چاند کے ساتھ گئی جھیل کی تابانی بھی
سسکیاں لینے لگے رات کے زندانی بھی

شہرِ معلوم کی گلیوں سے گزرتے لوگو
دھیان میں رکھنا کوئی لمحہء امکانی بھی

ساتھ چلتی ہے کسی منزلِ گم نام کی اور
گام دو گام مری بے سروسامانی بھی

آئنہ وار مجھے دیکھے چلی جاتی ہے
تیری تصویر سے لپٹی ہوئی حیرانی بھی

ہجر زادوں سے ترے خواب کی دولت بھی گئی
سو گئی عرصہء تعبیر کی ارزانی بھی

تہہ میں پوشیدہ خزانوں کی خبر دیتا ہے
تیرے دریاؤں کا ٹھہراؤ بھی، طغیانی بھی

رہتی ہے میرے تعاقب میں ہوا بھی فیاض
آگ بھی میرا پتہ پوچھتی ہے، پانی بھی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے