچ سماج اور بلوچی زبان معاندانہ دانتوں کے بیچ زبان کی مانند خود کو گزند پہنچانے والوں سے خبردار، احتیاط اور سست مگر مسلسل رفتار سے چلتے رہنے کی پل صراتی کررہی تھی۔بیگل نے سماج کے سنجیدہ و پیچیدہ معاملات کو مسکراہٹوں کاtransparentلباس پہنا کر یوں پیش کیا کہ بات بھی پہنچے اور شر سے بھی بچا جاسکے۔
صرف عمومی بلوچ سماج ہی ہچکولوں میں نہ رہا بلکہ اُس کا اپنا لیاری تو سونا می کی زد میں رہا۔ پُرہیبت کاروائیاں ، وحشت بھرا قتلِ عام۔ اوپر سے بالائی طبقات کا سارا ملبہ غریب پہ۔ ایسی قیامتی صورتحال کا حصہ ہوتے ہوئے بھی وہ اس پہ پھبتیاں کس کر، اس پہ تمسخر نما تبصرے کرکے اُس کی گھمببیری اور مہیبی کو واضح کرتا چلا گیا۔ ہنستے ہنستے ، بنا بوجھل بنائے وہ اپنے قاری کو وہ بات سمجھا دیتا ہے جو بات ساری بات کے اندر کا جوہر تھی۔
البتہ وہ اِس سارے پیراڈائم کا حصہ بنتے ہوئے بھی کوئی خاص موقف نہیں اپناتا۔ متحارب قوتوں سے بے نیازی اُسے نظریات کے میدانِ جنگ سے دور رکھتی ہے۔ ’’بے سیاست‘‘ بیگل۔
زنڈیں دپار،جوکر ،اور،برزخ اُس کی کتابوں کے نام ہیں۔خود اُس پہ کتاب کون لکھے گا؟۔