سندھی سے ترجمہ

شام سے مسلسل بارش ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ سردیوں کی گونگی بارش۔۔۔۔۔۔ اْوپر سے شمال کی طرف سے آ تی ہوئی ہوا گویا کہ سینہ چیر رہی تھی۔ رات کے آ خری وقت میں خنکی میں مزید اضافہ ہو چْکا تھا مگر وہ دونوں اس سردی سے بے نیاز اپنے عالیشان بنگلے کے کمرے میں ٹیلی ویژن پر فلم دیکھنے میں مصروف تھے۔ کمرے کے دروازے پہ دستک ہوئی۔ ’’یس‘‘ کہنے پر نوکر دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا، جس کے ہاتھوں میں بارشمیں بھیگا ہوا ایک کْتا بھی تھا۔ بیگم صاحبہ نے کْتے کو دیکھ کر بیڈ سے چھلانگ لگاتے ہوئے نوکر کو کہا ’’یہ کیا ہے؟ نان سینس! موتی بارش میں کیسے بھیگ گیا؟‘‘
’’بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔!‘‘ نوکر نے بات شروع کی۔ ’’حقیقت میں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بس بس۔۔۔۔۔ میں کْچھ بھی سْننا نہیں چاہتی۔‘‘ اْس نے وضاحت سے پہلے ہی ڈانٹ کر اْسے خاموش کرا دیا۔ موتی کے ریشم جیسے سفید اور نرم بھیگے بالوں میں ہاتھ گھْماکے شوہر سے بولیں:
’’شوکت! مْجھے تو ڈر ہے کہ کہیں یہ معصوم بیمار نہ ہو جائے۔‘‘
’’واقعی! کیوں باہر سردی بھی زیادہ ہے اور بے چارہ کانپ بھی رہا ہے۔‘‘ شوہر نے تائید کی۔
’’تْم یہاں ہمارا مْنہ دیکھ رہے ہو! جاؤ، جلدی تولیہ لے آ ؤ۔‘‘ صاحب نے نوکر کو ڈانٹا۔
تولیہ آ یا تو بیگم صاحبہ موتی کو لپیٹ کر ہیٹر کے پاس لے گئیں۔ ہیٹر کی گرمی ملتے ہی کْتے کی کپکپی کم ہونے لگی۔ اب وہ آ ہستہ آ ہستہ بھونک رہا تھا۔ کْچھ دیر کے بعد ایک مرتبہ پھر کمرے کے دروازے پہ دستک ہوئی۔
’’کون ہے؟‘‘ صاحب نے پْوچھا۔
’’صاحب!۔۔۔۔۔ میں ہوں۔۔۔۔ کرموں۔۔۔۔!‘‘
’’بابا! اب کیا ہوا؟ اندر آ ؤ۔‘‘
وہ اندر آ تے ہی گردن جھْکائے کہنے لگا ’’سائیں!۔۔۔۔۔ سائیں وہ۔۔۔۔‘‘
’’ہاں بابا کہو کیا مسئلہ ہے؟‘‘ بیگم صاحبہ نے ریموٹ سے ٹیلی وژن کی آ واز کم کرتے ہوئے پوچھا۔
’’سائیں! بنگلے کے باہر کافی دیر سے ایک آ دمی کھڑا ہے، بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اْس کی طبیعت بڑی خراب ہو گئی ہے اور سردی کی وجہ سے تھر تھرا رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘
’’تو پھر۔۔۔۔۔! بابا مطلب کی بات کرو، آ خر ہم اْس کا کیا کریں؟‘‘ صاحب نے کسی قدر غصے میں اْسے کہا۔
’’فلم کا مزہ ہی کرکرا کر دیا۔‘‘ بیگم صاحبہ بڑ بڑائیں۔
’’صاحب! اْس نے دو تین مرتبہ مدد کے لئے بھی پْکارا ہے۔۔۔۔ شاید کو ئی بھولا بھٹکا مسافر اور۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اپنی تقریر بند کرو، یہ کو ئی مْسافر خانہ نہیں ہے جو یہاں ہر کسی کو پناہ دیتے پھریں اور ہاں! اْس سے کسی قسم کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگ خطرناک بھی ہوتے ہیں۔‘‘
نوکر جی سائیں کہتا ہوا دروازہ بند کرکے باہر چلا گیا۔
بیگم صاحبہ نے ریموٹ سے چینل تبدیل کیا۔ صاحب نے لیمپ کا بٹن بند کر دیا۔ گرم کمرے میں اْنہیں سردی کا ذرا بھی احساس نہ تھا۔ کمرے میں زیرو کے بلب کی مدھم نیلی روشنی پھیل چْکی تھی۔ البتہ باہر بجلی کی گرج چمک اندھیری رات اور تیز برسات کے ماحول کو خوفناک بنا رہی تھی۔ سڑکوں پر پانی نہریں بن کر مْسلسل بہہ رہا تھا جو کبھی بجلی کی چمک میں دکھائی بھی پڑ جاتا تھا۔
بھٹکا ہوا مسافر ابھی تک برسات کے پانی میں بھیگ رہا تھا۔ وہ پناہ کی بھیک مانگ رہا تھا مگر بدلے میں اْسے اپنی آ واز کی گونج سْنائی دیتی تھی یا آ س پاس کے بنگلوں سے آ نے والی کْتوں کے بھونکنے کی آ واز۔ اْس کا بھیگا جسم سردی میں ٹھٹھر رہا تھا۔ دانت کڑ کڑا رہے تھے۔ یوں ہی وہ ساری رات سْنسان راستوں پر پھرتا رہا۔۔۔۔۔ ہاں، ساری رات۔۔۔۔۔۔ ساری رات بارش برسنے کے بعد سحر ہوئی۔ بادل الوداعی گیت گاتے ہوئے ایک دوسرے سے بچھڑتے گئے۔ سْورج نے آ سماں کے لبوں پر لالی لگائی۔ پرندے پر پھیلائے اْڑنے لگے۔ کووں نے کائیں کائیں کرنا شروع کی۔ ہر سو اْجالا ہو گیا۔ درختوں کے پتے بارش میں دھلنے کے بعد صاف شفاف ہو گئے تھے اور بنگلوں کی دیواروں پر بوگن بیلا کے گْلابی، سفید اور پیلے پھول زیادہ کھِل اْٹھے۔
نوکر نے بیڈ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ صاحب کے یس کہنے پر دروازہ کھول کر ہاتھوں میں ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔ صاحب اور بیگم صاحبہ کو چائے دے کر بیڈ روم کے ایک طرف اخبار رکھ کر چلا گیا۔
کْچھ دیر بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ صاحب نے کریڈل سے رسیور اْٹھا کے ’’ہیلو‘‘ کہا تو ریسیور میں سے آ واز آ ئی ’’سر! میں حبیب بات کر رہا ہوں۔ چیئرمین صاحب نے گیارہ بجے میٹنگ رکھی ہے۔ آ پ کو اطلاع دینے کے لئے فون کیا ہے۔‘‘
’’اچھا۔ اوکے۔ میں آ تا ہوں۔‘‘
’’ڈیئر میں کب سے یہاں ڈائننگ ٹیبل پر آ پ کے انتظار میں بیٹھی ہوں اور آ پ ہیں کہ ٹیلی فون میں مصروف ہیں۔‘‘ بیگم صاحبہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’آ ئی ایم ویری سوری۔‘‘ صاحب نے کْرسی سرکائی اور ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئے۔ ’’آ فس سے ٹیلی فون تھا، کیا کریں اٹینڈ تو کرنا تھا ناں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، اب ناشتہ کریں، ورنہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘
’’ثمینا! ایک بات کہوں؟‘‘ صاحب نے سلائیس پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔ بیگم صاحبہ نے اْس کی طرف گھْورتے ہوئے کہا ’’ہوں۔‘‘
’’تم جب جب مْجھ سے خفا ہو کر بات کرتی ہو نا، سچ پْوچھو تو بے حد خوبصورت لگتی ہو اور جب تمہارا گْلابی چہرہ غصے میں سْرخ ہو جاتا ہے تو گْلاب کی سْرخ پنکھڑی جیسا لگتا ہے۔‘‘
’’اچھا پلیز، اب میری زیادہ تعریفیں نہ کرو اور ناشتہ کرو۔‘‘ ایسا نہ ہو کہ مْجھے پھر غْصہ آ جائے۔‘‘ بیگم صاحبہ نے تھوڑا مْسکرا کر کہا۔
یہ اچھا ہوگا اور میں تو خوش ہی ہوں گا۔‘‘ صاحب نے ہلکا قہقہہ لگایا۔
ناشتہ کرکے صاحب آ فس جانے کے لئے اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ گیا جو اْن کے بنگلے کے وسیع لان کے درمیان سے گْزرتی ہوئی نوکر کو ہارن سے گیٹ کھولنے کا حْکم دے کر ڈیفنس کے صاف سْتھرے روڈ پر چلنے لگی۔ صاحب کے بنگلے سے کْچھ فاصلے پر لوگوں کا ہجوم تھا جسے دیکھ کر اْنہوں نے گاڑی رْکوائی۔ پْوچھنے پر پتا چلا کہ وہ لوگ کسی لاوارث کی لاش پر کھڑے ہیں۔
اپنے کوٹ اور ٹائی کو درست کرتے ہوئے صاحب گاڑی سے اْتر کر لاش کے قریب جاکے کھڑاہو گیا۔ سردی کی وجہ سے اْس کا جسم سوکھ چْکا تھا۔اْس کی آخری فریاد شاید اْس کے حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اسی وجہ سے اْس کا مْنہ کھْلا ہی رہ گیا تھا۔ اْس کی کھْلی آ نکھوں سے چمک غائب تھی۔ صاحب نے اْسے دیکھ کر اپنا چشمہ اْتار کر دْکھ بھرے لہجے میں کہا ’’ویری سیڈ، بڑے دْکھ کی بات ہے۔ پتا نہیں کون تھا یہ آ دمی؟ مگر جو بھی تھا اس طرح بے دردی سے مرنا نہیں چاہیے تھا۔‘‘
’’رات اک اجنبی کی چیخیں سْنی تو تھیں۔ شاید یہی ہے اور برسات میں بھیگ کر سردی کی وجہ سے اس روڈ پر مرگیا ہے۔‘‘ ایک امیر زادے نے صاحب کو اس کے بارے میں معلومات دیں۔
’’اچھا! مطلب یہ کہ یہ شخص ساری رات بھٹکتا رہا ہے۔ اتنی سرد رات میں اس روڈ پر Oh my God!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ صاحب نے مْنہ پر بے خبری کا ماسک پہن لیا تھا۔
’’مْجھے افسوس ہے کہ ہم اس کی کْچھ مدد نہ کر سکے۔ اس کو کم از کم میرا دروازہ ضرور کھٹکھٹانا چاہیے تھا۔ میرے دروازے تو ہر مصیبت زدہ شخص کے لئے کھْلے ہوتے ہیں۔ آ پ سب کو تو پتا ہے کہ میں انسانی حقوق کی تنظیم کا ممبر ہوں۔ مْجھے تو تمام انسانوں سے محبت اور ہمدردی ہے۔ اْس کی آ ہ و پْکار میرے کانوں تک پہنچتی تو میں اس کو کبھی بھی مرنے نہ دیتا۔ یہ کل کی برساتی رات کا بڑا المیہ ہے۔ آ پ نے اس کو سہارا نہ یدیکر ظلم کیا ہے۔‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے