تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
ایک زود نویس، ایک توانا آواز، شاعرِ اُمی علی محمد چگھا بزدار کو دریافت کرنے والا قلمکار اور سب سے بڑھ کر کوہ سلیمان کے بلوچ شعرا کو اردو ادب کے دانشوروں سے متعارف کرانے کا عظیم فریضہ انجام دینے والا غلام قادر ہم میں نہیں رہا۔ ابھی سلطان نعیم قیصرانی کی موت سے ملنے والے داغ مفارقت بھرنے نہ پائے تھے کہ غلام قادر خان بھی دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ دل میں کیا کیا وسوسے جنم لینے لگتے ہیں ؟ کتنے لوگ ایسے رہ گئے ہیں جن کے نزدیک علم و آگہی اور حرمتِ حرف کی کوئی قدر و منزلت باقی ہے۔ کتنے ایسے جہاں دیدہ لوگ باقی رہ گئے ہیں جن کے سامنے حالِ دل بیان کر کے خود کو ہلکا کیا جا سکتا ہے۔۔
غلام قادر خان کا تعلق کوہِ سلیمان کے رند قبیلہ بزدار کے لدوانڑیں شاخ سے تھا۔ ان کے والد بزرگوار غلام فرید خاں ایک نہایت علم دوست اور مُعتبر شخص تھے۔ غلام قادر خان اپنے والد بزرگوار کے بابت بتایا کرتے تھے کہ وہ اس قدر باذوق شعر پسند انسان تھے کہ ایک دفعہ جب اس شاعر صفت بڈھے بلوچ کے سامنے ’’ ہشکیں رکھ سوز بنت‘‘کے چند ایک نظم پڑھے گئے تو انھوں نے حسبِ روایت ہر مصرعے ’گال‘پر شاعر کی تمام محرمات کو دل کھول کر دعائیں دیں کہ قبائلی معاشرے میں دادِ تحسین دینے کا مروجہ انداز آج تک یہی ہے۔ تاہم ہماری کوشش ہے غلام قادر کے بابت تحریمِ ذات کا رشتہ قائم و دائم رہے۔
ایک ایسے ہی علم دوست اور ادب پرور باپ کے سائے میں پرورش اور تربیت پانے والا شخص ہی چالیس کتابوں کا خالق ہو سکتا ہے۔جو کہ ایک چیذغ سے کم نہیں ہے۔ میں محترم غلام قادر خان مرحوم و مغفور کی سوانح حیات پر اس لیئے بھی بات نہیں کر رہا کیونکہ ان کے قریبی عزیز اس موضوع میں کوئی تشنگی نہیں چھوڑیں گے۔
یہ بیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائی کی بات ہے۔ غلام قادر خان اپنے سروس کے آخری برسوں کے خدمات سر انجام دے رہے تھے اور ہم اپنے تئیں ہر فرسودگی اور نابرابری کے خلاف میدانِ عمل تھے۔ اتفاق سے اُن دنوں میں بھی سردیوں کی چھٹیوں کے دوران اپنے گاؤں میں موجود تھا کہ ایک شام مجھے اپنے محترم چچا حافظ جمال خان نے بُلا بھیجا اور بتایا کہ جمعدار صاحب آئے ہوئے ہیں ان کے ساتھ حال احوال کے لیے مہمان خانے میں آجاؤں۔غلام قادر خان کے بارے میں میری عمومی رائے اس ملاقات سے قبل کچھ زیادہ پُرکشش یا قابلِ ذکر نہ تھی کیو نکہ میں اسی کی دہائی سے ترقی پسند اور انقلاب پسند تحریک بی ایس او اور پھر ہفت دسمبر بلوچ موومنٹ سے وابستہ تھا۔ ہم اپنے تئیں ہر فرسودگی اور سرکار کی مخالفت کو جزوِ ایمان سمجھتے تھے۔ سرداری نظام، تعویذ فروشی، فرسودہ رسوم پر مبنی عمل سے تہی دامن جھوٹی دینداری اور علاقے میں سرکار کی نمائندگی کرنے والی بی ایم پی پولیس بالخصوص ہماری ناپسندیدگی کا سامنا کر رہے تھے۔ ایسے میں ایک حاضر سروس پولیس ڈی ایس پی کے لیے کیا جذبات ہو سکتے تھے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔۔لیکن مہمانداری کی روایت نبھاتے ہوئے غلام قادر خان کی محفل ’’کچھاری‘‘ میں پہلی بار آبیٹھا۔ رسمی حال و احوال کے بعد رات گئے تک علاقے کے مسائل اور حالات زیرِ بحث رہے۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہمارے مہمان نے ادب، شاعری ، عہدِ چاکری کے واقعات ، حانی شاہ مرید اور سر شاعر بیورغ کا ذکر چھیڑ دیا۔اب کے دل نے فیصلہ دیا کہ نہاں خانہِ دل میں تصویر بنا رکھی ہے اسے مصور کو واپس کرنا پڑے گا۔ یوں ایک ادبی تعلق کا آغاز ہوا جو اکثر معاملات میں فکری اختلاف کے باوجود بھر پور جذباتی وابستگی اور احترام کے ساتھ آخر دم تک قائم رہا۔
غلام قادر خان نے ایک مسلسل علمی اور قلمی ریاضت سے لوگوں کے دلوں سے اس تاثر کو ختم کیا جو ان کے سروس کے دوران پیدا ہوا تھا۔ ان کی علمی اور فکری بالیدگی کے پیچھے اردو ڈائجسٹ کا بہت بڑا کردار ہے۔ ان سے جدید ترقی پسند دنیا کے ادب سے نبھایا نہیں گیا اور ان کی فکری نقدکاری یوں بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے معروض کے عین مطابق سوچتے تھے اور دستیاب ماحول اور معلومات کے حصار سے نہ نکل سکتے تھے۔ غلام قادر خان کا عہد بقول اقبال ’’ میرے آقا یہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے‘‘ کا عہد تھا۔ اشتراکی کوچہ گرد آقاؤں کے خیموں کی طنابیں اکھاڑ رہے تھے۔ وہ خود اگرچہ کالونیئل عہد میں پیدا ہوئے تاہم انھوں نے جب ہوش سنبھالا تو دولتِ برطانیہ سمٹ رہی تھی۔ سرد جنگ کے دنوں میں انقلابِ روس کے اثرات دنیا کے تمام ترقی پذیر اور محکوم اقوام کو بیداری کا پیغام دے رہے تھے۔ملکِ عزیر میں ایوبی آمریت کے زمانے میں کوہ سلیمان کے بلوچوں کے خلاف لشکر کشی کی گئی، حان بند اول اور دوئم پر مرحوم غلام قاد ر نے تاریخی شواہد تحریر کیے۔اپنی سروس ہی کے دوران پاکستان کو سازشوں کا شکار ہو دولخت ہوتے دیکھا۔ان کے سامنے دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہورہی تھی۔ ہمارے اردگرد بہت ساری تبدیلیاں روُنما ہوئیں۔شاہ ایران کو انقلابِ ایران کے بعد قبر کے دو گز زمین نہیں مل رہا تھا۔ افغانستان میں امریکی ڈالروں نے ایک تباہ کن جہاد کے بیج بوئے۔ کلاشنکوف کلچر اور منشیات کی آمدنی نے معاشی اور معاشرتی توازن برباد کر دیا۔ سعودی دولت نے ہمارے ہاں فرقہ پرستی کو ہوا دیا۔ صدیوں سے اکھٹے رہنے والے، ایک دوسرے کے رشتے ناطے رکھنے والے سادہ لوح لوگوں کو عقیدہ اور فروعی اختلاف کے بھینٹ چھڑایا گیا۔ ہمارے دانشور کے شہر تونسہ میں تکفیریہ فرقے ترقی کرتے رہے۔ معاشرے میں عدم برداشت انتہا کو پہنچی۔ تفریحی مقامات سے لے کر عبادت گاہوں تک میں خود کش حملے ہوتے رہے۔کمزور اقلیت بار بار نشانہ بنے۔ کفر کے فتوے نہایت ارزاں ہوئے۔ عرب بہار کے زیر اثر وقت کے کئی لات و منات نشانِ عبرت بنے۔ علاقائی سطح پر ہفت دسمبر بلوچ موومنٹ کے ساتھیوں نے ایک شعوری جد وجہد شروع کی ، جن کے بارے میں اس وقت کے ڈی ایس پی غلام قادر خان نے حکام بالا کو رپورٹ لکھا ’’ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا‘‘ میڈیکل کے شعبہ میں کمیشن مافیہ نے کیا کیا گل نہیں کھلائے؟ قومی سطح سے لے کر علاقائی سطح تک ہونے والے انتخابات کے نتائج چرائے گئے۔ لوگ حقیقی نمائندوں سے محروم ہوتے رہے۔یہ سب کچھ اور بہت کچھ ہمارے سامنے ہوتا رہا۔ لیکن ہم سب اور ہمارا نامور قلمکار غلام قادر خان ان سب باتوں سے بے نیاز رہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں ایک خاص روایتی انداز اپنائے رکھا۔ وہی اشکِ سحر گاہی سے وضو اور اﷲکے خزانوں میں نقب لگانے والی باتیں۔محض عبادت سے اصلاح احوال اور راہبانہ زندگی۔یوں وہ عالم اسباب میں رہ کر بھی عالمِ کردارسے بیگانگی کا درس تو دیتے رہے لیکن عملاً قابلِ ذکر حد تک دنیا داری فرماتے رہے۔اقبال نے بھی اپنے مشہور طویل نظم میں ’’ابلیس کا مجلسِ شوریٰ‘‘ میں ابلیس کے زبانی کہا تھا۔
تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تا بساطِ زندگی میں ان کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر غیروں کے خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہمارے محترم ادیب غلام قادر خان نے ایک حد تک بزدار سردار کی مخالفت کی ، جس میں نظریہ سے زیادہ قبائیلی ناچاکیوں کا ہاتھ تھا۔غلام قادر خان علاقائی معاملات کو سفید ریش حضرات کے جرگے کے ذریعے حل کرنے میں کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے اور ان کی یہ خوبی سرداروں کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ انھوں نے تین درجن سے زیادہ مشکل ترین معاملات جن میں قتل کے مقدمات بھی تھے احسن طریقے سے حل کیے۔ اس کے پیچھے در اصل لوگوں کی ریاستی نظامِ عدل پر عدم اعتماد کار فرما تھا۔
میں نے اپنے بزرگ قلمکار کو ایک آدھ بار جدید علوم، فلسفہ، تاریخ اور مذاہبِ عالم کی کتابیں پیش کیں تو موصوف نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیں اور نہایت شفقت سے فرمایا ’’ تم بلوچستان والے دین سے بہت دور ہو‘‘ میں نے بھی بار ہا عرض کیا۔ کہ ’’ لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے؟۔ یورپ میں میگنا کارٹا کے بعد تشکیل پانے والا معاشرہ ہمارے سامنے ہے۔ اب کسی گلیلیو کو تختہِ دار تک لے جانے کی جُرئت کوئی کلیسا نہیں کر سکتا۔ فتووں کی دکانیں بند ہوگئیں ہیں۔ تحقیق اور جستجو کے میدان میں حیران کن کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ مثالی فلاحی ریاستیں وجود میں آچکی ہیں جن ریاستوں میں ہم سب اہلِ تقویٰ سر کے بل چل کر جانے کو تیار ہیں۔
اوذا زیندے پری کندغیں لڈغیں
دست حنی گلیں، دیم ماہ گونگیں
پاد ابریشم ایں دید ایماں بریں
زانت ، نوذئے قلم ، عالمِ شاعرے
ہر گرئے شنزغیں۔
نارسائی غمِ ٹونک پچار نئیں
مہرے واپار نئیں ، راجی سڑدار نئیں
لوٹ جاتی ہے اُدھر کو نظر کیا کیجیے؟ دوسری جانب ایک ہم ہیں اسی فرسودہ قبائیلی نظام اور کرم خوردہ معاشرتی ماحول میں صرف مرنے کے لیے زندہ ہیں۔ ایک باقاعدہ سازش کے تحت ہمارے نوجوان بے عملی کا شکار کیے گئے۔میرے عہد کے دانشور اس ذمہ داری سے محض یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کہ:
’’ مجھ کو اپنے اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تر ہے‘‘
ہماری بد نصیبیوں کے ذمہ دار وہ خانکاہی نظام بھی ہے جسے انگریزوں نے اپنی اقتدار کو طول دینے اور عوامی دباؤ یا قومی انقلابات سے بچنے کے لیے تصوف کی شکل میں پروموٹ کیا۔ پھر راہبانیت نے فرار کی راہیں تلاش کیں۔ نصف صدی سے ’’نور یا بشر؟ وضالین یا ودوالیں؟ کے جھگڑے نفرتوں کے بیج بوتے رہے۔نتیجہ یہ کہ دنیا کی ہر برائی، ہر کمزوری اور ہر محتاجی ان اقوام کی تقدیر بن گئی۔مُلا اور ملوکیت کے گٹھ جوڑ سے عسکری آمریتوں کا میدان سجتا رہا۔ باہمی انتشار، عدم استحکام، جہالت، حق تلفیاں، سماجی نابرابری، نفرتیں اور ہمیشہ کی محتاجی پسماندگی کی سوغات لیے غریب اقوام کی تقدیر بنی۔ دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی قیادت ان اقوام کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے علم، تحقیق اور سانئسی طرزِ فکر کو اپنا امام مانا۔اس کے برعکس جن قوموں نے اَن دیکھی فرحتوں کے خواب دیکھے اور سہل پسندی یا فرار کا راستہ اختیار کیا ان کے لیے ہمیشہ کی محتاجی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اہل دانش پر فرض ہے کہ اپنے نوجوانوں کو معاشرتی بگاڑ اور غلامانہ ذہن سے بچائیں۔انھیں مستقبل کے عفریتوں حقیقی خطرات سے آگاہ کریں۔
اپنے اپنے ایمانیات کی حفاظت کرتے ہوئے بھی کیوں نا عالمِ اسباب میں سائنسی فکر کو اپنایا جائے۔
سات ولیوں کے برابر طاقت رکھنے والے سردار’’ ایک فرسودہ روایت‘‘ اور پیرانِ حرم جن کے پاس عوامی نمائندگی کا مرتبہ ہے سے عرض ہے کہ ہماری بخشش اور آخرت کے معاملات اس عظیم رحمان و رحیم ذات پر چھوڑ کر علاقے کے مادی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کریں۔
غلام قادر خان مرحوم سد ستائش کے حقدار ہیں کہ انھوں نے عمرِ عزیز کا بڑا حصہ قبائلی خباستوں اور بد نامِ زمانہ بی ایم پی کی غلاضتوں میں بسر کرنے کے بعد بھی اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چالیس سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ان کا اہم ترین کام چگھا بزدار کا سلیس ترجمہ ہے۔ اصلاحَ احوال کے لیے انھوں نے اردو، ہندی، بلوچی اور سرائیکی میں ایک توانا آواز بن کر اپنا لوہا منوایا۔
ڈاکٹر گل عباس کا ’’ کوہِ سلیمان کا علمی حاتم‘‘ صابر حسین مری ، ’’تونسہ کا شاعر‘‘ فیض ہادی کا ’’ کوہسارِ ادب‘‘ اور بہت سے لکھاری حضرات کا ان کے کام کو خراجِ تحسین ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔
دعا ہے کہ اﷲتعالیٰ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔