استعاروں کا حیرت کدہ
(دانیال طریر کی وفات سے قبل لکھا گیا)
معاصر غزل جس کثیر تعداد میں لکھی جا رہی ہے اس میں اگر کوئی شاعر اپنے فکر اور اسلوب دونوں میں ایسا رنگ اور انداز دکھا دیتا ہے کہ الگ سے پہچانا جائے تو یہ یقیناًاس کا بڑا کارنامہ ہے ۔لیکن اکثر اوقات ایسا کرنے سے کچھ مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جن میں دو بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ روایت سے گریز کرنے کی کوشش میں غزل اپنے منصب شعریت سے گر جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ چونکا دینے کے جنون میں شعری اور فلسفیانہ فکری گہرائی سے عاری ہو جاتی ہے جو کہ بڑی غزل کی پہچان ہے۔ دانیال طریر کی غزل جداگانہ فکر اور اسلوب کی حامل ہوتے ہوئے بھی سطحیت اور عدم شعریت جیسے نقائص سے پاک ہے۔ غزل کا جو سفر اس نے اپنی آدھی آتما کے ساتھ آغاز کیا تھا وہ خواب کمخواب میں تعبیر ہوتا نظرآتا ہے۔ دانیال طریر کے فکر تک رسائی کے لیے اس کے شعری اسلوب کی بافتوں اور غزل کی حیرت بھری فضاؤں سے واقفیت ضروری ہے۔ اس کے فن کے کلیدی مقامات کی جانچ کے بغیر وہاں تک رسائی ممکن نہیں۔میری کوشش ہے کہ یہ مضمون ایسے بنیادی حوالے قائم کرے جس سے دانیال طریر کی خواب کمخواب میں شامل غزلوں کی تفہیم میں سہولت پیدا ہو۔
سترہویں صدی عیسوی کی انگریزی شاعری میں ایک اہم تحریک کا ظہور ہوا، جسے مابعدا طبیعاتی شاعری کی تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے نمائندہ شاعروں نےSpencer کی بھاری بھرکم پراز اخلاقیات شعریت کی مستحکم روایت سے بغاوت کرتے ہوئے مغربی نشاۃ ثانیہ کے دوران مروج ہونے والے علوم سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں شاعری میں برتا اور Conceit کو استعمال کیا ۔ Conceitکو ہم تشبیہہ یا استعارے کی ایک قسم کہہ سکتے ہیں جس میں شاعر دو ایسی چیزوں کے درمیان مماثلت تلاش کرتا ہے جو بظاہر ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتی ہیں اور ایسا کرنے سے قاری چونک اٹھتا ہے۔Conceit کا ایک اور مطلب ‘دور افتادہ خیال’ بھی ہے. فوری طورپر ان شعرا نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی اور ان کے اتباع میں بہت شاعری بھی کی گئی ۔ روایت کے حامیوں اور علمبرداروں نے اسے قبول نہیں کیا۔تقریبا ایک صدی بعد سیموئیل جانسن نے ان پر تنقید کرتے ہوئے ان کی شاعری کا اس درجہ استرداد کیا کہ انہیں شاعر ماننے سے بھی انکار کر دیا۔اس کا استدلال یہ تھا کہ شاعری کا اولین فریضہ اور مقصدقاری کو شعری حظ سے لطف اندوز کرنا ہے جیسا کہ ارسطو نے بوطیقا کے آغاز میں ہی کہہ دیاہے جبکہ مابعدالطبیعاتی شعراء کا کلام اپنے چونکا دینے کی خصوصیت کی وجہ سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، ہم ان کی استعدادِ علمی کی داد دیتے ہیں، ان کی ذہانت سے متاثر بھی ہوتے ہیں، مگر وہ شعری حظ نہیں اٹھا سکتے جو ہمارے دل و روح میں سرایت کر کے ایک سحر انگیزی میں مبتلا کر دے۔ ان تمام شعرا میں صرف John Donne ایک ایسا شاعر تھا جس نے اپنی فطانت کو لطفِ شعری کے ساتھ ہم آہنگ رکھا اور ایسی شاعری تخلیق کی جسے پڑھ کے ہم آج بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔اس شعری کامیابی کی ایک وجہ اس کے موضوعات بھی تھے جو محبت اور الوہیت جیسے بنیادی انسانی جذبات سے متعلق تھے،اگر غور کریں تو وہ اردو غزل جسے ہم آج کے عصر کی تازہ اور نمائندہ غزل کہہ رہے ہیں وہ اسی منظر نامے کی عکاس ہے جیسا کہ میں آغاز میں بیان کر چکا ہوں۔
اس تمام پس منظر کو حال کے تناظر میں دیکھتے اور سمجھتے ہوئے دانیال طریر نے بنیادی انسانی سوالات اٹھانے کے لیے نئے استعارے،علامتیں اور اشارے بنائے۔ جہاں وہ مروج استعاروں اور علامتوں میں بات کرتا ہے وہاں ان کے معنی کو تبدیل شدہ حالت میں استعمال کرتا ہے، کبھی مثبت استعاروں کو منفی معنوں میں اور کبھی کبھی منفی استعاروں کو مثبت معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ وہ بچپن میں سنی اور پڑھی ہوئی کتھاؤں سے متاثر ضرور ہے مگر اس کی شاعری میں آکر ان علامتوں کے معنی بدل جاتے ہیں۔ وہ سانپ یا ناگ کا ذکر کرتا ہے،جسے اردو کلاسیکی شاعری میں صرف زلف کے لیے برتا جاتا تھا، تو اس کی مراد ایک مقدس حیرت کی ہے جس کی کھوج سے عقائد اسے منع کرتے ہیں لیکن وہ اسے نہ صرف دیکھ کر بلکہ چھو کر بھی محسوس کرنا چاہتا ہے۔
زمیں پہ ناگ ہیں اور ان کے منہ میں خواب کی لو
کہانیوں سے ڈراتی ہے سبز آگ مجھے
اسے اس بات کا بھی احساس ہے کہ نادید کی اس مقدس حیرت سے متعلق تشکیک اسے اس کے ایقان سے محروم بھی کر سکتی ہے۔ اوہام سے پیدا ہونے والی اس تشکیک کا زہر ا اس کے جسم سے زندگی کے تمام آثار مٹا سکتا ہے۔
طریر سانسوں کا رنگ نیلا ہوا توجانا
خبر نہیں تھی یہ سانپ ہیں جن کو پالتا ہوں
یہ تجسس اس کی حیات کے سارے داخلی اور خارجی منظرنامے کو تباہ کر سکتا ہے۔ اپنے وجود اور روح کی ماہیئت سے متعلق سوالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ادراک سے در آنے والے مزید سوالات خود آگہی کے جس کرب میں مبتلا کرتے ہیں اس کی ایک شکل اس شعر میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بنے ہیں ناگ، مرے بن میں پیڑ جتنے تھے
لگی ہے آگ،صبا کا سبھاؤ ایسا تھا
سانس زندگی کی سب سے بڑی علامت ہے، مگر اتنی حیرت آمیز فضا جس میں یہ یقین نہ ہو کہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اورجن نظریات کے ساتھ گزار رہے ہیں وہ کہیں اس کے متضادہی نہ ہو جیسا کہ ہم مانے ہوئے ہیں تو یہی سانس تن من جلا دیتی ہے، اور یہی اس کے اندر کاچھپا ہوا خوف ہے۔
پتوں کی صدائیں نہیں،پھنکار سنی ہے
اژدر کوئی اشجار میں دیکھا ہے خدا خیر
یہاںٖFruedکا ذکر نہ کرنا غلط ہو گا۔ اس نے سانپ کو ایک جنسی علامت کے طور پر دیکھا ہے اور اسی کی ایک شکل D. H. Lawrence کی بلند پایہ نظم The Snake میں ملتی ہے جہاں سانپ ایک معاشرتی اور مذہبی taboo کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور یہ شکل دانیال کے ہاں بھی ایک سطح پر موجود ہے۔
نجانے رات مرے دل میں کیا خیال آیا
پٹاریوں میں پڑے سانپ سب نکال آیا
نروان کے حصول کی کوشش میں جو اوہام دھیان گیان لگا کے بیٹھے ہوئے بدھا پر حملہ کرنے آتے ہیں جن کا ذکر بدھ مت کی مذہبی کتابوں میں بھی ملتا ہے، ان کا اظہار بھی سانپ سے کیا ہے۔
پھر میں تھا،اژدھوں کا علاقہ تھا،خوف تھا
اپنی طرف خدا کو بلانے کی دیر تھی
یہ ایک صوفی کا تجربہ بھی ہے جو اپنی باطنی سچائی تک رسائی چاہتا ہے اورظاہری طور پر ہر طرف سے برائیوں میں گھرا ہوا ہے۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ اشعار محض دیو مالا یاخفقان hallucination,،کی فضا کی بات نہیں بلکہ اس سے آگے کی کسی بڑی اور کائناتی حقیقت تک رسائی کی ہے۔
وہ کسی ادعا اور تحکم کے بغیرحقیقت تک رسائی کی کوشش کرتا ہے جو کہ ایک فلسفیانہ رویہ ہے ، مگر اس کا رویہ فلسفی سے مختلف ہے کہ وہ ایک چھوٹے بچے کی حیرت سے، جو پہلی بارکسی چیز کو دیکھ کر خود سے معنی نکالنے کی کوشش میں ایک معصومانہ خوف سے دوچار ہو جاتا ہے، کی طرح اپنے دخل اور خارج کے تعلقات کا اظہار کرتا ہے۔ اس فلسفیانہ اور معصومانہ رویوں کے امتزاج سے اس کے اکثر اشعار میںparadox،متناقض، کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ کیفیت نفی اثبات کے یکجا ہونے سے بھی پیدا ہوئی جیساکہ ہیگل نے اپنی تحریروں میں بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اس ضمن میں دانیال کی چارغزلیں جن میں نفی کی ردیف ہے،خاص طور پر قابل ذکر ہیں،مطلعے یہ ہیں
چاند چھونے کی طلب گار نہیں ہوسکتی
کیا مری خاک چمکدار نہیں ہوسکتی
خواب کاری وہی،کمخواب وہی ہے کہ نہیں
شعر کا حسن ابدتاب وہی ہے کہ نہیں
رنگ اور نورکی تمثیل سے ہوگا کہ نہیں
شب کا ماتم مری قندیل سے ہو گا نہیں
دعا کرنے سے نفرت ہے،نہیں تو
خدائی کی ضرورت ہے، نہیں تو
ان تمام غزلوں میں غالب تاثر ایک داخلی مکالمے کا ہے، خودکلامی کا نہیں،شاعرسوال کرتا ہے جو ایک جواب بھی ہے اور پھر دوسرے مصرعے میں نفی میں ایسا جواب دیتا ہے جو اثبات بھی ہے اوراشعار میں مضامین کی نوعیت ایسی ہے کہ جو ہمیشہ سے انسان اس کے داخلی ماحول اور خارجی معاشرے اور کائنات کے درمیان گھومتے رہے مگر کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ مثلا یہ شعر انسانی تلاش اور محرومیوں کی تاریخ ہے
ہوا بن کر چلوں اور خاک چھانوں
یہی کیا میری قسمت ہے،نہیں تو
بڑا ادب بڑ ے سوالات سے تخلیق پاتا ہے اور بڑے سوالات اٹھاتا ہے۔ دانیال کی غزل بڑے اور انسانی معاشر ے اور فرد کی اساس سے وابستہ سوالات اٹھانے کی اہمیت رکھتی ہے۔ ان سوالات میں دید کی حیر ت بھی ہے اور یافت کی لگن بھی۔ اس کے یہ سوالات الہامی اور مقدس متون کے بطن سے بھی پھوٹتے ہیں اور فلسفیانہ نہج کے بھی ہیں۔
یہ جہانوں کا،زمانوں کا،مکانوں کاسفر
غیب نے لفظ سے یا معنی سے آغاز کیا
جسم اور اسم مجھے کیسے ملے کس نے دئیے
ان سوالات کی حیرانی سے آغاز کیا
طریر آنسو ہیں اور دھندلاہٹیں ہیں
یہ کیسی کہکشاؤں کی جلو ہے
ایک اور سطح پر خواب اور کمخواب کی غزلوں کا مکالمہ انسانی تہذیب سے ہے جو ارتقا پذیر ہے اور بہت سارے مراحل طے کر کے حال کی منزل پر پہنچی ہے۔ یہ حال کسی آنے والی نسل کا ماضی ہوگاجیساکہ ماضی کبھی بہت سی نسلوں کا حال تھا۔ دانیال کو اس چیزکا احساس اور شعور دونوں ہیں کہ انسان نے تہذیب کے مراحل طے کرتے ہوئے بہت سی وحشت اکٹھی کی ہے جس کا اظہار سے انسانی تاریخ بھر پڑی ہے، اس کے نزدیک انسانی تہذیب کی تاریخ دراصل امن سے جنگ ،یقین سے تشکیک،انسانیت سے بربریت کے سفر کی داستان ہے۔ اسی لیے وہ انسانی معاشرے سے متعلق بیان کے لیے جنگل کے استعارے اور علامتیں لاتا ہے اور ارتقاء کے اس سفر پر الٹا چلنا چاہتا ہے، اس کے نزدیک ساری انسانی تاریخ انسان کے انسان پر اور اپنے اردگرد کے ماحول اور مخلوقات پر اپنی بھوک مٹانے کے لیے کیے گئے ظلم کی داستان ہے،
جرس اور ساربانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
یہ دل اگلے زمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
شکم کی آگ نے بیلوں کو ہنکانا سکھایا
وگرنہ ہل چلانے کا رادہ ہی نہیں تھا
ہمیشہ نوچ لیتی تھی خزاں شاخوں سے پتے
مگر اس بار تو اشجار لے کر جا رہی ہے
مجھ سے بات کرتے ہیں پیڑ بھی پرندے بھی
کیا ہوا ہے اس بن سے پہلے بھی گزر میرا
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زندگی گزشتہ صدی کے دوران بہت پیچیدہ ہوگئی ہے ،اتنی پہلے کبھی نہیں تھی، ادب زندگی کا جمالیاتی اظہار ہے اور اب یہ روایتی سادہ روی سے ممکن نہیں ہے۔ ہمارے عہد کی پیچیدگی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے جمالیاتی اظہار میں بھی تہہ داری پیدا کی جائے۔ دانیال نے اس بات کو سامنے رکھ کر جب برگشتہ طالعی کے عالم میں بارش کی جگہ آگ برسنے کی بات کی تو کہا
الٹے ہاتھوں ہم نے جتنی دعائیں مانگی ہیں
جلتی دھوپ اور تو ہے ان کا حاصل اے صحرا
اور اسی طرح جب وہ فرد کی خواہش کے ساتھ جبرِ تقدیر کا مذکور لاتا ہے جو ہومر سے لے کے تقریباً ہر شاعر کے ہاں ملتا ہے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے بالکل نئی بات ہے اور ایسا صرف تازہ اور خالصتاً شاعرانہ اظہار سے ہی ممکن ہوا ہے
بلا جوازنہیں ہے فلک سے جنگ مری
اٹک گئی ہے ستارے میں اک پتنگ مری
رکی ہوئی تصویر کی جگہ ایک پوری فلم آنکھوں کے آگے سے گزر گئی جس کا مکمل سیاق و اسباق بھی بین ا لمتن دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اکیلے تشبیہوں اور استعاروں کو استعمال کرنے کی بجائے مرکب علامتوں سے مناظر تخلیق کرتا ہے جن کے بطن میں معنی چھپے ہوتے ہیں۔یہ مناظر ایک زمین زاد کی آنکھ سے دیکھے ہوئے تو ہیں لیکن وہ انہیں توڑ کر پھر سے ترتیب دیتا ہے اور قاری کو ایک جہانِ حیرت میں لے جاتا ہے جہاں سے واپسی بہت آسان نہیں ہوتی، یہ مرکب استعارے،حسیات اور ورائے حس چیزوں کے ادغام سے منظر سازی کرتے ہیں
زمیں پہ داغ بہت پڑ گئے تھے، خون کے داغ
فلک کو برف گرانی پڑی ہے آخر کار
یہ برف کے پھولوں سے بھرا کھیت سلامت
میں نے اسے کہسار میں دیکھا ہے خداخیر
خشک پات میرے ہیں پر نہیں ثمر میرا
ہاتھ جیسے شاخیں ہیں جسم ہے شجر میرا
کیا پری کو مجھے مچھلی میں بدلنا ہوگا
دیکھنے کے لیے تالاب وہی ہے کہ نہیں
یہ طلسمات کی دنیا ہے یہاں کیا معلوم
ایک دن مصر کے اہرام کو پر لگ جائیں
لوح افلاک پہ بادل مجھے خوش خط لکھیں
تو پکارے تو مرے نام کو پرلگ جائیں
دانیال طریر کی غزل کسی بھی طرح معمولی یا چھوٹے پردے کی شاعری نہیں، وہ بڑے خواب اور بڑے سوال کا شاعر ہے، اس میں نئے زاوئیے سے اظہار کی جرات ہے، روایتی قاری کے لیے کچھ مسائل ہو سکتے ہیں کیوں کہ روایت اپنی جگہ ایک بہت طاقتور چیز ہے اور اس کے سحرسے آسانی سے نہیں نکلا جاسکتا، دانیال طریر نے اس لئے بہت ذہانت سے روایتی استعاروں کو بھی ساتھ رکھا،جیسا کہ ایران کے وحدت الوجودی شعراء نے کیا کہ اپنے استعارے خمریات کی روایت سے ہی لئے لیکن برتاؤ سے ان کے معنی بدل دئیے،دیوانِ حافظ کی اولین دو اشعار اس ضمن میں دیکھئے
الا یا ایھاالساقی ادرکاساً و نا ولھا
کہ عشق آساں نمود اول ولی افتاد مشکل ہا
بمی سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بیخبرنبود زراہ و رسمِ منزل ہا
مے ، ساقی، پیالہ، پیر مغاں کے ذریعے تصوف کی بات کی گئی ہے، اب دانیال کا یہ شعر دیکھئے
کہاں اجالا کہا ں اندھیرا ہے جانتے ہو
دیا کدھر ہے،ہوا کدھر ہے خبر رسانوں
روایتی لفظیات سے نئے معنی نکالے ہیں اور ایک بے سمت معاشرے کی مکمل تصویر کشی کر دی ہے، آج کے میڈیا پر بھی طنز ہے جو کہ اس ساری غزل کی ردیف میں نظر آتا ہے ۔
اس کی شاعری پر بہت طویل بات ہو سکتی ہے، میں نے صرف ایک طالبعلم کی حیثیت سے چند کلیدی مقامات کی نشاندہی کی ہے۔،دانیال طریر انسانیت کا دکھ رکھنے والا انتہائی حساس شاعر ہے،وہ امن کے خدا کا ماننے والا ہے اور دنیا میں امن کا خواہاں ہے، اس کا ایمان کی حد تک یہ خیال ہے کہ لفظ کی حرمت قائم کرنے کے ذریعے دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور شعر کی صورت میں آکر لفظ اپنی ہیئت،صوت اور معنی میں تکمیل پاتا ہے،وہ فاختہ اور دئیے کے ساتھ اپنی شاعری کا ذکر کرکے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کی شاعری بھی امن اور نور کی علامت ہے ۔
جس جہاں کو ہماری ضرورت نہ تھی کیوں وہاں بس گئے
ایک میرا دیا، ایک میں بے ہنر، اک مری فاختہ
میں دعا گو ہوں کہ اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو اور مزید لوگ بھی اس مشترکہ خواب کے پیامبربنیں تاکہ دنیا سے ظلم اور ظلمت کا خاتمہ ہوسکے اور ہرطرف نور اور امن پھیلے۔