وحید نور کے شعری مجموعے ’’سکوت بول پڑا‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں پہلے تو میں انھیں خصوصی مبارک باد دوں گی کہ یہ اُن کا پہلا مجموعہ ہے اور پہلا مجموعہ پہلی اولاد کی طرح بہت عزیز بلکہ بے حد پیارا ہوتا ہے۔
شاعری خصوصاً غزل کے حوالے سے وحید نور کوئی ایسا نام نہیں جسے آپ اور ہم نے سنا نہ ہو۔ اُن کے نام اور اشعار ہم دونوں ہی سے واقف ہیں۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ ادیب و فن کار جب اُن کے نام کے ساتھ کام بھی یاد آتا ہے۔ وحید نور کے اشعار ہی نہیں، غزلیں بھی پڑھنے والوں کے حافظے میں محفوظ ہیں۔ خصوصاً ان کی وہ غزل جس کی ردیف ہے تُف۔ چند اشعار سنیے:
صبح کی شکل میں ہر رات پہ تُف
آج کی صورتِ حال پہ تُف
شہر کی سچی دِواروں کو سلام
آپ کے جھوٹے بیانات پہ تُف
کارو کاری ہو ونی ہو کہ ستی
ساری فرسودہ روایات پہ تُف
ان اشعار سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ وحید نور کا سیاسی و سماجی شعور کتنا واضح ہے اور کتنی شدت کے ساتھ اشعار میں ڈھلتا ہے۔ اس واضح شعور کا سچا اظہار اور اپنی لفظیات ان کی انفرادی شناخت کا باعث بن جاتی ہیں۔ غزل جیسی روایتی صنف جس کے سرمائے میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس میں اپنا مخصوص رنگ پیدا کرنا ہی دراصل وحید نور کا کمال ہے۔
وحید نور کی لفظیات و موضوعات کے ساتھ ان کا آہنگ بھی قاری کو متاثر کرتا ہے۔:
سب خوش ہیں یہاں کوئی ہمی تنگ لگے نا
یہ جنگ ہی ایسی ہے کوئی جنگ لگے نا
سینے میں تُو اے دل تو سماتا ہی کہاں ہے
ڈرتا ہوں کہ صحرا بھی تجھے تنگ لگے نا
منفرد ردیف کا استعمال وحید نور بڑی سادگی سے کر جاتے ہیں مثلاً ایک غزل کی ردیف ’’سگریٹ‘‘ ہے:
بس ایک کش میں زمانے گھما گئی سگریٹ
میں کیا کہوں؟ مجھے کیا کیا دکھا گئی سگریٹ
دُھویں سے ہوگئی تخلیق اک نئی دنیا
مجھے تو یار مصور بنا گئی سگریٹ
تُف، نا جیسی ردیفوں کے ساتھ قدرے طویل ردیف بھی وحید نور نے استعمال کی ہے۔ کوئی بنا بنایا استعارہ یا کسی استاد کی ردیف سے الگ اپنے ہی رنگ اور اپنی لفظیات میں طویل ردیف کو نبھانا مشکل انداز ہے جو انھوں نے اختیار کیا ہے۔ مثلاً یہ ردیف دیکھیے جو ایک مصرعے جیسی ہے:
فلک کا ٹوٹا ہوا ستارہ تجھے گوارا مجھے نہیں ہے
یہ تِیرگی کا نیا اشارا، تجھے گوارا، مجھے نہیں ہے
غلام ابنِ غلام ہوکر، یہ تاج پہنا تو کس کی خاطر
قدم قدم اک نیا سہارا، تجھے گوارا، مجھے نہیں ہے
یہ سب وسائل یہ پھیلے ساحل، کروں میں کیسے حوالے اس کے؟
جو ہے ہمارا، نہ ہو ہمارا، تجھے گوارا، مجھے نہیں ہے
ایک اور ردیف ہے، ’چُپ ہے۔‘‘ اس غزل کی رواں بحر میں ’’چُپ ہے‘‘ کی ردیف سے قاری کو اک خطیب کی طرح متوجہ کرلیتے ہیں اور اس کے شعور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ریاستیں ہیں ریاستوں میں غلام ابنِ غلام چپ ہیں
خطیب و قاضی، شیوخ و مفتی، ہیں جتنے واعظ، امام چُپ ہیں
فنونِ مکتب کی ڈائری کے بکھر رہے ہیں کمال پنّے
قلم قبیلہ ہے رخصتوں پر، ادب کے سارے نظام چُپ ہیں
خطیب و قاضی، ہنر کے داعی، قلم قبیلہ کہ اہلِ دانش
تمام چُپ ہیں، تمام چُپ ہیں، تمام چُپ ہیں، تمام چُپ ہیں
طویل بحر اور ردیف میں ایک مطلع سنیے:
سرکتے سانپ سی ہے رات مجھے خوف آتا ہے
فضائے صورتِ حالات مجھے خوف آتا ہے
وحید نور کے مجموعے کا نام ’’سکوت بول پڑا‘‘ گہری معنویت رکھتا ہے۔ سکوت جب بولتا ہے تو شاعری جنم لیتی ہے۔ یہ شاعری خاموشی کی وہ آواز ہے جو دل سے نکل کر دلوں تک پہنچتی ہے اور دھڑکنوں کے ردھم سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔
جو چھڑ رہا ہے دل میں اسی ساز کو سمجھ
جو عشق نے دیا ہے اس اعزاز کو سمجھ
لب بستہ رہ کے بھی میں سناتا ہوں حالِ دل
خاموش ہوں مگر میری آواز کو سمجھ
کربلا کا استعارہ اردو شاعری میں متعدد شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ وحید نور نے اس استعارے کو بھی اپنے انداز میں برتا ہے:
میں دشتِ نینوا کا ہی آفت رسیدہ ہوں
پہچان لو حسین ہوں اور سر بریدہ ہوں
آسودگی نہ پائے گی نہرِ فرات بھی
میں کربلا کے غم میں اگر آبدیدہ ہوں
وحید نور کا براہِ راست تعلق بلوچ روایت سے ہے۔ ان کی شاعری میں بلوچ لوک داستانوں کا حوالہ اور ان کے کرداروں کی تمثیل بھی خوب صورتی سے اظہار پاتی ہے۔
شہ مریدوں کو محبت پانیوں سے ہو تو ہو
پر وطن کے عاشقوں کا مرتبہ کچھ اور ہے
وحید نور کے اس پہلے مجموعے سے ہی وہ توقعات مستحکم ہو رہی ہیں جو ان شعرا سے وابستہ ہوجاتی ہیں جنھیں قدرت سے شاعری کا عطیہ ملتا ہے۔
ہمیں اُمید ہے کہ یہ مسلسل لکھتے رہیں گے اور ان کے مزید مجموعے سامنے آئیں گے۔ ایک اور بات یہ کہ یہ غزلیں مسلسل لکھتے ہیں اور فکر ان کی شاعری میں رچی بسی ہے تو انھیں نظمیں بھی لکھنی چاہییں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے