کچھ
میرے بائیں بازو کے دوست
نطق پر ، ذہنوں میں اِن کے
دُنیا کا ہر تجزیہ
اور ہر تجزیہ
ٹھیک، سچاّ
مگر خوں میں اِن کے حرارت نہیں
آگ جلتی نہیں ہے
خلاف اِتنی دَولت کے
دیوں لُوٹی ، ماری ہوئی)
حقِ میں غُربت کے
(یوں کچلی ، نُچڑی ہوئی)
ہاں یہ اَقوام اور اَزمَنہ،
فکریات و مذاہب،
سیاسی کہ فوجی حکومت،
کے لبرل مباحث میں
طنز اور گرمی سے ہٹتے نہیں
لیکن اصل مصائب ، معاشی مسائل
(قدیمانہ سرداری، جاگیرداری ، قبائل)
میں تو نِصف
(باقی کا نصف اُکھڑے ، اُلٹے دلائل)
سے آگے یہ پَِٹتے نہیں
گفتگو اُوپری، ٹھنڈی
(رَنج کوئی نہیں)
لہجہ پھیکا
ترازو میں ہر بحث کے
سب ، صحیح اور توازن میں
دونوں طرف سے قبول اور برداشت میں
(اِس کو معروضی کہتے ہیں یہ !۔)
مساوی سماج
اور ترقی
کا وہ۔۔۔۔۔۔
انقلابی معاشی نظریہ
پڑھا جو اُنہوں نے
نہ جانے کہاں اُن کے ذہنوں میں
کِس طرح منتج ہوا
اِن کو سسٹم کی ٹھنڈی ہوا کا
کوئی مست جھونکا
لُبھاتا ، پسند آتا رہتا ہے شاید
حیات اپنی
اپنا سکوں
رات دن
اِن کو سب سے بُلند
اور سب سے علیحدہ ہی
تلواتا رہتا ہے شاید!۔