کمزور ذہن چوڑے ماتھے والے
اور ان کے ہر خط پیشانی میں کنداں
اک کرب مسلسل
چھوٹی آنکھیں کمزور نظر دھندلے مناظر
اور وہ دیکھ لیتے ہیں
مکمل انسانوں کا ادھورا پن
سانس لیتے ہیں آڑی ترچھی لکیروں
آبی رنگوں میں
اور چل پڑتے ہیں ہوا کی خانہ بدوش موجوں کے سنگ
سر دھنتے ہیں موسیقی کی لَے پر
اور ہر سر سے محروم زندگی گزار دیتے ہیں
ہمدردی ترحم یا دھتکار
خوف و رنج کی کٹھن وادیوں سے گزرتے
وہ قیام کرتے ہیں بالآخر سرد اکلاپے میں
بس ایک کروموسومز ادھر سے ادھر ہوا
اور ہر ورق زیست پہ
سوالیہ نشان بن جاتا ہے
جو روز ابھرتا روز مدھم پڑتا
کئی رنگ بدلتا ہے
اپنے ادھورے پن کی دان بصیرت میں
یہ جانچ لیتے ہیں
حسین چہروں کی بد صورتیاں
اجلے تن کے میلے لبادے
مگر ٹوٹے پھوٹے لفظ بھی انکے
چپ کی چادر تانے رہتے ہیں
وہ خدا کی لکھی
ادھوری نظمیں ہیں
جن کے معنی کی کھوج میں
کوئی نہیں پڑتا
اور وہ اپنے سب احساس لیے
سمندر میں تیرتے
شیشے کی بوتل میں بند
پیغام جیسے رہ جاتے ہیں
جنہیں کبھی ساحلوں کا نشان نہیں ملتا