’’سنائی دینے والی وہ نطقی آواز یں جو زبان اور متصلہ اعضاء نطق کے باہمی عمل سے واضح ہوتی ہے۔ الفاظ کا مجموعہ اور انہیں باہم ربط وترکیب دینے کے طریقے جو کسی انسانی گروہ میں مستعمل اور سمجھے جاتے ہوں۔ خصوصاً جب وہ عرصے تک استعمال ہوتے رہنے کی وجہ سے مکمل اور مستقل ہوچکے ہوں ، زبان کہلاتی ہے‘‘۔
زبان مقرر علامات کا ایک ایسا مواصلاتی نظام ہے جس کی مدد سے کسی سماج کے افراد آپس میں مل جل کر کام کرتے ہیں، دویا دو سے زیادہ متکلم اور سامع کے وجود سے زبان پیدا ہوئی۔انسان کا ایک بہت ہی زیادہ قابل تعریف کارنامہ زبان ہی ہے، یہ اعلیٰ شعور اور بالیدگی کا مظہر ہے اس لئے انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے ۔
سائنس حیوان سے انسان کا ارتقاء مانتی ہے۔ ابتدا میں غوں غاں ، حیوانی غراہٹیں کرتے ہوئے رفتہ رفتہ نطق انسانی نے ارتقاء پایا ہے ۔ زبان صرف انسانی کاوشوں کی تخلیق ہے۔
دنیا میں بولی جانے والی7457زبانوں میں سے360زبانیں معدوم ہوچکی ہیں۔7097زندہ زبانیں ہیں جن میں سے نصف معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان زبانوں کی موت روز مرہ کی تمام زندگی کے تجربہ گا ہوں سے پھوٹنے والی دانش اور اس کے ابلاغ کی موت ہے۔ تکثیریت اور برداشت محدودیت اور شکست میں منقلب ہو کر ہمہ گیر مایوسی پر منتج ہوگا۔ انسان کی سوچ زبان کے ذریعے ہی اظہار پاتی ہے۔ زبان کی جڑماں کی مامتا سے جڑی ہوتی ہے اور مامتا ہی مہرومحبت کے تکوین کی خوبصورت علامت ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی مادی حقائق کی تجسیم ہے۔ جو خوابوں اور اُمید وں کی بجائے سنگین ہندوسوں سے عبارت ہے۔ اَلمیہ یہ ہے کہ آج وہی زبانیں مٹنے کو ہیں جو سائنس اور ٹکنالوجی کو اپنے اندر سمونے پر قادر نہیں ۔ وہی زبانیں موت کے خطرے سے دوچار ہیں جوانسانی تعلقات کو زر کے پیمانہ پر استوار کرنے والے اداروں کی زبانیں نہیں۔
تقسیم محنت گلوبل دور میں تکمیل کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔تھکادینے والی مشقت کے پسینہ کی بو اور حاصل محنت سے عاری احساس کی شاعری کو کچھ عرصہ کے بعد زبان میسر نہیں ہوگی۔
انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو نئے نام دیئے جائیں گے۔ اوروہ بھی ہندسوں(Digits) میں مرقوم ہونگے۔ ماں بولیوں کی موت ہوس کی بالادستی اور فتح سے عبارت ہے۔یہ ہوس چاہے مقامی سطح پر اُگی اور پنیی ہویا عالمگیرہو اُس کی شکل ایک ہی ہے۔ آج ضرورت ہے ایک ایسے عالمی نظام کی جو تہذیب، ترقی، خوشحالی، امن اور مسرت کو تمام انسانوں میں بانٹنے کی ضمانت دے۔ زبانوں کا المیہ بھی کسی نئی Green Movementکا منتظرہے۔
کھیترانی زبان نہ تو الہامی زبان ہے ناہی ٹینالوجی کی سائنسی زبان ہے۔ اور منڈی کی زبان کے معیار پہ بھی پوری نہیں اترتی۔ اس کے بولنے والے دو سے ڈھائی لاکھ افراد ہیں۔ چاروں اطراف سے مشرقی بلوچی زبان کے علاقوں میں گھری ہوئی ہے۔ ایک طرف بلوچی اور پشتو اور دوسری طرف سرائیکی اورسندھی زبانیں ہیں۔ کھیترانی زبان Indo Iryanزبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ ادبی لحاظ سے معدودے چند کام ہواہے۔ شاعری کلاسیکل ڈیہو (ڈیہی) دو ہے لوک گیتوں پر مشتمل ہے۔ موسیقی بھی سارنگی بانسری اورنڑ پر ہی مشتمل ہے۔زیادہ تر شاعری رومانوی اور زمیہ ہے۔ شاعری صنف ادب پر غالب حیثیت رکھتی ہے۔ داستان ، افسانہ، ناول اور سفرنامہ وادب کی دیگر جدید اصناف غزل ونظم سے تہی دامن ہے۔موتک مرثیہ گوئی) ، شادی بیاہ کے لوک گیت جو لڑکیاں پنگ کے دوران گاتی ہیں۔(گاونڑ) ضرب المثال روایتی وکلاسیکی انداز میں موجود ہیں۔ سرائیکی ، سندھی اور بلوچی کا اس پر بہت زیادہ اثر ہے۔ چونکہ کھیتران قبیلے کی نفسیات ، ثقافت بلوچ قوم سے مماثلت رکھتی ہے ۔بلوچستان میں ہونے کی وجہ سے ماضی میں مادری زبانوں کی تعلیم میں بلوچی زبان کو پڑھائے جانے کا انتخاب ہوا اور چالیس فیصد کے لگ بھگ لوگ بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ راقم نے کھیترانی نامہ لکھا۔ اس کے علاوہ کھیترانی ضرب المثل زیر تدوین ہیں۔ قادرالکلام شاعری ’’آدو‘‘ کی شاعری پر کام ہورہا ہے ۔ جو بارکھان کی ایک لازوال رومانوی ’’آدوگڑ دو‘‘ داستان ہے۔
کھیترانی زبان کا Language Code 639-3,xheیہIndo Aryan میں لہندا (Lahanda) اور داروی (Dardic) ذہلی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
کھیترانی زبان میں سندھی اور سرائیکی کی طرح کا املاء مستعمل ہے۔ ہماری مادری زبان کو مرنے سے بچانے کے لئے اہل دانش ماہرین عمرانیات ، یونیورسٹیوں ، کلچر سینٹرز اور ریاست کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ کھیترانی زبان کے مرنے سے انسانوں کے ایک حصے کی Folk Wisdom(لوگ دانش ) ختم ہوگی۔ دنیا ایک خوبصورت زبان سے محروم ہوجائے گی۔ ہم لسانی اور معاشرتی طور پر غریب ہوجائیں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے