علم۔ شعوراور محبت، جذبہ سے عبارت ہے۔ اگر ان دونوں کو یکجا کر دیا جائے تو ماما عبداللہ جان جمالدینی کی زندگی کا کوئی ایک ورق ہمارے دل میں احساس کی سطح پر کھل سکتا ہے ۔ ماما نے جب عملی صحافت میں قدم رکھا تو بلوچستان میں گریٹ گیم کی دھول ابھی نہیں بیٹھی تھی۔ صوبائی خودمختاری کا مسئلہ، نیشنل عوامی پارٹی کا قیام ، ترقی پسند قوم پرست سیاست اور مرکز مائل اور مرکز گریز صحافت کے رجحانات فضا پر طاری تھے۔
1949میں پاکستان سیفٹی ایکٹ اور بعد ازاں 1963کا پریس اینڈ پبلی کیشنر آرڈننس کانفاد ہوچکا تھا ۔ ماما کی کی فعال صحافتی زندگی میں 30نومبر 1956کو پاکستان کے تمام ترقی پسندوں کی نمائندہ سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی قائم ہوئی ۔ 14اکتوبر 1955کو ون یونٹ کا قیام اکتوبر 1958میں مارشل لاء کا نافذ اور 1964میں نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کردیا گیا۔
نیشنل عوامی پارٹی کے علاوہ شاید کوئی خوش کن خبر ماماکے لیے نہیں تھی ۔ تاہم ترقی پسند سیاست اور ترقی پسند صحافت کے خدوخال بہت واضح ہوچکے تھے۔ نو آباد یاتی نظام کے خلاف مزاحمت میں دونوں شعبوں نے کامیاب جنگ لڑی تھی۔ بلوچستان میں 1938میں پریس ایکٹ آیا۔ جو مزاحمت کی روایت کا حصہ بنا۔ اور یہ رنگ ادب سیاست اور صحافت پر بہت گہرا تھا۔
ٍ ماما عبداللہ جان جمالدینی نے1950میں لٹ خانہ سے روشن خیالی اور ترقی پسندی کی تحریک کا آغاز کیا۔ لٹ خانہ سائنسی ، تعلیمی اور فکری انقلاب کو بلوچستان میں بنیاد یں فراہم کرنے کا کامیاب حربہ تھی۔ جواب بھی جاری ہے ۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری انہیں اومانٹک کمیونسٹ کہتے ہوئے بتاتے ہیں۔
’’سٹینڈرڈ ہوٹل میں میرگل خان نصیر اور ان کے سیاسی رفقاء کے علاوہ غلام محمد شاہوانی اور ملک پناہ بھی اکثر ملتے ۔ جب میر غوث بخش بزنجو کوئٹہ آتے تو اکثر گل خان کے ساتھ قیام کرتے ۔ لٹ خانہ کے دوست بیشتر وقت ان کی صحبت سے استفادہ کرتے۔ بزنجو صاحب کمیونسٹ پارٹی میں رہے تھے اور ترقی پسندوں سے گہرا تعلق تھا۔ وہ لٹ خانہ والوں کو اپنا ہم خیال سمجھتے تھے‘‘
وہ کہتے ہیں۔
’’لٹ خانہ میں عبداللہ جان ، خدائیداد اور کامل القادری یکجا تھے۔ چنانچہ کامل نے ان کی سٹڈی سرکل لینی شروع کی اور مارکس واینگلز کی کتاب’’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ انہیں سناتے ۔ جس پر وہ بحث کرتے اور اسی حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی امور کو دیکھنے لگے ‘‘
1953میں لٹ خانہ نے پشتو زبان کا عہد ساز مجلہ’’پشتو‘‘ کی اشاعت کی ۔ جس کا ڈیکلریشن کمال خان شیرانی کے نام سے لیا گیا۔ یہ ڈیکلریشن بلوچی مجلہ ’’سوب ‘‘ کو اجراء کی اجازت مسترد ہونے کے بعد دیا گیا تھا۔ تاہم 1953میں بزنجو صاحب کی دلچسپی سے ’’نوائے وطن‘‘کی اشاعت کی اجازت مل گئی ۔ غلام محمد شاہوانی ان دنوں ’’اتحاد ‘‘ کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ سومیر گل خان نصیر کی ادارت میں ’’نوائے وطن ‘‘ کا اجراء ہواتو عبداللہ جان جمالدینی اس کے معاون مدیرمقرر کیے گئے ۔ تاہم بعدازاں غلام شاہوانی ’’نوائے وطن ‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ سیمی نغمانہ طاہر کہتی ہیں۔
ٍ ’’نوائے وطن بلوچستان کی صحافت میں سنگ میل ثابت ہوا‘‘
ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں۔
’’جون1953میں’’ نوائے وطن‘‘ کا پہلا شمارہ گل خان نصیر کی ادارت میں کوئٹہ سے شائع ہوا۔ عبداللہ جان بدستور اُس کا(جیسا کہ نوائے بلوچستان کے دور میں تھا)معاون مدیر تھا۔ اس اخبار کی پالیسی نسبتاً آزاد تھی ۔ قلات نیشنل پارٹی کی فکر اور نظریات کی پیروی ،آزاد خیال نیشنلسٹوں کی پالیسی ، بائیں بازو کی جانب رجحانات ۔۔۔۔۔۔۔ پھر گل خان نصیر چونکہ خود صحافی کے علاوہ ادیب اور شاعر بھی تھا۔ اس لیے اخبار میں ادبی مواد اور خبریں اچھی خاصی ہو تیں۔ المختصریہ مکمل طور پر ایک عوامی پر چہ تھا‘‘۔
اب ماما دو اخباروں یعنی نوائے وطن اور پشتو سے منسلک تھے۔ 1953میں معروف کمیونسٹ رہنما سوبھو گیان چندانی سے ان کی ملاقات اور لٹ خانہ آمد ان کے فکری اور سیاسی زندگی پر اثر انداز ہوئے۔1953میں ہی ماما نے ٹالسٹائی کے افسانہ کا بلوچی میں ترجمہ کیا۔ 1957میں اپنے بھائی آزاد جمالدینی کے ادبی رسالہ ’’بلوچی‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ مالی مشکلات کے دنوں میں انہوں نے سوویت انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پروف ریڈنگ بھی کی۔ وہاں سے ’’سوویت خبریں ‘‘اور’’ سوویت نیوز ‘‘شائع ہوتے تھے ۔ اسی دوران انہوں نے روسی زبان سیکھی۔ مارشل لا، میں ان اخباروں کی بندش کے بعد 1965میں تاشقندمعاہدے کے بعد وہ پاکستان میں سوویت سفارتخانے کے اردو ، بنگالی او رانگریزی زبانوں کے ماہنامے ’’طلوع ‘‘ سے دوبارہ منسلک ہوگئے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری ’’ہمارا بلوچستان ‘‘ کے منشور جسے ماما مینی فیسٹو کا درجہ دیتے تھے کے حوالے سے کہتے ہیں۔
’’ان کے بلوچستان میں سرداری اور ریاستی نظام نہیں ہوگا۔ بلوچستان ایک صوبہ ہوگا جس میں سب لوگ جمہوری اور نمائندہ حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے۔ اس میں نہ مستجار علاقوں کا مسئلہ ہوگانہ ریاستی برٹش بلوچستان کا امتیاز ۔ یہ ایک عوامی اور جمہوری صوبہ ہوگا‘‘
اب بہت ساپانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا۔ 1953کے فکرواحساس واظہار کا اطلاق بہت حساس سوال بن چکا ہے۔ لیکن ایک دلسوز مفکر اور روشن خیال صحافی اور عملی فلاسفر کا گداز اُس کے افکار سے جھلکتا ہے۔ 1644میں جان ملٹن نے تصورات کی جس مارکیٹ کا ذکر کیا تھا۔ اس میں جو بنیادی مطالبہ کیا تھاوہ یہی تو تھا یعنی:
1: جاننے کی آزادی
2: اظہار کی آزادی
ٍ 3ضمیر کی آزادی
پریس سنر شپ کے خلاف چار لس اول کے مقابلے میں وہ ترقی پسند ، کلیسابیزار اور روشن خیال اولیو رکرامویل کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس نے کہا تھا ‘‘ایک تحریر کو اور ایک کتاب کو قتل کرنے ولا شخص جوا زکو ، منطق کو ، دلیل کو قتل کرتاہے ۔ ملٹن کے تصورات کی مارکیٹ اب سرمایہ دارانہ اساس ہے میڈیا کی اطلاعات کی منڈی ،تخلیقات کی منڈی اور مفادات کی منڈی میں تبدیل ہوگیا ہے
آرٹ ، سائنس او رکرافٹ کایہ طلسم کدہ اقدار ، روایات اور علمی شعور کی بجائے ایجنڈا اورینٹڈ ہوگیا ہے ۔ اب بریکنگ نیوز کا طوفان سوشل کتھار سس نہیں کرپارہا۔ بلکہ میڈیا انگزائٹی پیدا کر رہاہے ۔ خبر کے صارف معاشرے فیک نیوز کے تازہ خلفشار سے دوچار ہیں۔ نیوزانجیرنگ سے رائے عامہ سازی ممکن نہیں۔ پرائم ٹائم میں اینکر پرسن اور رائے عامہ کے ماہرین نیوز کلوننگ کرتے ہوئے سیاق وسباق سے نکل جاتے ہیں ۔ حالات حاضرہ کے پروگرام شعورِ عصر سے عاری اور خبری ترسیل رائے عامہ ساز نہیں ،ابہام شکار ہے ۔ اور کبھی کبھی تو لگتا ہے۔
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
ماما سیاست کو جمہوریت اور صحافت کو شعور کے تابع دیکھنا چاہتے تھے۔ صحافتی اخلاقیات ثقافتی اثاثوں کے بغیر انہیں لغو لگتے تھے۔ کسی اطلاقی فلسفہ کے بغیر نشریاتی عمل الجھاؤ ہی پیدا کرتاہے ۔ اس لیے وہ ایک نظریہ کے ہوکررہے۔ جمہوری نظام میں مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کی اختیار اتی تثلث پر صحافت عوامی محاکمہ ہے ۔ جس کے ماما ہمیشہ مداح اور وکیل رہے۔
بلوچستان میں آ نے والے پانچ برسوں میں میڈیا کا کردار ابھی متعین نہیں۔ رائے عامہ کے بیشتر جائزے مہربہ لب ہیں۔ لیکن عوامی ادب، ثقافتی اقدار اور شعور عصر کے اثاثے جو ماما کی میراث ہیں کسی نئے افق پر ضرور کھلیں گے۔