اِک عجیب سا۔۔اپنی نوعیت میں بالکل مجرد قسم کا مقدمہ درپیش تھا۔۔۔ مجرم بھی انوکھے تھے ۔۔۔اور اُن پر الزام کی نوعیت بھی ۔۔۔ ایک ماں اور اُس کی اولاد سب کے سب ملزم بنے سرجھکا ئے کھڑے تھے اِس پُر شکوہ دربار میں ۔۔ہیبت وجلال کا یہ عالم تھا کہ سرمایوسی سے جھکے ہوتے تھے !۔
مقدمے کی نوعیت بھی تو کتنی انوکھی اور نیاری تھی کہ اِک انبو ہ کچھا چلا آیا تھا سماعت کو ۔۔۔یاپھر یہ انبو ہ کو لازم تھا کہ آج اِس میدان میں اِس مقدمے کا فیصلہ سننے کو وہ حاضر ہوں!۔
سب سے پہلے آواز عدالت بی بی کی لگائی گئی۔۔ حکم حاضری حیرت کہ عدالت بی بی بھی کسی اعلیٰ دربار میں حاضر کردی گئی تھی۔۔۔ یہ کونسا دربار تھا۔۔ یہ کیا میدان حشر تھا۔۔۔ اِک ہجوم بیکراں میں پتہ بھی کیا چلتا تھا۔۔۔ہر بدن پہ لرزہ طاری تھا ۔۔کس کو اندازہ تھا کہ کب چشم تصور نے یہ سوچا تھا کہ عدالت بی بی کو بھی کسی ماورائی عدالت میں حاضر ہونا ہوگا!۔
عدالت بی بی پہ فرد جُرم جو عائد کی گئی وہ بصارت کے استعمال کی تھی۔۔
عدالت بی بی سرجھکائے اِس دربار اعلیٰ میں مجرموں کی طرح کھڑی تھیں، یہ منظر بھی آنکھوں کو دیکھنا تھا۔۔
اِک پُر نور، طلسماتی طور پہ گوبختی ، اپنے ماخذ کا پتہ نہ چھوڑتی آواز نے پو رے ماحول کا احاطہ کرتی آوازنے جب سوال کیا تو سرا سیمگی اور خوف کی اک عجیب برقی لہر دور تک پھیل گئی۔ سوال سن کر عدالت بی بی کا سرمزید جھک گیا۔
سوال تھا ’’عدالت دیوی جی آپ کی آنکھوں پہ پٹی اِس لیے باندھی گئی تھی کہ آپ کو بصارت چھوڑ کر بصیرت اِستعمال کرنے کے ہُنر سے آراستہ کیا جاسکے۔۔ فیصلہ بُرہان وبصیرت کی بنیاد پر کرنے کا حکم بھی لگاتھا آپ کو ۔!آنکھوں کے تعصب سے بچنے کا حکم دیا گیاآپ کو! متنعبہ کیا گیا تھا کہ یہ آنکھیں رنگ ونسل ، مذہب اورجنس اپنے وپرانے کی نیرنگی میں کھو کر بصیرت پہ اثر انداز ہوں گی۔ سوآپ کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی گئی تھی!۔
آپ پہ یہ جُرم ثابت ہوچکا کر آپ نے بصیرت کی بجائے اپنی چشم گناہ گار کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے اورفیصلے کو شرمسار کیا!۔
کیا آپ کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ ہے؟
عدالت بی بی کی چشم گناہ گار ندامت کے پانی سے ترتھی ، مزید جھک گئی!
کہنے کو کچھ بھی نہ تھا۔۔
اِنسانیت سوز فیصلوں کی ، جنگی جرائم میں فریق بننے کی ، نا انصافی کے ہر فیصلے کی اِک فلم تھی جو سامنے چل رہی تھی!۔
عدالت بی بی کو اُس کی تمام آل اولاد سمیت کچھ بُراسرار سے سیاہ پوش گھیسٹ کر کسی تاریک سمت میں لے گئے!۔
اَب باری مقننہ بی بی کی تھی، مقننہ بی بی کو قانون میاں کے ساتھ حاضری کا حکم تھا!۔
عجیب مقدمہ تھا، محض۔۔۔ صِرف بصارت کے اِستعمال پہ قائم ہوا تھا۔۔۔۔ فقط حساب بصارت اور مدعا علیہ چت۔۔ جو باقی حسیات بھی شامل نصاب ہوتیں تو پھر کیا ہوتا !اور کیا وجہ تھی کہ باقی ملزمان کی بجائے مقننہ کی اولاد قانون کو بھی ملزم بنا کر حکم حاضری تھا!۔
مقننہ پہ بھی استعمال بے جا بصارت کا تھا۔۔ مقننہ کی آہو چشم پہ الزام عائد کیا گیا کہ کیسے اُن آنکھوں نے امتیاز کرنے کی جرات کی ، کیوں لوگوں میں تفریق کی اور ایسے قانون کو جنم دیا جو اندھا نہیں تھا۔۔ سب کو برابر کی ایک لاٹھی سے نہیں ہانکتا تھا۔
الزام قانون میاں پہ بھی یہی تھا کہ اُس کو آنکھوں کے استعمال کی جرات کیوں کر ہوئی جبکہ اُس کے اندھا رکھنے کا مقصد یہی تھا کہ وہ اپنی باقی حسیات کو کام میں لاکر انسان وحیوان ناطق میں امتیاز کر کے بنی نوع انسان کو تحفظ اور قانون کی بالادستی کا سکھ دے ۔ ۔۔ ۔
مقننہ پہ فرض تھا کہ ایسا قانون جنم دیتی جو انسانوں میں تمیز کرنے کو اندھا رہتا ۔۔۔کسی نسلی ، جنسی ، ملکی ، مذہبی تعصب کے بغیر لوگوں کے لیے برابر ہوتا!۔
مقننہ اور قانون کے پاس ان الزامات کے دفاع میں کہنے کو کچھ بھی نہ تھا۔ اُن کے اعمال نامے سامنے چل رہے تھے اِک دیوبیکل سکرین پہ۔ ۔ اور وہ دونوں اپنے عرق ندامت میں ڈوبے کھڑے تھے ۔۔مقننہ سے جنم لینے والے اک سے اک ظالم قانون کی تفصیل وتاریخ بتلائی جارہی تھی۔۔۔ ملزم مجرم ثابت ہوگئے تھے۔ مقننہ وقانون میاں کے پیچھے قانون سازوں ، وکیلوں ، گواہوں کا اک انبوہ کھڑا تھا جن کو کچھ پُراسرار سیا ہ پوش گھسیٹ کر کسی تاریک سمت میں لے جارہے تھے!۔
اک باری منتظمہ رانی کی تھی۔ ۔ مگرآ ج رانی جی اپنے جاہ وجلال کو جیسے کہیں رکھ کر بھول آئیں تھیں! دربار میں تخت وتاج ، دستار وپوشاک کی شاید ممانعت تھی۔ سورانی جی آج بڑی عام وعوامی سی دکھائی دے رہی تھی۔ کہاں جاہ وجشم کا یہ عالم کہ اپنے اِرد گرد اپنے آئینے میں سوائے خود کے کچھ دِکھائی ہی نہیں پڑتا تھا۔
اور جو دکھتا تھا وہ حقیر مکوڑوں سے بھی کمتر تھا! ۔
مقدمہ والزام منتظمہ رانی پہ بھی بصارت کا ہی تھا۔
وہ بصارت جو اپنے جاہ وحشم و غرور کی نذر ہوگئی
منتظمہ رانی کو شیر وانیوں ، ساڑیوں ، پو شاکوں دستاروں ، ملبوسوں کے رنگ کے انتظام نے عمر بھر اُلجھائے رکھا!۔
یہ معاملہ منتظمہ رانی کی ساری تاریخ میں اہم رہا کہ کس رنگ ڈھنگ کا لباس کس عمر و موقع پہ استعمال ہوگا!۔ اور آج وہی رانی جی عوامی رنگ میں بالکل قدرتی اور فطری لگ رہی تھی اور مقدمے کے لیے مزید سوال وجواز فراہم کرتی تھیں کہ بھلا ملبوس اِتنے اہم کیوں رہے تمام تاریخ میں ‘‘۔!۔ مگر مقدمہ محض بصارت کا تھا!۔
حیف صد حیف ایک خاندان کے تین افراد بصارت کے الزام میں دھرے گئے ۔!
’’بصارت ‘‘ کا شکار ہوئے اور مجرم ٹھہرے !۔
منتظمہ رانی پہ الزام تھا اور اپنی نوعیت میں شدید وسنگین تھا کہ اُنکے راج پاٹھ میں یہ سب کیو نکر ممکن ہوا۔۔۔ قانون میاں کی کمیوں کجیوں سے وہ اپنی تنظیمی حکمت سے نمٹ سکتی تھیں مگر اُنکی بصارت تعصب کا شکار رہی۔۔۔۔ قانون دان ۔۔قانون ساز سب ان کی آنکھ کا بال بنے رہے!۔
اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ اُن کے راج میں، انتظام وانصرام میں متعصب بصارت کا ستعمال کیوں کر ممکن ہُوا۔‘‘
قانون کو کیسے جرات ہُوئی کہ وہ اپنی آنکھوں کی پٹی اُتار کے امتیازی نگاہ استعمال کرے!۔
اِس اِلزام پہ منتظمہ رانی ندامت سے سرجھکائے ملزم کے کہٹرے میں کھڑی تھیں!۔
سامنے تاریخ مجسم ہوئی پردہ سکرین پہ تھرک رہی تھی کیسے حاکم اپنی رعونت میں فرعون بنے کھڑے تھے! فرعونوں نے خدائی دعوے کر دیے!۔
فرعون غرق آب ہوئے!۔
مگر ہر عہد میں فرعون منتظمہ رانی کی صورت پیدا ہوتے رہے!۔
اِلزام کے جواب میں مجرم خاموش تھے۔۔۔ آج آنکھیں وہ سب دیکھ رہی تھیں جو شاید بہت اخفا رکھا گیا تھا!۔
سیاہ پوش منتظمہ رانی کے پیچھے کھڑے اپنے اپنے وقت کے سب بادشا ہوں کے گروہ کو ۔۔اُن کی لاؤ لشکر کو اندھیروں میں لیکر چلے گئے!۔
آب اِس خاندان کے آخری اور سب سے معتبر فرد کی باری وحاضری تھی!۔
اور اِس کا پتہ اِس دربار میں پھیلی سرا سمیگی سے بھی چلتا تھا۔
اِک عجیب سی ہلچل تھی۔۔۔ عجیب بے چینی ۔۔ہراس پھیل رکھا تھا کہ کون حاضر ہوا چاہتا ہے!۔
اِن تین مجرموں کی ماں کو ۔۔اِن کی پالن ہار کو اِس مقدس دربار میں بُلایا گیا تھا ! ۔
ریاست بی بی اَب دربار میں حاضر تھی اور اس طرح حاضر ہوئی تھی کہ اُس کے پیچھے ایک شخص اِک گٹھڑی سی اُٹھائے چلا آتا تھا!۔
ہر نگاہ میں حیرت و استعجاب پھیل گیا کہ ریاست بی بی کے پیچھے اِس گٹھڑی میں کیا تھا! ۔
حیرت ومقام تا سف کہ ماں اور اولاد پہ مقدمہ محض اور محض بصارت کا ہُوا تھا۔۔۔ اور تب بھی حصّے میں صرف مات آئی تھی!۔
اُسی گوبختی ، گھیرتی ، پھیلتی او رہر گوشے سے پھوٹتی ندا نے استفسار کیا
’’ہاں تو ریاست بی بی ، اِس خاندان میں صرف ایک آپ ہی تھیں جن کو ایک آنکھ عطا کی گئی تھی۔ ۔۔ صرف ایک آنکھ ۔۔۔۔ تاکہ آپ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں۔۔۔ گر آپ اپنی نگاہ کو ایک رکھتیں ۔
اِیک آنکھ سے سب کو اِیک نظر سے نوازتیں تو آپکی اولاد آج یوں آپ سمیت کٹہرے میں کھڑے نہ ہوتی !مگر آپ نے کیا کیا ؟؟‘‘
پیچھے کھڑے اِک سیاہ پوش کارندے نے کسی خود کار نظام کے تحت ہاتھ میں پکڑی گٹھڑی ریاست بی بی کے ہاتھوں میں تھمادی!۔
’’ یہ دیکھیے اپنا نا مہ اعمال ۔۔ اِس گٹھڑی میں وہ سب ٹوپیاں ہیں جو آپ نے پہنے رکھیں۔۔‘‘
گٹھڑی میں بہت سے رنگوں کی مختلف ٹوپیاں ہیں۔۔۔سبز رنگ ۔۔لال رنگ۔۔۔۔ زرد ۔۔۔سیاہ ٹوپیاں ہی ٹوپیاں۔۔۔
ریاست بی بی نے اِن ٹوپیوں کو دیکھا اور سر ندامت سے جھکا لیا ۔
آواز پھر گوشے گوشے سے پھوٹنے لگی
’’ آپ نے اپنی ایک آنکھ کو اِن ٹوپیوں سے ڈھک لیا۔ سر پہ ٹوپی دھر اپنی آنکھ میں وہی رنگ بسالیا۔
پھر وہی آپ کے مقرب ٹھہرے جو اِس رنگ میں رنگے گئے۔
آپ نے اپنی نگاہ کو رنگین کیوں کیا؟۔۔۔اِک رنگ میں خود کو رنگ کر لوگوں پہ ڈال کر سب کچھ کیوں تلپٹ کر دیا؟اپنے پرائے کی، دشمن کی لکیر۔ ۔۔۔ نا پاٹنے والی لکیر کھڑی کردی۔۔ ؟ آپ کو ایک آنکھ اِسی لیے عطا کی گئی تھی کہ آپ کے سر پہ نہ کوئی ٹوپی ہوگی، نہ دستار اور نہ کوئی چشمہ ٹھہر سکے ۔سو ریاست بی بی مقدمہ بصار ت کی سماعت مکمل ہوئی ۔ آپکو مات ہوئی!‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے