ساجد !شہر ڈو ونج ،مگر شرط ہے ایہا
سینہ جے میڈی جان! زمانے دا صاف ہے
ہماری دھرتی اور ہمارے خطے کے عا لمگیرشاعر فرید ساجد کا یہ شعر عکاس ہے ان جذبات کا، عکاس ہے اس خوف کاجو ہم سب کو لاحق ہے، یہ خوف محض واہمہ نہیں یقین ہے۔ اس خوف سے لاپروائی خود کو خطرات سے دو چار کرنے کے مترادف ہے۔’’مائیں ‘‘ ، اس خوف سے اپنے جگر گوشے شہر نہیں بھیجتیں کہ ان کا سلامتی کے ساتھ لوٹنا نا ممکن ہے۔۔۔بچوں کی واپسی ماؤں کے ’’بین‘‘پر منتج ہوتی ہے۔’’تنگ نظر معاشرہ‘‘ہماری اقدار، اخلاق ،روایات ،رسوم،ادب ،ثقافت اور اظہار کے سلیقے کا جانی دشمن ہے۔اس کی نظر میں مذکورہ سچائیاں اور حقیقتیں ’’انکار‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔اور فرسودہ ونظام کہن سے انکار گویا ’’کفر‘‘ ہے۔’’کفر ‘‘کے ارتکاب کی سزاس وقت دور کے ہر ’’سینہڑو‘‘ پر لاگو ہو چکی ہے۔جس پر رفتہ رفتہ گردن زدنی کی شکل میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔تاکہ پیرا یہ ء اظہار کی بلاغت پر یقین رکھنے والے اس عبرت ناک انجام سے باخبر ہو سکیں اور آئندہ ’’انکار‘‘جیسی ’’توہین‘‘ کے مرتکب نہ ہوں ۔۔۔۔!
زباں بندی کے احکامات گویا مقدس ٹھہر چکے ہیں اور خیالات بھی مقفل ہو چکے ہیں۔شعور‘شاعر کوڈ سنے لگاہے۔جبھی تو آج مقدس افکار محبوس ہیں۔اعلیٰ شعور ادنیٰ درجے پر متمکن اور قابض ہے۔ تازہ ہوا کا جھونکا تک نصیب نہ ہے۔جیسے سوچیں پابند سلاسل ہو چکی ہوں۔اردگرد پر سرسری نگاہ بھی نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ لہولہان اجسام اور مسخ شدہ چہرے ہمیں ہمارا اندر دکھا رہے ہیں۔ایسے میں دل کرتا ہے کہ سماج کے اس خونخوار اور بھیڑیانماء آدم کا چہرہ نوچ لوں۔مسخ کر دوں۔۔۔۔جو آدم، انسانیت کی منزل نہیں پا سکا وہ دھرتی ماں پر ’’بار‘‘ ہے۔اس کا قدم قدم مقدس دھرتی کوڈس رہا ہے۔اس ناگ کا سر کچلنے میں ہی عافیت ہے۔ انصاف کا قحط ہے ۔جہاں قحط الرجال ہو وہاں عدل نا ممکن ہوتا ہے۔فلسفہ کے نام پر دھوکا ہے۔لفاظی اورگفتار محض دھوکا ہے۔منطق سے عاری مفکر ،شعور کی موت کا سبب ہے۔اگر اس کا اندر سچائی کا مرقع ہوتا تو وہ بذات خود امن کا سر چشمہ اور ماخذ ہوتا ۔اس سے دھرتی کو ’’سکھ‘‘،’’سیت‘‘ کی صورت ملتا ۔مگر معاملہ تضاد کا شکار ہے۔یہ سطحی سوچ اسے ناقابل تلافی نقصان سے دو چار کر رہی ہے۔مگر ’’فلسفی ‘‘ اس کا شعور نہیں رکھتا۔ اندھیروں میں ڈوب چکا ہے۔ دیدۂ بینا سے محروم ہے۔’’ من کی تاریکی‘‘ کے تدارک اور ’’تاریک من‘‘کو منور کرنے کے لیے فرید ساجد لغاری نے ’’سینہ جے میڈی جان ! زمانے دا صاف ہے‘‘کا وعظ سنا یا۔
میرے دوست ، سب کے سانجھے دوست ڈاکٹر عباس برمانی سے جب بھی نشست ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ یہ بات دہرائی کہ ہم ابھی تک’’ احسان ‘‘تک نہیں پہنچے ’’عدل ‘‘تو دور کی بات ہے‘‘۔ یعنی سماج کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر احسان اور عدل کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہوں ۔عدل اور احسان ،جذبہ قربانی کے دو بیانیے ہیں جن پر ا عمل پیرا ہو کرامن اور صراط مستقیم پر چل سکتے ہیں۔باالفاظ دیگر ،منزل کا حصول ناممکن ہے۔ عدل ، انصاف کے مرادی معنی میں استعمال ہو سکتا ہے۔اور احسان ،قربانی کا اسم ثانی بھی ہے۔ احسان کا حسن کبھی ماند نہیں پڑ سکتا۔ اور عدل، انصاف کی واضح کیفیت اور حقیقت ہے۔اگر ہم عدل کا دامن چھوڑ دیں تو ’’انارکی‘‘ کا شکار ہوجائیں ۔
جیسا کہ اس وقت سماج اخلاقی تنزلی کا شکار ہے۔ یہاں اپنے استاد سئیں فرید ساجد کا ایک اورشعرفٹ آ رہا ہے :
تیڈی تاں تول کاچھی وی کاپو دے وانگ ہے
تیڈا مزاج وی تاں جگر نا شفاف ہے
جب بھی کدورت سے کام لیا جاتا ہے ۔تو حقیقت کے قرب سے دوری مقدر ٹھہرتی ہے۔ سچائی کو ماند کرنے کی سعئی لا حاصل کی جاتی ہے۔اندھیرو ں کو دعوت دے کر سچ کے نور کو بے نور کرنے کی کوشش میں اپنے آپ کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔یوں اپنی حقیقت کی شناخت مسخ ہو جاتی ہے۔جب حقیقتوں سے ’’انکار‘‘ کی رسم عام ہونے لگتی ہے تو ظلمت ’’وسبے‘‘ کا مقدر قرارپاتی ہے۔جبھی تو’’تیڈی تاں تول کاچھی وی کاپو دے وانگ ہے‘‘ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرید ساجد نے ظالم بے انصاف اور کاپو (کرپٹ) نظام پر کاری وار کر کے’’ نوید صبح‘‘ دی ہے۔۔۔۔۔!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے