تم نہیں سمجھو گے
دلوں کو جوڑنے والی محبت کے اسرار
تمہیں تو جسموں کے چیتھڑے اڑانا سکھایا گیا ہے
ایسا ہی کوئی
بابا فرید کو بھی مٹانے آیا تھا
کہاں ہے وہ
شائد روپ بدل کر
کسی صوفی کے مزار پر گھات لگائے بیٹھا ہو گا
وہ غریب کون تھے
جو پیدل میلوں کا سفر کر کے یہاں تک پہنچے تھے
کئی راستے کی صعوبتوں سے جاں ہار گئے
اور کئی مزار پر
مست اپنے دھیان میں
وجد میں آ کے
دھمال ڈالتے تھے
یہ تو محبت شاہ کے فقیر تھے
مگر دلوں کے سودے
ظاہر کے پجاری کیا جانیں
مار مار کے دل نئیں جیتے جاتے بے آسرا ،
سب سے غریب خطے کے باسی ہیں یہ
کوئی ان کے مرنے پر آزردہ ہو نہ ہو
صوفیاء کے متوالے
دل سے دل کا سفر کرتے روح تک پہنچیں گے
زخموں سے چور
آج بھی اور کل بھی
نعرہ لگائیں گے
جئے شاہ جبل میں
شاہ نورانی نور ہر بلا دور
جئے شاہ نورانی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے