دل میں ڈالے رخنہ چپ
اک پاگل سا سپنا چپ
وقت گواہی دیکھ ذرا
غیروں میں اک اپنا چپ
شام ڈھلے اک منظر میں
اک کشتی اور دریا چپ
جھانک رہا ہے مدت سے
خود میں تنہا ، الجھا ، چپ
تیری یاد کی بگی میں
بول رہا ہے رستہ چپ
لوگ بھڑکتے جاتے ہیں
آنکھوں والا اندھا چپ
خاموشی کے وقفے میں
سناٹے کا درجہ چپ
آؤ کچھ تو بولیں ہم
مار نہ ڈالے دنیا چپ
بستی کے لوگوں میں مرادؔ
اندر باہر سارا چپ