بیوہ۔
بیوہ۔
یہ لفظ اپنے آپ میں تباہ کرتا ہے
سلگتے ہوئے اخبار کے ورق کی طرح یہ جسم
ایک لمحہ ٹہرا ہوا، ہوا میں معلق
سرخ نظارے پر کھولتا ہوا، ایک دل
جسے وہ ایک اکلوتی آنکھ کی طرح
نکال ڈالے گی۔
اس کی قربت کا ایک اور موقع
ایک کاغذی پیرہن دل پر رکھا ہوا
جس طرح اس کے خطوط رکھے رکھے
گرما جاتے تھے
اور اسے بھی گرماتے تھے اپنی جلد کی گرماہٹ سے
مگر اب وہ
وہ ورق ہے جسے کوئی نہیں گرماتا
بیوہ، جس پر ہمدرد شجر جھکتے ہوں
شجرِتنہائی، شجرِآہ و زاری
کھڑے ہوئے، ہریالی میں سایوں کی طرح
یا پھر سیاہ تراشے ہوئے سوراخوں کی طرح
ایک سایہ نما شے، بیوہ، مشابہت رکھتی ہے ان سے
ہاتھوں میں ہاتھ ، اور درمیاں کچھ نہیں
ایک بے جسم روح، اپنے راستے سے قطعی بے خبر
جیسے کوئی دوسری روح اس میں سے گزرے
اورصاف شفاف فضا میں بھی نظر نہ آئے
اسے یہ ڈر ہے کہ
اس کی روح پھڑپھڑانے لگے گی اس کے اچاٹ حواس پر
جیسے کوئی فاختہ شیشے سے ٹکراتی ہو
اور اس کے آگے سب کچھ دھندلا جاتا ہو
سوائے اس سرمئی، پست کمرے کے
جس کے اندر جھانکتی ہے، اوربارہا جھانکتی ہے
———————————————–
میں کھڑی ہوں
لیکن میں لیٹنا چاہتی ہوں
میں وہ درخت نہیں جس کی جڑ زمین دوز ہو
معدنیات اور ممتا جذب کرتی ہو
ماہِ مارچ میں ہری بھری ہو جاتی ہو
نہ میں کیاریوں کا وہ حسن ہوں
جو اپنی بے ثباتی سے بے خبرہو
جس کی دلفریبی پہ سب آہ کہہ اٹھیں
میری نزدیک درخت لازوال ہیں
غنچے قدآور نہ ہوتے ہوئے بھی
چونکا دیتے ہیں
میری خواہش ہے کہ (حاصل کروں):
ایک کی لازوالی اور دوسرے کاحوصلہ
آج شب ستاروں کی خفیف روشنی میں
پیڑ اور پھول اپنی خنک مہک بکھیر رہے ہیں
میں ان کے بیچوں بیچ چل رہی ہوں، لیکن
وہ مجھے نہیں دیکھتے
میرا خیال ہے جب میں سو جاتی ہوں
تب ان سے مکمل مشابہت رکھتی ہوں
جب خیالات دھندلا جاتے ہیں
اور آسماں اور میں لیٹ کر کھلی گفتگو کرتے ہیں
میرے لئے یہ ایک فطری عمل ہے
جب میں ہمیشہ کے لئے لیٹ جاؤں گی
تو اور بھی کارآمد ہو جاؤنگی
پیڑ مجھے چھو سکیں گے
اور پھولوں کے پاس میرے لئے وقت ہو گا