اے گنہ گارِ محبت! اے فروغ
پیکرِ خود آگہی
اے اسیرِ زندگی!۔
ابرِ باراں میں تری لوحِ مزار
مثلِ آئینہ ہوئی ہے آشکار
اور تیری قبرِ بے نام و نشاں
خاک سے اْبھری ہے بن کر شاہکار
ہجر و وصل و خواب کی اے شاعرہ!
بانوئے شہرِ صبا!۔
تیرا اندازِ نظر سب سے جدا
دیکھ یہ دْنیا نہیں بدلی ابھی
ہے وہی تیرہ شبی
اور یہاں ہر شخص ہے بے دست و پا
خواہرِ من! اے وجودِ ناصبور
تو فراموشی کے دْکھ سے چْور چْور
تیرا دشمن،عارضی لذّت کا طالب
ایک مردِ پْر غرور
زندگی بھر گرچہ تو معتوب تھی
عاشق و معشوق تھی ،مجذوب تھی
سانس لینا چاہتی تھی تو درختوں کی طرح

تیرے سینے کی گھٹن میں،اک قیامت تھی بپا
تجھ کو اپنے گھر کے گہرے حبس میں
اک دریچہ اور دیا درکار تھا
اور بیاضِ شاعری میں،خونچکاں تیرا قلم
کر چکا جو کچھ رقم
میں نے جب وہ سب پڑھا
درد کی شدّت سے دل رونے لگا
یوں لگا،زخموں سے چْور اک ماں ہے تْو
اپنے بچے کو سناکر لوریاں
دے رہی ہے زندگانی کی دْعا
چاہتی تھی تو کہ ہر اک قْفلِ سنگیں ٹوٹ جائے
اور ہستی کا نیا آغاز ہو
اپنے شہرِ آرزو کی راہ میں،اپنی آزادی پہ تجھکو نازہو
تو بھی اک وحشی کبوتر کی طرح،مائلِ پرواز ہو
اے فروغ! اے عاشقِ آہنگ و شعر
جذبہ ء دامِ ہوس ہے تجھ سے زیر
روح تیری ،دے رہی ہے اک صدائے بیکراں
بڑھ رہا ہے روشنی کا کارواں
میں بھی شامل ہوں ،تری آواز میں
میں بھی شامل ہوں ،تری پرواز میں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے