(طویل نظم سے اقتباس)
جہاں گرد!۔
سفّاک ظلمت کے پردے میں
رقّاصۂ شب تھرکنے لگی ہے
کوئی بے رِدا ہے یقینا
جوان گھنگھروؤں کی صدا میں
سسکنے لگی ہے
مگر میں تو اپنی ہی وحشت میں گم ہوں
مجھے ایسا لگتا ہے
میں اپنی آنکھیں گرا آئی ہوں
اور مرے خواب رستے میں گم ہوگئے ہیں
مگر ایسا کب ہے
مجھے یاد ہے اپنی آنکھوں کی تقصیر اب بھی
وہ صحرا کی وسعت میں مجنوں کی وحشت کا دامن پکڑنا
کنیزانِ شاہی کے جھرمٹ سے باہر نکل کر
محبت کے زنداں کی دیوار میں جا سمانا
وہ کچّے گھڑے کے سہارے
بپھرتی ہوئی موج کے ساتھ لڑنا
مجھے یاد ہے
بارہا اک تمھاری نگاہِ محبت شرر بن کے چمکی
تو بدلے میں تنہائیاں بیچ ڈالیں
ان آنکھوں کو گروی رکھا
اور بینائیاں بیچ ڈالیں
مجھے یاد ہے
میری آنکھیں ہمیشہ بہکتی رہی ہیں
محبت کے وعدہ شکن راستوں پر بھٹکتی رہی ہیں
مجھے کل بھی ڈر تھا
کہیں درد کی دھوپ میں تم
منافق رویّوں کی چھاؤں نہ رکھ دو
ان آنکھوں کے رستے اتر کر
مرے دل پہ پاؤں نہ رکھ دو
مجھے آج بھی یہ گِلہ ہے
جہاں گرد! تم نے ہمیشہ
ان آنکھوں میں تعبیر کے صرف سپنے سجائے
مری نیند کے دام سستے لگائے
151151151151
جہاں گرد!
تم تو عمودی لکیروں پہ چلتے ہوئے
دُھند میں چھپ گئے تھے
سو جنگل کی تنہائیوں میں نئے عکس
پھر سے مجھے کیوں دکھانے لگے ہو؟
کہو پھر سے کیوں یاد آنے لگے ہو؟
کہو
پردۂ چشم پر عہدِ ماضی کی کوئی جنوں خیز تصویر اُبھری
کہو کوئی بیتا ہوا ایسا لمحہ بھی ہے حافظے میں؟
کہ جب میرے دل میں
تمھارے شناسا مگر تلخ لہجے کی شمشیر اُتری
کہو قربتوں میں جدائی کے کانٹے پروئے تھے کس نے؟
بھروسے کی کیاری میں تشکیک کے بیج بوئے تھے کس نے؟
تمھیں یاد ہوگا
کہ اک خوب صورت سے گھر کا تمھی نے اشارہ دیا تھا
تمھیں یاد ہوگا وہ آنسو
جو پلکوں پہ ٹھہرا ہوا تھا غمِ بے گھری میں
اُسے میں نے پھر سے ستارہ کیا تھا
تمھیں یاد ہوگا
مجھے بھی کئی کام تھے جن کو میں نے
بس اک رقصِ آہُو میں گم کردیا تھا
بہت سے ارادوں کو مہندی کی خوشبو میں گم کردیا تھا
تمھیں یاد ہوگا
کہ اپنے لہو میں مچلتے ہوئے خواب
تکیے کے نیچے چھپائے تھے میں نے
محبت کے دھاگوں سے کاڑھے ہوئے پھول
بستر پہ لاکر بچھائے تھے میں نے
جہاں گرد! اپنے بدن کے کھلونے
تمھارے ہی کمرے کی الماریوں میں سجائے تھے میں نے
کرو یاد جب خود کو تقسیم کرکے
تمھارے ہی آنگن میں پریوں کو اور شاہ زادوں کو جھولے جھلائے تھے میں نے
کرو یاد جب اپنی ہر آرزو کا بلیدان کرکے
تمھارے ہی قدموں پہ سارے چڑھاوے چڑھائے تھے میں نے
مگر یہ رفاقت کا سارا سفر
رائیگانی کے دھاگوں میں الجھا ہوا ہے
وہ گھر آج تک اجنبیت کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے
جہاں گرد! کیوں دل دُکھانے لگے ہو؟
مجھے پھر سے بھولی ہوئی داستاں کیوں سنانے لگے ہو؟
کہو پھر سے کیوں یاد آنے لگے ہو؟