ہونٹ کے زاویوں میں
بھٹکتے ہوئے تم نے کتنے کونے دیکھے
بے معنی آہٹوں
بے شناخت چہروں میں
تم نے151 کیا کچھ ڈھونڈا؟
تم کہاں کہاں گئیں،
انسانی عظمتوں کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر
مگر اس پہ اپنے ہی لفظوں سے پیوند
لگاتی رہیں
حواس کے یہ شعبدے تمھارے سامنے ہیں
تم نے زمینی کھیلوں کو دیکھا کہ
شطرنج کی بساط پر گھوڑا ڈھائی قدم چلا
اور زمین کا رنگ بدل گیا
بدلے ہوئے رنگوں میں بھٹکتے ہوئے
کیا تم بغیر سیاہی کے سفیدی کو ڈھونڈ سکیں
کبھی روشنی کی لکیر، اندھیرے میں مدغم ہوکر گم ہوگئی
کبھی اُجالوں نے اندھیرے کو گلے لگا لیا
اور تم نے چکاچوند سے گھبرا کر آنکھیں موند لیں
کیا یہ بھی حواس کا کوئی شعبدہ تھا؟
جب بھی تم نے چاہا لفظ کو بے معنی کردیا
اور جب چاہا خاموشی میں آواز ڈھونڈ لی
تمھارا یہ سفر کس کے لیے تھا؟
کہہ لو151 اپنے لیے
لیکن! یہ سب شریکِ سفر
تمھارے لفظ کیوں ان کی گواہی بن گئے ہیں
ہاں تم ان کی مقروض ہو
جتنے پیوند ان سے لیے ہیں انھیں دے کر
آج بے لباس ہوجاؤ

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے