سماجی معاشرتی پس منظر
اگلا سوال ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ شاہ لطیف کازمانہ کون سا، اورکیا تھا جسے ابراہیم جویو نے ’’ سندھ کی روح ، اُس کی زندگی کی سانس ‘‘(1) قرار دیا؟۔کن معروضی معاشی سیاسی سماجی حالات میں یہ پودا اتنا بڑا تناور درخت بن گیاکہ چار سو سال بعد بھی جید لوگ اس کی تعلیمات کی عظمت کے بارے میں بولتے لکھتے ہیں۔اوراسے محض سندھ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے غموں، دکھوں اور آرزوؤں کاترجمان قرار دیتے ہیں۔
شاہ کا یہ زمانہ ستارھویں صدی کا اواخراورا ٹھارویں صدی کا اوائل تھا۔ سندھ کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ زمان، مکان کے ساتھ بڑا خصوصی لین دین کرتا ہے، اور اُسی کی مخصوصیات سے مل کر چلتا ہے۔مکان نہ ہو تو زمان کا نسب ہوگا نہ شجرہ ۔ وقت کی سوئیاں مقام کی دیوار پہ ٹھونکی ہوتی ہیں۔ اور شاہ کا مقام و مکان بنجر نہ تھا، اُس کے مکان و مقام کو تو جھوک نے محنت کرنے والوں کا بائبل بنا ڈالا تھا۔ شاہ لطیف کا شعوری زمانہ شاہ عنایت کی شہادت سے لے کر نادر شاہ کی سندھ پر یلغارتک کا ہے۔مگر یہ بھی سوچنے فکر کرنے والاسچ ہے کہ اُس دور میں زندگی گزارنے والا ہر شخص شاہ لطیف نہیں بنا۔ظاہر ہے کہ کچھ خاص موضوعی تبدیلیاں اُس کی سرشت میں گھڑی اور گڑی گئی ہوں گی، جنہوں نے اُسے بقیہ آبادی سے ابد تک ممتاز بنا دیا۔ آئیے ہم ذرا سا اُس انتظام کو دیکھ لیتے ہیں جس کے تحت اُس متجسس وشاہد روح کو وہ وجوہات و محرکات عطا ہوئیں جن سے وہ اپنے مشاہدہ کو تخلیق میں ڈھال سکاتھا۔
یہاں ایک بہت بڑا واقعہ ہوا جس نے نوجوان عبدالطیف کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ واضح رہے کہ شاہ کی والدہ توایک دیہاتی گھریلو خاتون تھی مگر اس کا والد سید حبیب شاہ نہ صرف ایک عالم اور روحانی پیشوا تھا بلکہ وہ اپنے زمانے کا مشہور طبیب بھی تھا ۔دیکھو دیکھو تماشا دیکھو کہ یہ طبیب اُس روز موجود نہ تھا جب بڑے جاگیردار کی بیٹی بیمار ہوئی تھی۔ لہٰذا پیر اور طبیب کے جواں سال بیٹے عبدالطیف کو مریضہ کے علاج اور دم چُھوکے لیے لے جایا گیا۔ وہیں تو اس کی بکھری فریکوئنسیزکو ایک نکتہ پر مجتمع ہونا تھا۔ قبلہ اور سمت متعین ہونے تھے ۔ معروض کو موضوع کے فریم میں کلک ہونا تھا۔ چنانچہ عشق کے مقدس فرشتوں نے اُسے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ مریضہ کا علاج تو خیرکیا ہونا تھا خود طبیب بیمار پڑ گیا ۔شاہ اُس فیوڈل کی بیٹی مریضہ پہ عاشق ہوگیا ۔
مگر یہ تو فیوڈل کی تو ہین تھی’’تیری یہ جرات؟‘‘ ۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف لڑکی نہ ملی‘ بلکہ سزا کے طور پر خاندان کو گاؤں بدر کردیا گیا ۔اور،یوں ریت کے ایک ٹیلے یعنی ’’ بھِٹ‘‘ کو اپنا نام ’’ بھٹ شاہ ‘‘ میں بدلنا نصیب ہوا اور شاہ لطیف کو ’’ بھٹائی‘‘ ہونا پڑا۔ مکان اور مکین دونوں وہ نہ رہے جو تھے،دونوں نے جو ن بدل دیے۔
زور والوں کی طرف سے یہ مستر د کردہ عاشق محبت کے ہیجان میں شاعربنا۔ بھٹ شاہ کو تو بھٹ شاہ ہی ہونا تھا کہ وہ ذی روح نہ تھا ۔ مگر عشق کا چھوا ہوا،مگر سماج کا مسترد کردہ شاہ ایک چوٹ کھایاَ بل کھاتا ہوا برافروختہ نوجوان بن گیا۔ اُسے بے قراری نے ، تڑپ نے ،عشق نے کہیں ٹک کر بیٹھنے نہ دیا۔۔۔۔۔۔۔عشق کہیں کا نہیں چھوڑتا۔یہ ایک ایسا قوتِ متحر کہ ہے کہ جامد وسا کت روح کی طرح جامد وساکت سماج بھی لہروں کے تھپیٹروں کے نشانے پر آجاتا ہے۔ جنگ کا میدان گھر بن جاتاہے اور گھر عشق کی عبرت کا نشان۔’’بھٹ‘‘ توبس اِس افتان وخیزاں کے دوروں کے بیچ کی ایک سرائے تھی، یاپھر پی ایچ ڈی کے بعد ایک استاد کامکتب ۔آسمانوں میں دکشا کی بیٹی ستی سے شیو کے عشق کا انجام بلوچستان نکلا، ہنگلاج نکلا ۔ زمین پہ فیوڈل کی بیٹی سے لطیف کے عشق کا انجام سندھ نکلا، بھٹ شاہ نکلا۔
کہانی میں بس ایک بہت ہی غیر اہم ٹوئسٹ اُس وقت آئی جب،بعد میں جب شاہ کی محبوبہ کے گھر انے پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے تو تواہمات کی ماری آبادی کے فیصلے کے تحت حاکم کی وہی بیٹی اُس کی زوجہ بن گئی۔
کمال یہ ہے کہ شاہ کو پہلے محبت ہوئی پھر وہی اُس کی بیگم بنی جبکہ عموماً سندھ و بلوچستان میں ایسا کم ہوتا ہے۔ یہاں تو کمسنی میں شادی ہوجاتی ہے اور بلوغت میں محبت ۔
مگر اس بیچ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ شاہ اب پرانا شاہ نہ رہا تھا۔اُسے اب شہ مرید ہی کی طرح کسی ’’بر ہنہ کند ھے ‘‘ کو دیکھنے کی ضرورت نہ رہی تھی کہ اس کے ’’بارہ کے بارہ بند‘‘ دوڑ چکے تھے ۔ جنس کی طبعی نوعیت بد ل چکی تھی ۔کہ’’ زالے توئے زالے مناں ‘‘ کا عمل مکمل ہوچکا تھا۔اُس پر طرہ یہ کہ فطرت لطیف کو فراق کی بھٹی میں ہی جلاتے رہنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ چنانچہ اُس کی محبوبہ بیگم جلد ہی فوت ہوگئی۔
لوجی، شاہ کے مسافر پیروں کی واحد ممکنہ کھونٹی بھی اکھڑگئی۔نہ رہی رسی نہ رہی بند ھن ۔ بس اب اُس کے ننگے پیر تھے اور سندھ ،بلوچستان کے وسیع گرم ریگستان، درے ،نالے اور کوہستان تھے۔اجتماعِ ضدین کاجدلیاتی دائرہ مکمل ہوجاتاہے تو کیفیتی تبدیلی برپاہوجاتی ہے ۔

شاہ اور اس کے جوگی
جی ہاں،عشق کی چوٹ کھائے اس عاشق کے مزاج میں اضطراب وبے قراری اس قدر بڑھی کہ وہ جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں اور ریگزاروں کی طرف نکل پڑا……اکیلانہیں، بلکہ بہت سی تجس بھری روحوں کے ساتھ ، بے قرار دماغوں کے ساتھ،مشاہدہ کے مشتاق سماجی سائنس دانوں کے ساتھ، زندگانی کی سختیوں کی فرسٹ ہینڈ معلومات چننے والوں کے ساتھ ۔یہ محروم ومجذوب شخص ،علاقہ چھوڑ دیتا ہے اور ایسے لوگوں کا ہم سفر بن جاتا ہے جن کے پاس کہیں کے بھی ڈومیسائل نہیں تھے۔’’ ہر ملکِ خدا ملک ما ست ‘‘والے پورے کرہ ارض کے باشند ے۔ تکمیل یافتہ انسان۔ ( مگر یاد رہے کہ یہ سہولت جائیداد والوں کو میسر نہیں ہے)۔
چنانچہ وہ بے جائیداد جوگیوں اور بنجاروں کے ساتھ پیدل،ننگے پیر،اور بغیر راشن و بسترلیے چل چل کر حدتِ فراق کم کرنے کی کوشش کرتا رہا، اپنا غم دوسروں کے غموں سے جوڑتارہا اور اِس مجموعہِ غم کومشاہدہ اور تفکر کے ساتھ ملا کراپنے تن من میں حلول کر تا ہواآگے بڑھتاگیا۔
شاہ نے جن لوگوں کے ہمراہ یہ سفر کیے انہیں وہ ’’ جوگی‘‘ کہتا ہے۔ دلچسپ بات دیکھیے کہ شاہ سے ایک آدھ صدی قبل ہمارا شہہ مرید بھی ایسے ہی لوگوں کے ساتھ طویل سفر کرچکا تھا۔ (شاہ اور شہہ ۔۔۔۔۔۔ کیا کیا مشترکات ہیں!!)۔شیہہ مرید انہیں جوگی کے بجائے ’’ پخیر‘‘ کہتا ہے۔اس لئے میں اپنے بلوچ قارئین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ’’ پخیر‘‘ اور ’’پنڈوخ‘‘ میں ہمیشہ فرق کیا کریں۔
شاہ کے جوگیوں پر بہت کام اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ۔ ویسے ہی کا غذوں کا پیٹ بھرنے کیلئے ‘نہیں بلکہ سنجید گی سے۔انہی جوگیوں(پخیروں) سے ہم سندھ بلوچستان کی روح کو سمجھ سکتے ہیں۔مہاتما لوگ تھے یہ۔کسی بھی باقاعدہ اور منظم دھرم سے قبل کی وہ شکل جہاں انسان فطرت کے ساتھ بہت دوستانہ تھا۔ماقبل غلام داری اور قدیم کمیون عہدکا سرحدی زمانہ جہاں ظلم اس قدر بے لباس نہ تھا، جہاں انسان دوسرے انسان کے ہاتھوں بے توقیری اورلٹنے سے آشنانہ تھا ، اورجہاں ایک مبہم سی عالمگیر مساوات اور یک جہتی کی معطر فضاموجود تھی ۔ ایساعہدجہاں کسی طرح کی تبدیلی کیے بغیر آج بھی یورپ وایشیا کے شہری علاقوں کے بے شعورباشندے جاناچاہتے ہیں ،اوروہ بھی کسی سیاسی جدوجہد کے بغیر بے ثمر رقص ،ہپی ازم والے فرار، اور ہرے راما ہرے کرشنا کے دھوئیں کے دوش اُس سنہرے دور میں شمولیت چاہتے ہیں۔مگر اس علم کے بغیر ، کہ سرمایہ داری کی’’ گردن بُرنفسانفسی ‘‘کا تختہ الٹے بغیر اب ایساسماج ممکن نہیں۔یہ بات دانشوروں کے ایک بڑے حصے کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ وہ بے چارے بھی اِن چرس نوش عمل گزیدہ ناچیوں سے سماجی نجات کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔
شہ مرید اور شاہ نے اپنے کلام میں اپنے ’’ پخیروں‘‘ اور ’’جوگیوں‘‘ کا خوب تذکرہ کیاہے۔ کہتے ہیں کہ شاہ نے اپنے جوگی رفیقوں کو تیس سے زیادہ القابات سے یاد کیا ہے۔(2)۔
شہ اورشاہ کے جوگیوں کونیل کے ساحل سے غرض تھی اور نہ یہ کاشغرتک کی طالبانی شاہینی کرتے تھے ۔یہ لوگ کسی بھی سپین اور دہلی پہ کوئی جھنڈا گاڑنے والی سپاہ نہ تھے ۔اس لیے اے دوستو!انہیں لائٹ نہیں لینا چاہیے۔شاہ کے جوگی عالم تھے ،فرزا نے تھے ، فلاسفر تھے ……..وہ استثنائی افرادجنہوں نے کھوج وتحقیق ومشاہد ہ کیلئے دنیا وی آسا ئشیں ٹھوکر کی زد میں رکھ دی تھیں۔ جن کی رفاقت میں کندن بنا جاتا ہے۔ نعرے بازی سے دور، خود ستائی سے پرے، نام و نمود سے نا آشنا، کسی بھی مذہبی ٹھیکے داری سے مبرا ۔۔۔۔۔۔ ’’ سیروفی الارض‘‘ سے سیکھنے والے۔ کوئی بڑا چھوٹا نہیں، کوئی مرید و مرشدنہیں۔ برابر کے ساتھی، ایک جیسے ہمسفر ، ایک کاز کے کامریڈز۔
شاہ اپنے جوگیوں کے ساتھ بزرگوں ولیوں فلاسفروں کی زیارت کرتا رہا ،خودکو فطرت کے ڈسپلن میں تر بیت دلاتا اور فکر وتفکر کی عادت پختہ کرتارہا ۔ اس نے اس کا م میں بالکل وہی طریقہ اختیار کیا جوشہ مرید کاتھا ۔ بلاشبہ شاہ کا ’’ جوگی‘‘ اور شیہہ مرید کا ’’ پخیر‘‘ باہم گہری مماثلت رکھتے ہیں۔یہ لوگ( صرف ستر ڈھانپے ہوئے )’’ ننگ دھڑنگ لوگ ہیں، ملنگ ، نیم مجذوب ، غراتے ہوئے ( مانگ کر) پیٹ بھرتے ہیں، درختوں کے تنے اُن کے بالشت ہیں ‘اُن کے گدّے ’’کرکاوغ ‘‘نامی جڑی بوٹیاں ہیں۔۔۔۔۔۔
شاہ کے جوگی ایک کا سہِ گدائی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نرسنگھا، جو لکڑی یا سینگ کا بنا ہوتا ہے۔ جسے وہ کھانے سے قبل اور عبادات کے بعد بجاتے ہیں۔ اوروہ ایک پھٹی پرانی گدڑی اپنے ساتھ رکھتے ہیں جس میں خیرات میں ملا ہوا کھانا رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ساتھ ایک ڈنڈا بھی رکھتے ہیں۔ شاہ کہتا ہے۔’’ ان میں کوئی عیب نہیں اوروہ دوبارہ گناہگار نہیں ہوسکتے ۔ انہوں نے دنیاوی خواہشات کو ترک کردیا۔ وہ آرام پہ غلبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ وہ دنیاوی راہوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ وہ رضا کارانہ طور پر صبر و یقین سے اپنے آپ کو ضبطِ نفس اور ریاضت کے ذریعہ منزہ کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ مکروہاتِ دنیاوی فنا، دل میں محبت کی شمع روشن، قناعت سے بھرے لوگ ۔ ایسے لوگ جن سے رنگ و نسل کی بابت کون پوچھ سکتا ہے۔ انہیں کھانے کی خواہش نہیں ہوتی ۔ وہ ریگستانوں میں گداگری کرتے ہیں ، مگر گدا گرنہیں ہوتے۔ وہ بھوک کو اپنے تھیلوں میں ڈال دیتے ہیں اور اس بھوک کا جشن مناتے ہیں۔ نہ ان کی کوئی خواہش ہوتی ہے اور نہ وہ اشتہا محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو تشنگی کو نوش جان کر کے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی انا کو مسخرکرلیا ہے ۔ ان کے گھٹنے محراب ہیں۔ ان کا جسم مسجد ہے ۔ وہ اپنے قلب کو قبلہ قرار دے کر اس کے گرد طواف کرتے ہیں۔ انہوں نے سچائی کی تکبیر کہی اور اپنے اجسام کو نظر انداز کردیا۔ گناہ کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔مکمل طور پر declass شدہ لوگ۔
دیکھا جائے تویہ تو شاہ عنایت کی تحریک کے لئے بہت ہی موزوں سپاہی تھے، مگرشومیِ قسمت کہ یہ تحریک کچل دی گئی تھی اور ایک نئی منظم تحریک ابھرنے کا وقت آیا نہ تھا ۔ لہٰذا مین سٹریم سے ہٹ کر ، اور ایک سیاسی نظریہ سے خالی، ایک موہوم سی موضوعیت کا غلبہ انہیں ایک انقلابی ہونے سے الگ رکھتا ہے۔
سب سے بڑی زیارت گاہ۔۔۔۔بلوچستان
لوگو، سندھ بے شک اس کی ماں جھولی تھا، اُس کا جنم بھومی، اور اس کا آبا ئی قبرستان تھا۔ مگر یہ بہت بڑی نعمت بھی اُس کے لیے کم پڑ گئی۔ اُسے اور مواد کی ضرورت تھی۔ اسے مزید تپسیا چاہیے تھے، مزید گرائنڈ ہونا تھا ۔ اور سب کو خبر ہوکہ تپسیا اور درشن کے اعلیٰ مقام کا نام’’ بلوچستان‘‘ ہے۔
شاہ نے سندھ اور مغربی و جنوبی بلوچستان کا چپہ چپہ پھر کر صداقتوں کو سمیٹ لیا۔شاہ لطیف چہار اطراف سفر درسفر کرتا رہا،ریفریش اور ریفائن ہونے ۔ شاہ لطیف اپنے اِن سفروں میں شمال میں بہا ولپور اور ملتا ن تک گیا۔وہ مغر ب میں لسبیلہ اور ہنگلاج تک کو چھوگیا۔ جنوب میں اُس نے سمندر کنارے چل چل کرہر علاقہ کنگھا ل مارا۔ کا ٹھیا واڑ کا چپہ چپہ دیکھا۔ (کہتے ہیں کہ اس نے اپنی 63 سالہ زندگی میں سے تقریباً22سال سیر و سیاحت میں گزارے )۔(3)
آئیے دیکھتے ہیں کہ کشش بھرا بلوچستان کس طرح اُسے اپنا گرویدہ بناتاہے۔ شاہ نے جوگیوں یوگیوں کے ساتھ اُن کا زرد لباس پہن کرچٹانی پہاڑوں کی رکاوٹیں پھلانگیں۔ اور یوں وہ مندروں کے مندر،قدیم مندر، ہنگلاج کی زیارت پہ گیا تھا۔ ہنگلاج کراچی سے120 میل دور لسبیلہ میں واقع ہے۔ یہ مندر امبا ، پاروتی، یا ، ہنگولا دیوی سے منسوب ہے ۔ ہنگلاج زائرین کے لئے ایک مقدس جگہ ہے جو ابتدا میں یونانیوں کے ہاں ’’ نا نیا‘‘ اور ہندوؤں میں ہنگلاج دیوی کہلاتا ہے۔مسلمان بھی اس دیوی کو ’’ بی بی نانی‘‘ کے بطور ہدیہِ تبریک پیش کرتے ہیں جو یونانی دیوی نا نیا سے گہری مشابہت کی حامل ہے۔
عام عقیدہ ہے کہ سیتا دیوی کا سراس علاقے میں گر گیا تھا۔ اس لئے اُس زمانے سے یہ ایک زیارت گاہ بن چکا ہے۔ ایشیا کے ہر کونے سے ہر سال اپریل میں ہزاروں لوگ ہنگلاج ماتا مندر کی چار روزہ تقریبات منانے جمع ہوتے ہیں۔
بے لالچ لالچی لطیف’’ مزید، مزید‘‘ کے حصول کے لیے بلوچستان کے قدم چومتا رہا۔ بار بار اس کے طواف کرتا رہا۔ وہ اپنے زردپوش ساتھیوں ،نیم عریاں قیسوں کے ساتھ جلتے ریگزاروں اور تھکا ڈالنے والے نخلستانوں کو عبور کرتے ہوئے دریائے ہب اور پب پہاڑوں کے راستے سفر کرتا رہا۔یہیں تو اسے سسی کا ترجمان بننا تھا اس لیے کہ اُس سے بہت پہلے بھنبھور کی سسی اس دشوار علاقے کو عبور کرچکی تھی ۔شاہ نے اپنی آنکھوں سے اُن سارے مناظر‘ تکالیف اور رکاوٹوں کو دیکھا جو اِس عظیم ٹریجک ڈرامہ میں موجود تھے۔یہی وہ پس منظر تھا کہ اس نے اپنے کلام کا اسی فیصد سے بھی زیادہ حصہ سسی کے لئے وقف کیا۔بلاشہ سسی شاہ کی ترجمان ٹھہری، اور شاہ سسی کا پرچم بردار ہوا۔
اس نے جا م لسبیلہ کے اہلکاروں کو زائرین سے ٹیکس لیتے کھاریرونامی جگہ دیکھی، ہاڑونامی دشوار گزار پہاڑی کو پیدل عبور کیا۔
کہتے ہیں کہ اس نے ننگے پیر، بغیر توشہ و سامان، اور طلبِ شعور میں دوبار اس زیارت گاہ کی زیارت کا سفر کیاتھا۔(4)
شاہ نے منگھو پیر لسبیلہ کے شمال مشرق میں زہریلے سانپوں کی پھنکاروں کے بیچ سے کیر تھر سلسلہ کوہ کے ساتھ ’’ ونگار‘‘ کے راستے لاہوت کا بھی سفر کیا۔لاہوت کا مطلب بدھ لوگوں کے آخری منزل’’ نروان‘‘ کی طرح’’ لاوجودی‘‘ ہے۔ لاہوت پب کے پہاڑوں کے عین دل میں دشوار گزار علاقے میں واقع ہے ۔ وہ لاہوت غار کی دشوار گزار اترائی اترا اور قطرہ قطرہ دودھ ٹپکاتی گائے کی تھن نما چٹانی ابھار کو دیکھا ۔ لاہوت لا مکاں کے سفر نے شاہ لطیف کو خوب متاثر کیا۔ لاہوت سے ذرا دور ایک درگاہ ہے جسے ’’شاہ نورانی‘‘ کہتے ہیں۔’’ لطیف جی مسیت‘‘ اور ’’ لطیف جی کھوئی‘‘ اور’’ شاہ لطیف کی تیر تھ گاہ‘‘ نامی مشہور مقامات آج بھی زائرین کی عبادت گاہیں ہیں ۔
بلوچستان نے عبدالطیف کو مکمل طور پر اپنے سحر میں لے لیا۔ اس حد تک کہ اس نے تو اپنی سندھی شاعری میں باقاعدہ بلوچی الفاظ جگہ جگہ ڈال رکھے ہیں :شما و اوشموش، گوش ، رواں مروشی روش ، گندا گُشی، مروشی جبلہ رواں ۔۔۔۔۔۔۔
شاہ بہت میٹھا ہے کہ وہ سسی کے گلابی منہ سے گلابی بلوچی کے یہ الفاظ کہلواتا ہے:برو‘پاذا ، تانگورواں، چے شی، ایذابلّتی، پَرویشی،برو، کُشتغاں، تَھواو ماں ، دئی، تَودئی، دُراھ،سکھیا دراھاں ، رواں ، روش مروشی، مناں گُشی مولدے، تَو گوئش، منی گوش ، مروشی جیلہ رواں ،پگّھئی ، ایذا نندوں، نشتغاں،اِشاں ۔(5)
بلوچستان کے نامور دانشورو سیاسی کارکن شورش بابوکے رسالہ ’’ نوکیں دور‘‘ کے 1968 کے ’’شاہ لطیف ‘‘نمبر میں محمد شفیع کپری بلوچ کی کاوش سے ہمیں اِن بلوچی الفاظ والے اشعار بھی ملے ۔ ذرا ملاخطہ ہوں:

بُرو پھدا بات جَن جیی تھانگوُں رواں تھئیشیں
ڈئن پارسیون پاٹ مَیں ایذا بلوں ایشَیَں
لیٹرن رات لطیف چئے نٹا کوؤ نیشیں
پذہوں پرویشیں ، کج پیادن جیی ، پندھ میں
****
برو بگیرد بام بلیخاں کام پروڑے مام
تَو دئے تھؤمناں خشتگاں کہ تو چھُلی پھیر جیی لام
اَجھے حنہیں سام دُرہا دُرہا کن جیی
****
جیکر روں روش مروشی محبوب ڈے
مناں کُشی مولدی دیوان پنہوآَ روش
تھؤ گو خان منی گوش سٹیی مان سَگھی تھیان
****
پھدا پھیر یا لؤں مہاروں مَیَن جوں
مروشی جبل رواں وائی واریاؤں
موں کھے مارؤں یاروچی پولی کرے
****
بروبگیرد بی ثاڈین پارسیوں پاٹ میں
موں لوڈائی لکھیا تہ ہانجو کندا ہی
ماریندا موں کے پنہوں نیندا پاٹ ساں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے