آدھی رات کو
تمہارے چہرے سے کمبل ہٹانا
سونے کے کوزے سے
مٹی کی آخری پرتیں ہٹانے جیسا ہے
میں ہر رات امیر ہوجاتا ہوں
اتنا امیر
کہ سڑک کے کنارے کھڑے
اس مشکوک بوڑھے سے
ہواؤں کا ایک مجموعہ خریدتا
اور اس سے
تمہارے خوابوں میں
آندھی چلاتا ہوں
تم ڈر کے مارے
ماضی میں لوٹ رہی تھی
اور
طنابوں سے
اپنے بچپن کے کپڑے اتار رہی تھی
میں بارش کو رشوت دیتا
کہ جلدازجلد برسے
اور اتنی بارش برستی
تمہاری آنکھوں کے کونے سے
ایک آنسو ٹپک جاتا
میں
سڑکوں کو رشوت دیتا
کہ وہ تمہارے خوابوں میں
اور طویل ہوجاتیں
یہاں تک کہ میں
اپنے آپ کو بھی رشوت دیتا
کہ ہر رات
خواب کے عالم میں
تمہارے منہ سے
تتلیوں کی طرح اڑنے والے نالوں کو
تمہاری شادی کے جوڑے کے انتہائی سرے سے پکڑلیتا
میں اپنے آپ کو رشوت دیتا
کہ مجھے نیند نہ آئے
تم سوئی ہوئی تھی
لیکن
ایسے
جیسے کوئی سویا ہوا خزانہ ہو!۔