مجھے بچپن سے چین لاکٹ پسند ہے ۔وہ بھی صحت مند سی گردن کو چھوتا ہوا۔چونکہ میں بچپن سے کچھ دبلی پتلی تھی۔ میری گردن بھی پتلی سی تھی۔ اس لئے مجھے بھرے بھرے جسموں والی صحت مند خواتین پسند تھیں۔انسان کی فطرت ہے اسے متضادو مخالف چیزیں پسند آتی ہیں۔گوروں کو کالے کھینچتے ہیں ؛ کالوں کو گورے ۔موٹوں کو دبلے اچھے لگتے ہیں اور ازلی دبلوں کو موٹے تازے ۔اسی لئے صحت مند اور بھرے بھرے جسموں والی خواتین اور ان کے گلے میں ،میں چین لاکٹ دیکھتی تو مجھے ان پر رشک آتا۔پسند تو مجھے سونے کا تھا لیکن ابھی امیّ ابو کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ وہ مجھے لے کر دیتے۔اس لئے میں نے سوچا’’آرٹیفشل سے بھی کام چل جائے گا لیکن اس کے لئے مجھے اپنا من مارنا پڑے گا۔اپنا پیٹ کاٹنا پڑے گا یعنی اپنی جیب خرچی جمع کرنی پڑے گی۔بلوں اورٹافیوں کو کچھ دن خدا حافظ کہنا پڑے گا۔‘‘
ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ عباس ، ابو کے ساتھ خوش خوش اندر آیا اور امیّ کو اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دکھاتے ہوئے بولا
’’امّی ! ابّو نے دلائی ہے۔میرے پاس ہونے کی خوشی میں۔‘‘
مجھے کچھ اچھا نہیں لگا ۔ابّو کے کمرے میں جانے کے بعد میں امّی کے پاس آئی اور کہا ’’میں تو کلاس میں فرسٹ آئی ہوں۔ابّو نے مجھے
تو کچھ نہیں دلایا۔‘‘
ابّو میری بات سن کر کہنے لگے’’وہ تو ایک ہے اور تم پانچ ہو۔‘‘
مجھے جواب ایک سوچ میں ڈال گیا مگر میں خاموش رہی۔
اب مصمم ارادہ کر لیا ’’ چین لینی ہے اور ضرور لینی ہے۔ان دنو ں جیب خرچ بھی تو صرف
آٹھ آنے تھا۔ایک ماہ جمع کرتی تو ایک مصنوعی واجبی سا لے پاتی۔سو ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھان لی۔ایک ماہ بعد عید بھی تھی۔سوچاچلو عید پر نیا لاکٹ پہنوں گی تو سب سے زیادہ اچھی لگوں گی۔بس دو بار جب مرونڈا یا ٹا فی کھانے کو جی چاہا تو امّی کے پرس سے مجھے چا ر آنے چرانے پڑے۔ایک بار امّی سو رہی تھیں تو میں نے خاموشی سے ان کے سرہانے پڑے بٹوے میں سے چارآنے نکالے
دوسری دفعہ امّی کا پرس کچن میں تھا۔سب سو رہے تھے ۔گرمیوں کے دن تھے۔میں کچن میں پانی پینے گئی تو ان کے چھوٹے سے پرس
پر نظر پڑی۔جی للچایا ۔کتنے دن سے پھلیوں والا مرونڈا نہیں کھایا۔اتنے چھٹے پیسوں میں سے اگر ایک چونّی اٹھا لوں۔تو امّی کو کیا پتہ چلے
گا۔سو خاموشی سے چونّی اٹھا لی۔
عید سے ایک دن پہلے امّی کے ساتھ کانچ کی چوڑیاں لینے گئی تو اپنی خواہش انہیں بتائی کہ میں لاکٹ لینا چاہتی ہوں۔میرے پاس
اتنے پیسے نہیں ہیں۔’’میں نے جمع کئے ہوئے ہیں ۔آج مجھے لاکٹ ضرور لینا ہے۔‘‘میں نے ضد کی
کہنے لگیں ’’کتنے جمع کئے ہیں؟‘‘
’’ پندرہ روپے۔‘‘ میں نے پوری آنکھیں کھولتے ہوئے جوش سے جواب دیا۔
’’پندرہ روپے میں تمہارا دوپٹہ آ جائے گا۔چھوڑو ہار شار کو دوپٹہ لے لو۔‘‘انہوں نے سمجھانے کے انداز میں کہا
لیکن میں سمجھنے والی تھوڑی تھی۔میں نے کہا’’ دوپٹہ تو آپ سب کو سوٹوں کے ساتھ لے دیں گی تو میں اپنے پیسوں سے کیوں لوں؟ میں نے لاکٹ لینا ہے۔‘‘
’’ تمہاری باقی بہنیں بھی تو ہیں وہ کوئی لے رہی ہیں۔‘‘
’’وہ نہ لیں ۔انہیں پسند نہیں۔اگر پسند ہے بھی تو وہ بھی پیسے جمع کر لیتیں۔میں نے اپنے پیسے جمع کئے ہیں۔‘‘
انہوں نے نرم پڑتے ہوئے دکاندار سے کہا ’’بھائی! ذرا سستا سا کوئی چین لاکٹ دینا۔‘‘
اس نے کئی سیٹ نکال کے ہمارے سامنے رکھ دئیے۔جو بہت نفیس تھے وہ بہت مہنگے تھے۔میرے پاس تو صرف پندرہ روپے تھے۔
امّی بولیں’’ بھائی! سستا سا کہا ہے ۔دس پندرہ روپے والا۔‘‘
’’اچھا بہن ‘‘ کہتے ہوئے اس نے ایک لاکٹ ہمارے سامنے رکھ دیا ۔اس کے درمیان میں ایک سرخ بڑا سا بیضوی پتھر تھا اور اس کے
ارد گرد ایک سفید چھوٹے چھوٹے نگوں کی لائن تھی۔دیکھتے ہی ہمیں پسند آگیا۔میں نے دکاندار کو دینے کے لئے پیسے امّی کو پکڑا دئیے۔
اب میں جی ہی جی میں خوش ہوتی ہوئی گھر آ ئی۔ آتے ہی بہنوں کو اپنی خریداری دکھائی ۔پہلے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ناگواری کا اظہار کیا۔’’امّی نے اپنی چہیتی کو تو لے دیا ہے۔ہمارے لئے لائیں نہیں۔‘‘میں نے اصلیت بتائی تو خاموش ہوگئیں۔میں نے بڑی صغریٰ سے کہا کہ ’’چین کا لاک تو لگا دو۔‘‘
اس نے ناک اوپر چڑھاتے ہوئے کہا’’آؤ ادھر۔‘‘
میں شیشے میں خوو کو کبھی ایک رخ سے دیکھتی اور کبھی دوسرے سے۔رات مہندی لگا کے لیٹی تو نیند نہیں آ رہی تھی جی چاہ رہا تھا ۔ابھی صبح ہو جائے۔دوتین دفعہ اٹھ کے میں نے اسے دیکھا۔رات کس وقت آنکھ لگی مجھے نہیں پتہ ۔فجر کی اذان کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی۔
کچھ دیر تو میں روشنی کے انتظار میں لیٹی رہی۔جیسے ہی اجالا ہوا میں نے اٹھ کر ہاتھ دھوئے اور اپنی مہندی کا رنگ دیکھنے لگی۔اتنے میں صغریٰ،سکینہ ،آمنہ اور مریم بھی آ گئیں۔ایک دوسرے کی ہتھیلی دیکھ کر موازنہ کرنے لگیں کہ کسے زیادہ رنگ چڑھا ہے اور کسے کم۔صغریٰ نے داناؤں کے انداز میں کہا ’’ جس لڑکی کو مہندی کا زیادہ رنگ چڑھتا ہے۔اس کی ساس اس سے بہت پیار کرتی ہے۔‘‘
’’پیار کرے یا نہ کرے مجھے تو بس رنگلی مہندی اچھی لگتی ہے۔ویسے بھی آج کل تو کیمیکلز کے ذریعے مہندی کو رنگلا کرتے ہیں۔‘‘میں نے اپنی رائے دی۔
اب ہم نے نہا دھو کر تیاری شروع کر دی۔میں نے لاکٹ کی ڈبیہ کھولی تو لاکٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا۔میں نے سہمتے ہوئے اٹھایا کہ کہیں نگ نہ نکل گئے ہوں۔میرا اندیشہ ٹھیک نکلا۔بڑا اور کئی چھوٹے نگ نکل گئے۔میں نے دکھ سے روتے ہوئے کہا
’’پتہ نہیں کس منحوس کی نظر لگ گئی ہے۔‘‘
عید کا دن تو جیسے تیسے گزر گیا۔لاکٹ میرے دل و دماغ سے رٹے ہوئے سبق کی طرح کبھی نکلا نہیں۔کبھی کبھی دماغ باقاعدہ اس کی تکرار شروع کر دیتا۔نویں جماعت میں جیب خرچ دو روپے ہو گیا۔میں ایک مٹی کی گلک میں روز پیسے ڈالنے
لگی۔دو سال بعد توڑی تو ا س میں سے ہزار روپے نکلے۔اب میں کالج میں سالِ اوّل کی طالبہ تھی۔امّی کو پھر کہا’’ میں اب ہزار روپے والا لاکٹ لوں گی۔‘‘امّی نے ناگواری سے کہا ’’ اتنی محنت سے جمع کی ہوئی رقم تم چین لاکٹ پر برباد کرو گی۔‘‘
کچھ دن بعد امّی صغریٰ کے جہیز کے لئے کمبل لائیں تو پیسے کم پڑ گئے ۔مجھ سے کہنے لگیں ۔’’تمہارے پاس جو ہزار روپیہ ہے وہ لاؤ۔‘‘
میرا جی نہیں چاہا کہ دوں توکہنے لگیں ’’لے آؤ واپس دے دوں گی۔‘‘
اب میں انکار نہ کر سکی۔کئی سال گزر گئے۔میں ان سے کبھی کہہ نہ سکی کہ آپ نے میرا ہزار روپیہ دینا ہے۔بی۔کام کے بعدایک بینک میں نوکری شروع کر دی۔گھر میں بھی میں بخوشی ایک معقول رقم دیتی اور کچھ پس انداز بھی کر لیتی۔بچپن میں جوڑنے کی عادت جو پڑ گئی۔
کپڑے تو سستے سے پہن لیتی مگر بچت ضرور کرتی۔چھ سات سالوں میں ساٹھ ہزار جمع کر کے میں اپنے لئے سونے کا چین لاکٹ لائی۔امّی کو دکھایا تو بہت خوشی سے کہنے لگیں ’’اب صحیح چیز لائی ہو ۔کم از کم پیسے تو محفوظ ہو گئے۔‘‘
میں نے بھی خوشی سے کہا ’’ شکر ہے آپ کو کچھ پسند تو آیا۔‘‘
میں نے اسی وقت اسے گلے میں ڈال لیا۔ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ چھوٹی سکینہ کے رشتے کی بات چل پڑی۔اس کا جہیز اکٹھا ہونے لگا۔باقی سب چیزیں تو اکٹھی ہو گئیں مسئلہ زیور کا تھا۔امّی کے پاس اپنی ایک تولے کی چوڑی تھی ۔وہ اسے کم ازکم دو تولے کا سیٹ دینے کی خواہش مند تھیں۔جس کے لئے ستر ہزار درکار تھے۔جن کا بندوبست مشکل تھا۔وہ کسی سوچ میں گم تھیں کہ ان کی نظر میرے لاکٹ پر پڑی۔کہنے لگیں ’’ میرا خیال ہے کہ یہ کم ازکم ایک تولے کا تو ہے۔‘‘
مجھے اچھا لگا یا برا میں نے اظہار نہیں کئے بغیر چین لاکٹ امّی کو تھما دیا۔
اس نادان دل کا کیا ،کیا جائے کہ خواہش نے دم نہ توڑا ۔میں نے نئے سرے سے پیسے جمع کرنے شروع کر دئیے۔ بینک بھی پیدل جاتی ۔جوتے کپڑے سستے اور کم لیتی ۔وقفے میں بھی بچت کی کوشش کرتی ۔ بچت کے ساتھ اب کی بار ایک تہیہ خود کو مخاطب کر کے یہ کیاکہ ’’ میڈم زرینہ چین لاکٹ تو آپ ضرور لو گی مگر اب کی بار امّی کو پتہ نہیں چلنے دیں گی۔صرف ڈیوٹی آورز میں گلے میں ڈال لیا کریں گی۔گھر آنے سے پہلے گلے سے اتار کر پرس میں رکھ لیا کریں گی۔گھر آکر بھی اس کا خیال رکھیں گی اور امّی کی پہنچ سے دور رکھیں گی۔‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے