فروری 2016
ویمن مارچ آن واشنگٹن کے ٹائٹل کے ساتھ ماہتاک سنگت کھولا تو اداریہ بھی اسی موضوع پر تھا۔ ہمیشہ کی طرح دماغ کی گرہیں کھول دینے والا اداریہ تھا جس میں گلوبل سرمایہ داری کے خلاف عظیم احتجاج کا احوال تھا۔عورتوں کے حقوق نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بحالی کا جلوس تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے بڑے اچھے انداز میں بتایا کہ ،’’ یہ متحد کرنے والا ایک ایسا مارچ تھا جو نسل پرستی، عورت سے نفرت اور استحصال کے خلاف تھا۔ بلا شبہ ویمنز مارچ نے دنیا بھر کی عورتوں کو آواز بخش دی۔‘‘ بتایا کہ عورت کے حسن کی تعریف نہیں بلکہ اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جائے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مارچ زمین اور اس پر بسنے والی تمام مخلوقات کو بچانے کا مارچ تھا۔
سال بدلتا ہے تو ہم سب کے ذہن میں یہ بات گردش کرنے لگتی ہے کہ کیا بلوچستان کے حالات بھی بدل جائیں گے۔۔۔؟ اور جب حالات ایک سے رہتے ہیں تو اضطراب بڑھ جاتا ہے۔اسی سوچ کو لیتے ہوئے وحید زہیر صاحب نے اپنا مضمون ،’۲۰۱۶ء اور بلوچستان ‘میں ہر بلوچستانی کی طرح اور ہمیشہ کی طرح یہ سوال چھوڑے کہ آخر کیوں اب تک بلوچستان کو سوتیلا سمجھا گیا۔۔۔؟ تاریخیں بدلتی ہیں ، ہندسے بدلتے ہیں لیکن حالات نہیں بدلتے۔ وہی خون ریزی، وہی بے اعتنائی اور استحصال میں وہی مستقل مزاجی۔ ۲۰۱۶ء میں بھی بلوچستان خون آلود رہا۔
ایک دھماکہ قسم کا مضمون شاہ محمد مری صاحب کا ’’ شاہ لطیف، صوفی نہیں ، یوٹوپیائی فلاسفر‘‘ جو سب کو پڑھنا اور سمجھنا چاہیے کہ یہ سب ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ مضمون میں ہے کہ شاہ لطیف ہوں یا مست یا دوسرے بزرگ ہمارے رہنما ہیں ، ان کی تعلیمات سے ہمیں راستہ ملتا ہے۔ وہ سب انسان تھے انسان سے محبت، زمینی محبت کی بات کرتے تھے ۔ انسان کی فلاح کی بات کرتے تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اصل تعلیمات عوام تک پہنچنے نہیں دی جا رہیں ۔ کھوکھلے مجاوروں ،دھمال میں لوگوں کو مصروف کر کے ہماری ریڑھ کی ہڈی پر گہری چوٹ لگا کر ہمیں Detrack کیا جا رہا ہے کہ ہم کسی کام کے نہ رہیں اور کوئی Positive Change نہ آنے پائے۔ ایک اور مزے دار بات جو ڈاکٹر صاحب کی مجھے سمجھ آئی وہ یہ کہ بزرگی در اصل ایک صفت ہے جو کسی بھی انسان میں ہو سکتی ہے، اس کے لیے دن رات عبادت کرنایا عالم ہونا ضروری نہیں ۔
قلا خان خروٹی نے اپنی تحریر’’ اصطلاحات کی تفہیم‘‘کا آغاز بڑی خوب صورتی سے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جامد معاشرے ہر طرح کے انقلابات سے مکمل طور پربے نیاز اور بے خبر رہے ہیں اوراب تک Mythsکی دنیا میں رہتے آ رہے ہیں ۔ انھوں نے ایک خوب صورت تمہید باندھی اور بڑے اچھے طریقے سے تمام مذاہب کی آزادی کی طرف آئے اور اس کے بارے میں اپنے قاری کو بتایا۔
’’ٹرک ڈرائیور‘‘ کے نام سے اس دفعہ ایک پشتو کا مضمون بھی سنگت کا حصہ بنا ، جسے شمیم کاکڑ نے تحریر کیا ہے ۔جس میں انھوں نے ہمای ملاقات ’’ لاخک استاذ‘‘ سے کرائی ۔ جی ہاں وہی لاخک کہ جن کے نام ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے اپنی کتاب’’ کمال خان شیرانی‘‘ کا انتساب کیا ہے۔شمیم کاکڑ نے اپنے اس بہت اچھے مضمون میں بتایا کہ ہر ترقی پسند اور انقلابی کی طرح لاخک بھی مولوی اور گاؤں والوں کے زیرِ عتاب آیا۔اس کے خلاف کفر کے فتوے دیے، انھیں قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے ،۔ان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا ۔یہاں تک کہ ان کے گھر کی خیرات بھی نہیں کھائی جاتی کہ ہم کافر کی خیرات نہیں کھائیں گے لیکن لاخک استاذ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے نہیں گھبرائے اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور آخر کار وہی مولوی تھا کہ جب پشتو ملی عوامی پارٹی اور جمعیت کا اتحاد ہو گیا تو دوبارہ فتویٰ دے کر لاخک استاذ کو مسلمان قرار دیا۔ شمیم صاحب نے بہت خوب صورتی سے لاخک استاذ کی شخصیت اور ان کے کام کو اپنے مضمون میں بیان کیا۔
’’ بھوک‘‘ کے نام سے حفصہ حسنی نے ایک مختصر سا مضمون لکھا ، جس میں اس نے بلوچستان اور پوری دنیا میں معاشی دوڑ، معاشی حالت اور اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا پورا نقشہ بہت اچھی طرح کھینچا اور رہنماؤں کو جاگتے رہنے کی صدا لگائی۔ مضمون سے لگا کہ وہ بہت اچھا لکھ سکتی ہیں۔
سی آر اسلم ، جن کا ہمیشہ نام سنا اور ان کے بارے میں اب تک نہیں پڑھ پائی تھی ’’نیکی کرنے والا انسان ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے ان پر ایک بہت اچھا مضمون لکھا۔ انھوں نے بتایا کہ سی آر اسلم ہمیشہ روح کو کھوکھلا کرنے والی بیماریوں خود پرستی، علم کا غرور،منافقت میں مبتلا نہیں تھے۔ ایک سچے انسان اور عملًا انقلابی تھے۔ وہ امید کے تاجر تھے ۔ خود بھی پر امید رہتے تھے اور دوسروں کو بھی امید کی توانائی اپنی گفتگو اور اپنے عمل سے دیتے تھے۔ ان کی ایک اور بڑی خوبی یہ تھی وہ اپنی غلطیاں مان کر دوبارہ کرنے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔ سی آر اسلم صاحب کے بارے میں یہ مضمون پڑھ کر جی چاہا کہ کچھ مزید ان کے بارے میں پڑھا جائے۔
حال ہی میں وفات پانے والے ’غلام قادر بزدار‘ کے لیے محمد رفیق مغیری کی ایک مختصر تحریر تھی جس میں کہا کہ بزدار صاحب تقریبا ۴۰ کتابوں کے مصنف تھے۔ انھوں نے بلوچی اشعار کا اردو میں ترجمہ بھی کیا اور قرآن پاک کی مختصر سورتوں کا بلوچی میں منظوم ترجمہ بھی۔ سادہ سا مضمون تھا ۔
مخدوم ایوب قریشی نے ’’ فیڈل کاسٹرو‘‘ کا مضمون جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ان کی کیوبا کے لیے جدوجہد اور انقلاب کی داستان ہے کہ کس طرح فیڈل کاسٹرو نے چے گویرا کے ساتھ مل کرسرمایہ دارانہ نظام، جابر و آمر کے خلاف جنگ کی اور کامیاب ہوئے اور ساری جدوجہد میں انھیں قید و بند اور جلا وطنی کے دکھ بھی سہنا پڑے۔
پوہ و زانت کے سیکشن میں اس بار تین بلوچی مضامین شامل تھے۔جن میں پہلا میر عبداللہ جان جمالدینی پہ ڈاکٹر ٖغفور شاد نے لکھا، جو ان کی بلوچی زبان کی خدمات کے حوالے سے تھا۔ مضمون میں عبداللہ جان کی بلوچی زبان کے رسم الخط، بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ بلوچی کی بنیاد، بلوچی کتابوں کی اشاعت وغیرہ سے متعلق ان کی خدمات کا مختصراً مگر جامع طور پراحاطہ کیا گیا ہے۔دوسرا مضمون رحیم بخش مہر کا ہے جس میں انہوں نے غنی پرواز کے بلوچی شعری تجربے کا تجزیہ کیا ہے۔ غنی پرواز کو عام طور پر بلوچی فکشن کا نامور نام سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے نہ صرف شاعری کی ہے، بلکہ مختلف فنی و فکری شعری تجربے بھی کیے ہیں ، یہ نستباً غیر معروف بات ہے، جس کا رحیم مہر نے اچھی طرح اور نہایت سلیس انداز میں جائزہ لیا ہے۔تیسرا مضمون اردو سے ترجمہ شدہ ہے جو معروف ادیب بورخیس سے مکالمے پر مشتمل ہے۔ اس مکالمے میں بورخیس کی نجی زندگی کے علاوہ اس کے فن اور مجموعی طور پر ادب میں فکری و نظری مباحث پر بات کی گئی ہے۔ بلوچی کے نام ور ادیب اے آر داد کا یہ ترجمہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
حال حوال میں اس دفعہ سنگت اکیڈمی اینڈ پبلک لائبریری کا اجلاس، سنگت پوہ زانت اور بی ایس او کا نوشکی میں منعقدہ تاریخی سیمینار کا احوال شامل تھا۔
’’ کتاب پچار‘‘ میں چار تبصرے شامل تھے ۔جن میں دو عابدہ رحمان کے تھے۔ جن میں ایک ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتاب ’’کامن سینس‘‘ پر تھا اور دوسرا جنوری کے ماہتاک سنگت کا جائزہ تھا۔
تیسرا تبصرہ ڈاکٹر مزمل حسین صاحب کا ’’مرقعِ اقبال‘‘ پر تبصرہ تھا۔ تبصرہ کیا تھا بس کتاب کے لکھنے سے لے کر اس کی اشاعت تک کا احوال تھا۔ تبصرے کے نام پر صرف کتاب میں موجود عنوانات کی ایک فہرست دی گئی۔ صرف بتایا گیا کہ ان اٹھارہ ابواب میں اقبال کی شخصیت اور کردار کو سمجھنے میں بنیادی معلومات حاصل ہوئی ہیں لیکن مضمون میں ایسے کسی ایک باب پر بھی بات نہیں کی گئی۔ بلکہ آخر تک یہی پریشانی رہی کہ ڈاکٹر صابر کلوروی نے کیوں شائع نہیں کروایا کہ لیہ سے شائع ہوا۔
تیسرا تنقیدی جائزہ عابد میر کا تھا جو انھوں نے انور رومان کے ناول’’ خانہ بدوش‘‘ پر لکھا تھا۔ ایک مکمل تبصرہ جس میں ناول کی پوری کہانی کو قاری پر واضح کیا گیا اور پھر اس پر بات کی گئی، ناول کے مثبت رخ پر بھی اور غلطیوں کو درست کرنے پر بھی۔
اب چلتے ہیں ’ قصہ‘ کی جانب۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں ’ سرخ فیصلہ‘پر جسے لکھا ہے فرزانہ خدرزئی نے۔ یہ ایک سادہ سی کہانی تھی جو فنی لحاظ سے تو کمزور تھی لیکن اس میں سوچ اچھی دی گئی کہ ہر انسان چاہے مرد ہو یا عورت اسے اپنے فیصلے کا حق استعمال کرنے کی آزادی ہو اور نہ ہو تو اسے چھین کر یہ حق استعمال کرنا چاہیے اور دوسروں کا سوچ کر اپنے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔
’’آنکھوں کا سوداگر‘‘ ایف جے فیضی کا قصہ۔ یہ ایک اچھا افسانہ تھا جس میں بتایا گیا کہ حالات کو اپنی آنکھوں پر ہر قسم کی پٹی سے ماورا ہو کر دیکھنا چاہیے ، تجزیہ کرنا چاہیے تاکہ حقیقت صحیح معنوں میں معلوم ہو سکے اور حالات کا ٹھیک سے سدِ باب ہو سکے۔ حالات کو سمجھنے کے لیے نہ تو دوسروں کی نظر کاسہارا لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ضمیر فروشی کرنی چاہیے، تب ہی مسائل حل ہو پائیں گے۔
سلمیٰ جیلانی کے سادہ افسانے میں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ عورت ہمیشہ غلط ہی ہوگی اور نہ ہی بات ضروی ہے کہ بڑے ہمیشہ ٹھیک ہی بولیں گے اور بچے ہمیشہ غلط اس لیے بات ضرور سننی چاہیے اور جب ٹھیک ہو تو ماننا بھی چاہیے۔
قصہ میں گوہر ملک کی ایک بلوچی کہانی بھی شامل ہے جو بچوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ زبان نہایت سادہ، انداز سہل، نثر شستہ اور رواں۔ لالچ بری بلا ہے کہ روایتی موضوع پر کلاسیکی انداز کی ایک سادہ و پُر اثر کہانی۔ کاش ، گوہر ملک کی دیگر تحریروں کی طرح ان کی بچوں کی کہانیاں بھی اردو میں ترجمہ ہو کر قارئین کے وسیع حلقے تک پہنچ سکیں۔
تمثیل حفصہ نے محترمہ زبیدہ جمالدینی کی بابا عبداللہ جان سے وفا اور محبت اور اُن کی ایک ہی دن وفات کو بہت ہی خوب صورت انداز میں ایک افسانوی رنگ دے کر بیا ن کیا۔
شاعری کی بات نہ کی جائے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
بات نظم کی ہو تو اس دفعہ مجھے جو نظم جو بہت مزے کی لگی وہ تھی غنی پہوال کی ،’’ انتظار‘‘۔ پڑھ کر دیکھیں ؛
انتظار!
ماضی کے نقوشِ قدم
دروازے کے ویراں چہرے پر
ہر مہر اور تصدیق سے بے نیاز
کسی فوسل کی طرح ثبت تھے
اداسیوں کی بانجھ آنکھیں
روشنی کو حاملہ کر کے
دیمک کی چال سے اندر بھیج رہی ہیں
دیوار کے شگافوں سے
اذیت سر نکالے نیچے دیکھ رہی ہیں
جہاں فرش پر
کسی کا حنوط شدہ انتظار
ٹکٹکی باندھے دروازے کو تکے جا رہا تھا!
اور بات غزل کی جائے تو ڈاکٹر منیر صاحب کی غزل مزیدار تھی۔ ایک شعر دیکھئے؛
دل پر یاد کا منظر چھائے
وادی پر گھنگھور گھٹا ہے
ایک امید کی غزل تمثیل حفصہ کی؛
شب ہر کہیں ہے لیکن، گم سم مکیں ہے لیکن
امید گا رہی ہے ، صبحوں کی میرے گھر میں
اس کے علاوہ نوشین قمبرانی، انجیل صحیفہ، ادریس بابر اور کاوش عباسی کی شاعری بھی خوب رہی۔
بلوچی شاعری میں رفیق مغیری کے چار بند اور لطیف الملک بادینی کی نظم کے علاوہ وپسٹاروف کی نظم کا بلوچی ترجمہ شان گل اور بورخیس کا اے آر داد کا ترجمہ شامل تھا۔ تراجم اچھے اور قابلِ داد ہیں۔
مجموعی طور پر ایک شاندار پرچہ تھا سنگت کا۔