دنیا جب سے وجود میں آئی ہے، اس میں مسلسل تبدیلی آ رہی ہے۔ جو آج ہے، وہ کل کبھی نہ تھا اور جو آج ہے وہ کل بھی کبھی نہ ہوگا ۔ ارتقا ،ایک فطری عمل ہے ،جسے روکا نہیں جا سکتا ۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، تبدیلی آ کر رہے گی اور ہم خود بھی بدلیں گے کہ ہم خود بھی اس ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔ انسان، غاروں اور جنگلوں میں رہتا تھا۔ لباس سے نا آشنا ، مکان سے بے پرواہ آزاد زندگی گزارتا تھا۔ تہذیب نے اسے پابند کر دیا لباس کا، چار دیواری کا، رشتوں کا، مذہب کا، میرا ، آپ کا ، ایک دوسرے کا۔ پیداوار کے نت نئے ذرائع نے عورت کو غلام کر دیا لیکن نئی ٹیکنالوجی، صنعتیں عورت کو آزاد کر دیں گی۔ نئے اوزار، ہل وغیرہ ایجاد ہونے پرمر دکی Physical Strength کی وجہ سے وہ عورت کا حاکم بن بیٹھالیکن اب ان کا دوسراStep یعنی نئی ٹیکنالوجی جس کا استعما ل صرف ایک بٹن کا مرہونِ منت ہے، عورت کو پھر سے آزاد کرنے میں مددگار ہوگا۔
صدیوں سے عورت اپنا وجود منوانے اور اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کر رہی ہے۔ فطرت نے ایک آزاد انسان کے طور پرپیدا کیا بالکل ایسے جس طرح کہ مرد۔لیکن پدرسری کے اس نظام نے اسے یوں جکڑا کہ سانس لینا دشوار ہو گیا۔ کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی رسم و رواج کے نام پر۔ عقائد و رواج کے نام پر عورت کا استحصال کیاگیا اور اسے ایک کم تر مخلوق بلکہ ایک شئے، ایک Commodity کی سی حیثیت دی۔
شاہ محمد اپنی کتاب ’’عورتوں کی تحریک‘‘میں لکھتے ہیں کہ یہودیت میں عورت شوہر کی غلام کی حیثیت رکھتی تھی اور عیسائیت کے گھٹن زدہ چرچ نے عورت کو ناپاک اور گناہ لانے والا کہا۔
اسی طرح پروفیسر اورنگزیب اپنی کتاب ’’ عورت؛ مذاہب، فلسفہ ، تاریخ کی نظر میں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مہاتما بدھ نے کہا کہ عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو اور نگاہ پڑ ہی جائے تو چوکس رہو ۔
میں تو یہ سب پڑھ کر سمجھتی ہوں کہ مہاتما بدھ اور ان جیسی سوچ رکھنے والے مرد در اصل خود کمزور ایمان رکھتے ہیں کہ نگاہ پڑنے سے بھی ان کا ایمان خطا ہوتا ہے اور خود پر بھروسہ نہ رکھنے والا یہ پدر سری نظام عورت کو پابندیوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
لیکن عورت ہمیشہ ایسی تو نہیں تھی۔ ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں توہمیں معلوم ہوگا کہ جب انسان غاروں میں رہتا تھا اور جب جنگل اس کا مسکن تھے ،تب عورت ہی قبیلے اور کنبے کی سربراہ ہوا کرتی تھی۔ فصل کاشت کرنا ، برتن بنانا ، جھگڑوں کا تصفیہ کرنا، ذخیرہ کرنا سب عورت کے کام تھے۔ فطری طورپر ماں کا علم ہوتا تھا ،اس لیے سلسلہء نسب ماں ہی سے چلتا تھا۔ یہ سارا نظام جس میں عورت سربراہ ہوتی تھی، مادر سری نظام کہلاتا تھا۔اس مادر سری نظام میں دراڑ تب پڑی جب آلات، اوزار اور دوسری ایجادات ہوئیں ۔ زمین پر قبضہ، مویشی پالنا اور انھیں ذریعہ پیدار کے طور پر استعمال کرنے سے ذاتی ملکیت کا آغاز ہوا ۔ اولاد کا معلوم ہونا ضروری ہو گیا اور یوں یک زوجگی کی ابتدا ہوئی۔
سرداری نظام میں ایک سے زیادہ عورتیں رکھنے نے پدر سری نظام کا آغاز کیا۔ یہی وہ دور تھا جب عصمت فروشی شروع ہوئی۔
پروفیسر اورنگ زیب اپنی کتاب ،’’ عورت: مذاہب ، فلسفہ، تاریخ کی نظر میں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ،’’ اس دور میں مذہبی عصمت فروشی زوروں پر تھی کہ فصل میں اضافے کے لیے عورت کو آلہء کار بنایا گیاکہ دھرتی ماتا میں زیادہ سے زیادہ جنسی ملاپ کیا جائے تو دھرتی کی دیوی خوش ہوگی اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا عورت پستی چلی گئی اور اسے گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا گیا۔‘‘
لیکن ایسا نہیں ہے کہ عورت اس سب پر خاموش رہی کہ انھوں نے تو عورت کو دفن کرنے کی کوشش ضرورکی لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ تو بیج ہیں اور پھر سے اگ جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لہٰذا بیج پھر سے اگ چکا ہے ۔ گو کہ اب تک تناور درخت نہیں بن پایا لیکن اس کی نشوونما جاری ہے۔
در اصل دنیا میں ہمیشہ Feminisimسے نفرت کی گئی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت سے ہمیشہ نفرت کی گئی ۔جب کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہFeminism Movment یا Feminismتو بس عورت کوبرابر حقوق دینے کی بات کرتا ہے۔نہ جانے کیوں مردوں کی اکثریت یہ لفظ سن کر گڑ بڑا جاتی ہے ۔دراصل Feminism کا لفظ ایک مضبوط اور Strong عورت کے ساتھ منسلک رہا ہے اور مضبوط عورت کو کون برداشت کر سکتا ہے۔ یا پھر شاید لوگوں کایہ خیال بھی ہے کہ Feminists ایسا کچھ کرنے جا رہے ہیں کہ عورت کو ایک اعلی مقام دینا چاہتے ہیں اور مرد کو نیچے کرنا چاہتے ہیں جب کہ حقیقا تو صرف مرد اور عورت کی برابری کی بات کی جاتی ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہصرف عورت ہی نہیں بلکہ بہت سارے مرد بھی Feminists ہیں۔
۱۶۶۰ء میں برطانیہ میں عورت نے پہلی بار اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی اور پھر مختلف ممالک میں عورتوں کی تحریکیں چلیں۔ کہیں تعلیم اور کہیں ووٹ کا حق دیا جانے لگا لیکن پھر بھی عورت کو وہ مقام نہیں دیا گیاجو ایک آزاد انسان ہونے کے ناطے اس کا حق ہے۔
۸ مارچ ۱۹۰۷ اور ۱۹۰۸ء میں بھی نیویارک میں لباس سازی کی صنعت سے وابستہ سیکڑوں عورتوں نے مردوں کے مساوی حقوق اور بہتر حالاتِ کار کے لیے مظاہرے کیے کہ انھیں ۱۰ گھنٹے کے عوض اچھی تنخواہیں دی جائیں لیکن ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ بعد میں ایک سماجی کارکن نے بین الاقوامی فورم میں سفارش کی کہ ان خواتین سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ہر سال آٹھ مارچ کو خواتین کا بین الاقوامی دن منایا جائے۔ اقوامِ متحدہ نے بھی ۸ مارچ کو خواتین کے بین الاقوامی دن کے طور پر تسلیم کیا۔
دنیاکے تمام ممالک کی طرح ہمارے ملک اور ہمارے صوبے کی عورت بھی مسائل، ظلم ،نا انصافی اور استحصال کا شکار ہے۔ آج بھی عورت لب اور ولور کے نام پر بِک رہی ہے۔ آج بھی وہ مر د کی غیرت بن کر قتل ہو رہی ہے۔ آج بھی اس ذات پر اپنے مردوں کے کردہ قتل کے چھینٹے پڑ رہے ہیں اور بدلے میں جرگوں کی نذر ہو رہی ہے۔ آج بھی معصوم بچیوں کے ہاتھ سے گڑیا چھین کر اسے شادی کے حوالے کیا جارہا ہے کہ وہ شادی کے مفہوم ہی سے نا آشنا ہیں اور آج بھی تعلیم کولڑکیوں کے لیے غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ یہ بات طے ہے کہ چھوٹے یا بڑے لیول پرعورتوں کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔
تبدیلی ناگزیر ہے اس لیے ہم پر امید ہیں کہ عورت ایک آزاد انسان کی حیثیت سے اپنے حقوق کے حصول میں بالآخر کامیاب ہو کر رہے گی۔