وراثت شاہ
کٹی پھٹی لاشوں کے ٹکڑے
ڈھوتے ڈھوتے
تمھاری انگلیوں کی لکیروں
کے بیچ خوں کے کتنے خوابیدہ
داغ دفن ہوچکے ہیں
تمھارے ماتھے کی شکنوں
کے بیچ درد کی ہزارہا لکیریں ہیں
جو اپنے خط کھیچتے کھیچتے
ہانپ رہی ہیں
آنکھ کی پتلیوں میں دھرے منظروں کے
ترازو میں کتنے
بریدہ وزن تول چکے ہو
ہاتھوں کی جنبشوں کے درمیان
بوریوں میں بندھی کتنے جوان
تنومند رگوں کی گتھیاں
ہمیشہ کے لیے اپنے راستے کھول چکی ہیں
وراثت شاہ
داغ دھبے دھوتے دھوتے
تخت کی زینت بناتے بناتے کتنے ریشمی خدوخال
اپنے مطالب سے آزاد ہوچکے ہیں
(وراثت شاہ: ایدھی کے غسال )

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے