کیا عالَم تھا وادی میں عْشّاق کے سائے بَستے تھے
پھولوں کی قیمت کے آگے لعل، جواہر سَستے تھے
فیروزی تھا رنگ زمیں کا اور خِلائیں ململ کی
میٹھی خوشبو میں بھیگی مِٹی تھی، کچے رستے تھے
دَھنک کتابوں کے اوَراق پہ خواب سے لکھی نظمیں تھیں
بچوں کے روشن ہاتھوں میں نَم سبزے کے بَستے تھے
پھر وہ دور آیا معدْوم بلائیں نکلیں قبروں سے ،
خیر اور شر کی جنگ نہ تھی، فِتنے فِتنوں کو ڈستے تھے
یوں عْشّاق کے سائے بھْونے نفرت نے تاریکی میں
خون کے جَھکڑ چلتے، نرم ہَوا کے زخم بھی رِستے تھے
فِکری پَستی کو آفاق کی گردِش کہہ کر ٹال دیا
قْدرت کے قانون ہماری کم فہمی پہ ہنستے تھے